مصر: اسرائیل اور حماس کے درمیان ممکنہ جنگ بندی مذاکرات، قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت متوقع
اشاعت کی تاریخ: 6th, October 2025 GMT
اسرائیل اور حماس کے وفود پیر کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں ممکنہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ذرائع کے مطابق مذاکرات میں تمام یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کرنے پر بات چیت ہوگی۔
اسرائیلی وفد کی قیادت رون ڈرمر کر رہے ہیں جبکہ حماس کا وفد پہلے ہی مصر پہنچ چکا ہے۔ امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف بھی مذاکرات میں شریک ہوں گے۔
یہ پیشرفت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا 21 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا ہے، جس میں حماس کے غیر مسلح ہونے، یرغمالیوں کی رہائی، اور غزہ میں ایک عبوری انتظامی حکومت کے قیام کی تجاویز شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: حماس نے امن منصوبے پر عملدرآمد سے انکار کیا تو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے، ٹرمپ کی دھمکی
دوسری جانب، غزہ پر اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 67,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اقوام متحدہ کے مطابق زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ قریباً 48 یرغمالی اب بھی حماس کی حراست میں ہیں، جن میں سے 20 کے زندہ ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
ٹرمپ نے حماس کے جزوی رضامندی کو امن کی سمت اہم قدم قرار دیا ہے اور اسرائیل سے بمباری روکنے کی اپیل کی ہے تاکہ قیدیوں کی رہائی ممکن بنائی جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حماس شرم الشیخ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شرم الشیخ حماس کے
پڑھیں:
’اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو جائز سمجھتے ہیں‘، حماس نے غزہ سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد مسترد کردی
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی قرار داد اور اس کے تحت بین الاقوامی امن فورس کی تعیناتی کے منصوبے کو مسترد کردیا۔
الجزیرہ کے مطابق حماس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ قرارداد فلسطینی عوام کے مطالبات اور حقوق پر پورا نہیں اترتی۔
مزید پڑھیں: حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدہ، سعودی عرب کا خیر مقدم، غزہ میں جشن
بیان میں کہا گیا ہے کہ قرارداد کے مطابق غزہ کا کنٹرول ایک بین الاقوامی سرپرستی میں چلا جائےگا جسے فلسطین کے عوام اور تمام مزاحمتی دھڑے قبول نہیں کرتے۔
حماس نے کہاکہ اگر بین الاقوامی فورس کو غزہ کے اندر مزاحمتی دھڑوں کو غیر مسلح کرنے کا اختیار دیا جائےگا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فورس غیرجانبدار نہیں رہے گی بلکہ فلسطین میں کارروائیاں کرےگی۔
مزاحمتی تنظیم نے کہاکہ بین الاقوامی فورس اگر بنائی جاتی ہے تو ضروری ہے کہ اسے صرف سرحدوں تک محدود رکھا جائے، جو صرف جنگ بندی کی نگرانی کرے، اور یہ سارا عمل اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونا چاہیے۔
حماس نے کہاکہ ہمارے نزدیک اسرائیل ایک قابض ریاست ہے اور اس کے خلاف ہر طرح کی جدوجہد جائز ہے۔ ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔
حماس نے عالمی برادری اور سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ غزہ کے لیے ایسے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے جس سے جنگ کا مکمل خاتمہ ہو اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جس کا دارالحکومت القدس ہو۔
مزید پڑھیں: پس پردہ کہانی: حماس اسرائیل معاہدہ کیسے ممکن ہوا؟
واضح رہے کہ سلامتی کونسل نے صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے حق میں قرارداد منظور کرلی ہے۔
اس سے قبل حماس نے بھی صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کی حمایت کی تھی، تھی جس کے تحت حماس اور اسرائیل نے ایک دوسرے کے قیدی رہا کیے تھے، اور لاشوں کا بھی تبادلہ کیا گیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اقوام متحدہ بین الاقوامی فورس حماس فلسطین مزاحمتی تنظیم وی نیوز