صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کو سراہتے ہیں لیکن اسرائیل نے نسل کشی نہیں روکی، حماس
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیا نے مصری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قاہرہ کے شرم الشیخ میں جاری غزہ جنگ بندی مذاکرات میں فلسطینی مذاکراتی ٹیم کے تازہ ترین موقف اور نقطہ نظر کے بارے میں بتایا۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مزاحمت حماس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیا کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے جنگ روکنے کے اپنے وعدے توڑ دیے ہیں اور جارحیت کے مکمل خاتمے کے لیے حقیقی ضمانت دی جانی چاہیے۔ حماس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیا نے مصری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قاہرہ کے شرم الشیخ میں جاری غزہ جنگ بندی مذاکرات میں فلسطینی مذاکراتی ٹیم کے تازہ ترین موقف اور نقطہ نظر کے بارے میں بتایا۔
انہوں نے اشارہ کیا کہ صیہونی حکومت دو سال سے غزہ کے خلاف ایک احمقانہ جنگ لڑ رہی ہے، ہم استحکام، آزاد ریاست اور اپنی قوم کے اہداف اور امنگوں کو لے کر چلتے ہیں، ہم اسلامی اور عرب ممالک کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوششوں کو سراہتے ہیں، ہمارا مقصد جنگ کو ختم کرنا، قیدیوں کا تبادلہ کرنا اور اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہے، انتہائی ذمہ داری کے ساتھ، ہم جنگ روکنے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کرتے ہیں، لیکن قابض حکومت قتل و غارت اور نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے، اس حکومت نے جنگ کو روکنے کے اپنے وعدوں کو توڑ دیا ہے، اور جارحیت کے مکمل خاتمے کی حقیقی ضمانتیں ہونی چاہئیں۔
اس سے قبل حماس تحریک کے ایک ذریعے نے الجزیرہ کو بتایا تھا کہ مصری شہر شرم الشیخ میں ہونے والے اجلاس کے دوسرے روز ثالثوں اور حماس کی مذاکراتی ٹیم کے درمیان مذاکرات ختم ہو گئے تھے۔ حماس کی مذاکراتی ٹیم نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کے انخلاء پر زور دیا ہے۔ حماس کے وفد نے اس بات پر زور دیا کہ آخری اسرائیلی قیدی کی رہائی غزہ سے آخری صہیونی فوج کے انخلاء کے ساتھ ہی ہونی چاہیے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حماس کی مذاکراتی ٹیم مذاکراتی ٹیم کے
پڑھیں:
ٹرمپ کاامن منصوبہ اور مسلم قیادت
حمیداللہ بھٹی
غزہ میں جنگ نہیںنسل کشی ہورہی ہے کیونکہ حماس کے پاس کوئی فضائی طاقت نہیں۔ ہتھیاربھی ازکار ِرفتہ ہیں اور نفری بھی تربیت یافتہ نہیں ۔نیز بھوک وپیاس سے نڈھال اور اِتنے مسائل کے باوجود اپنی شناخت کے تحفظ کی جبلت اُسے شکست تسلیم کرنے سے روکتی ہے۔ وہ تمام تر بے سروسامانی کے باوجوداپنی بساط کے مطابق دفاع میں ثابت قدم ہے۔ دوبرس سے اسرائیل کی طرف سے غزہ میں جاری نسل کشی نے دنیا کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ اسی بناپر امریکہ اور اسرائیل کو عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا ہے ۔ اسرائیلی سفاکانہ بمباری پر شدید ردِ عمل آنے سے ہی برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک بالآخر فلسطینی ریاست تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو صدرٹرمپ جیسے مذہبی تعصب کے شکار شخص کو امن منصوبہ پیش کرنے کی طرف لائی ہے۔ اِس منصوبے کی ابتدامیں چند اہم مسلم ممالک نے حمایت کی جسے اِس بناپر مسلم قیادت کی جلد بازی سمجھاجارہا ہے کہ امن منصوبے میں نہ صرف آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست بارے کوئی لائحہ عمل نہیں اور نہ ہی القدس شریف پر قبضہ ختم کرانے کی بابت کوئی واضح یقین دہانی ہے ۔انھی وجوہات کی بناپر ایسے قیاسات کو تقویت ملتی ہے کہ اسرائیل سے دنیا کی بڑھتی نفرت کو کم کرنے کے لیے ہی امریکہ میدان میں آیا ہے ، جس کا مسلم قیادت نے ادراک نہ کیا اور جلد بازی میں حمایت سے اپنی ساکھ دائو پر لگالی۔
فلسطین کا مسئلہ دراصل اسرائیل کا پیدا کردہ ہے۔ اگروہ جارحانہ پالیسی اورتوسیع پاسندی ترک کردے تو مشرقِ وسطیٰ میں فوری طورپر امن قائم ہو سکتا ہے، مگر اسرائیل کی توسیع پسندی نے فلسطین اتھارٹی کوچند ایک ایسے شہروں تک محدود کر دیا ہے جہاں غربت ا وربھوک و افلاس کا راج ہے جوہر حوالے سے اسرائیل کی محتاج ہے۔ فلسطین کو اِس نہج تک لانے میں پی ایل او کی حماقتوں کابھی اہم کردار ہے۔ اگر اوسلومعاہدے کے وقت یاسر عرفات جلدبازی نہ کرتے توآج فلسطینی اتھارٹی یوں بے بس ولاچار نہ ہوتی۔ جب حماس غزہ کی منتخب قیادت ہے تو امریکہ اور اسرائیل کااُسے دہشت گرد قرار دیناسمجھ سے بالاتر ہے ۔ٹرمپ امن منصوبے میں فلسطینی ریاست بارے میں تو ابہام ہے مگر حماس کی قیادت کو غیر مسلح کرنے اور ملک بدرکرنے بارے غیر مُبہم وضاحت ہے جس سے اسرائیل نوازی آشکار ہوتی ہے۔ حماس کے ہتھیارڈالنے کے بعد اسرائیلی کوانخلا کاوقت دیناجانبداری کو عیاں کرتا ہے، ا سرائیل کا قیام برطانیہ کی وجہ سے ممکن ہوا مگر اب یہ حالت ہے کہ خطے میں امریکی پالیسی کا تعین اسرائیل کرتا ہے۔ ٹرمپ امن منصوبے میں ایک بین الا قوامی عبوری اِدارے کا تصور پیش کیا گیا ہے جس کی صدارت امریکی صدر کے پاس ہوگی، جبکہ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئرکو اِس کاحصہ بنایا گیاہے۔ علاوہ ازیں غزہ کی مستقبل میں دیکھ بھال کے لیے ٹرمپ نے اپنے صیہونی داماد جیرڈکشنر کو بھی اہم کردار تفویض کیا ہے، یہ سب امن پسندوں کوچونکانے کا باعث ہے امن منصوبہ کسی سازش کاپیش خیمہ معلوم ہوتا ہے جسے مسلم امہ کو سمجھنا چاہیے۔
صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے آٹھ بڑے مسلم ممالک کی مشاورت سے امن منصوبہ پیش کیا جس کی پاکستان سمیت سب نے حمایت کی ہے مگرحمایتی امن منصوبے کے خدوخال سامنے آنے پراب پریشان لگتے ہیں اور اپنی لاتعلقی ظاہرکرر ہے ہیں۔ قطر نے تحفظات کا اظہار کیا ہے پاکستان بھی اب فاصلہ اختیار کرتا نظر آتا ہے جبکہ حماس نے بھی امن منصوبہ رَد کر دیا ہے تواعتماد کا شکار امریکہ کوحالات کی سنگینی کاکچھ احساس ہواہے اور وہ دوست ممالک کو اعتماد میں لینے لگا ہے ۔قطر کو دفاع کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جبکہ شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیرکے ساتھ ہونے کے دعویٰ پر اسحاق ڈار کو کہنا پڑا ہے کہ ہم کسی ابراہم اکارڈ کا حصہ نہیں بننے جارہے، اگر مسلم قیادت جلدبازی سے گریز کرتی توشایدٹرمپ ایسی جانبداری سے کام نہ لیتے اورنہ ہی آج مسلم قیادت عوامی حلقوں میں ہدفِ تنقید بن رہی ہوتی جلدبازی کاشاخسانہ ہے کہ امن منصوبے کی حمایت کی یقین دہانی کرانے والے قطر سمیت دو عرب ممالک اب مخمصے میں ہیں کہ کیسے حماس کو منصوبہ تسلیم کرنے پر رضا مند کریں۔ اب تو یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی فوج کی واپسی نیتن یاہوکی خواہش کے مطابق ہونابہت مشکل ہے۔ اسی لیے امن منصوبے میں بار بار ترامیم کرانے کی نوبت آئی مسلم قیادت کی طرف سے حمایت کے باوجود امن منصوبہ کا پایہ تکمیل کو پہنچنااِس لیے بھی مشکل ہے کہ اکثر مسلم ممالک کی قیادت عوامی اعتماد سے محروم ہے جوحمایت کے بعد اب تذبذب میںہے جو اُسے کسی غیر معمولی فیصلے سے روکتی ہے ۔
امن منصوبے میں حماس سے کہا گیا ہے کہ بہتر گھنٹوں میں زندہ یرغمالیوں کورہاکرے اور دودرجن کے قریب مردہ یرغمالیو ں کی باقیات اسرائیل کے حوالے کردے بعد گرفتار کیے گئے فلسطینیوں کواسرائیل رہا کرے گا ۔ماضی کے تجربات شاہد ہیں کہ اسرائیل وعدے پورے نہیں کرتابلکہ من مرضی سے کام لیتا ہے ۔اسی لیے تمام تر مشکلات کے باوجود حماس اب اسرائیل پر اعتماد کرنے میں ہچکچارہی ہے۔ جنگ بندی کے ایام میں حماس کی طرف سے یرغمالیوں کی رہائی ہوتے ہی اسرائیل حملے کرتارہاہے جس کے سدِ باب کے حوالے سے جب مسلم قیادت پہلے کچھ نہیں کر سکی تو اب بھی ایسا امکانات کو رَد نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل امن ،اصول ،اخلاق یا انسانی ہمدردی کو خاطر میں لائے بغیر شقی القلبی سے کام لے گا اور مسلم قیادت عملی اقدامات کی بجائے محض زبانی کلامی مذمت تک محدود رہے گی ۔لہٰذابہتر یہ ہے کہ غزہ کو مزید قربانی کا بکرابننانے سے گریز کیا جائے ۔امن معاہدے پر عمل کرنا یا جان چھڑانا دونوں صورتوں میں نیتن یاہو کے لیے بھی زیادہ خوشگوار صورتحال نہیں ہو سکتی جب وہ انتہائی دائیں بازو کی متعصب جماعت کے ووٹوں کی کمزور بیساکھی کے سہارے حکومت کررہے ہیں ۔اِس صورت میں بہتر ہوگا کہ تمام فریقین کوکسی نئے امتحان میں ڈالنے کی بجائے انصاف سے کام لیاجائے ۔
غیر جانبدار حلقے متفق ہیں کہ ٹرمپ امن منصوبے سے بھلے مشرقِ وسطیٰ میں امن نہ آئے اور قبضے میں لیے گئے علاقے پروشلم وگولان کی پہاڑیایوں سے فوجی انخلا نہ ہو نیز غزہ کا محاصرہ بددستور رہے لیکن اسرائیل کو تسلیم کرانے کا دیرینہ خواب پوراہوسکتاہے۔ بہتر یہ ہے کہ اِس حقیقت کو مسلم قیادت سمجھے ایسا ہی منصوبہ عراق میں جب ناقابل قبول قرار پاچکا تو نیاتجربہ کرنادانشمندی نہیںایسے جانبداری پر مبنی منصوبے کو تسلیم کرنے سے عرب بہار جیسی بیداری کی ایک نئی لہر جنم لینے کاخدشہ بھی بعید ازقیاس نہیںہے۔ ٹرمپ امن منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے مسلم قیادت تمام پہلوئوں کو مدِ نظر رکھے اور فلسطینیوں کے مفاد کا تحفظ یقین بنائے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا دوٹوک موقف رہا ہے کہ اسرائیل مسلم دنیاکے دل میں پیوست خنجر ہے تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہیں مگر دوریاستی حل کی حمایت دراصل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے اور یہی امن منصوبے کی آڑ میں ہوناہے ۔
٭٭٭