دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251008-03-7
جاوید احمد خان
ایک زمانے میں پولیس والوں کی طرف یہ بات تواتر کے ساتھ سننے کو ملتی تھی اور اب بھی کہیں کہیں دھیمے سروں میں آتی رہتی ہے کہ ہم بڑی محنت سے مجرموں کو گرفتار کرتے ہیں اور ان کے خلاف کیس بنا کر عدالتوں میں لے جاتے ہیں لیکن ان کو عدالتوں سے ضمانت یا رہائی مل جاتی ہے۔ ججوں کی طرف سے جواب آتا تھا کہ پولیس کیس ہی اتنا کمزور بنا کر بھیجتی ہے کہ نہ چاہنے کے باوجود وکیل صفائی کے مضبوط دلائل کی بنیاد پر ضمانت دینی پڑجاتی ہے۔ بات دونوں کی ٹھیک اور وزن دار ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ جن اداروں میں کرپشن کی جڑیں گہری ہوں وہاں پھر سب کچھ ہوسکتا ہے۔ پولیس کا موقف اس وقت درست مانا جائے گا جب وہ پراسیکیوشن میں مضبوط دلائل کے ساتھ چالان بنا کر کیس پیش کرے تو پھر ضمانت یا رہائی مشکل ہوجاتی ہے۔ بچپن سے یہ بات سنتے چلے آرہے ہیں حتیٰ کہ وہ ناخواندہ خواتین تک یہ کہتی تھیں کہ پولیس والوں سے بات چیت چل رہی ہے کہ وہ کیس میں کوئی ایسا نکتہ ڈال دیں گے کہ بچے کی ضمانت بھی ہوجائے اور آگے کیس بھی آسان ہوجائے۔ پندرہ بیس برس قبل کی بات ہے کہ شریف آباد کے ایک ٹیوشن سینٹر سے ایک تنظیم کے کارکن رفیق ببلی نے ایک طالبہ کو اغوا کیا اور اسے دو دن ایک مکان میں رکھ کر اس کے ساتھ زیادتی کی بعد میں تنظیم نے کہا کہ رفیق ببلی کا ہماری تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مظلوم لڑکی کے والد جو ایک شریف اور عزت دار فیملی سے تعلق رکھتے تھے تھانے میں آئی او (تفتیشی افسر) کے سامنے اداس بیٹھے تھے ان کی آنکھوں سے آنسو گررہے تھے۔ تفتیشی افسر نے ان سے کہا کہ بابا جی میرے آگے بھی پانچ بیٹیاں ہیں میں ان شاء اللہ ایسا کیس بنائوں گا کہ مجرم پھانسی کے پھندے تک پہنچ کر رہے گا اور پھر ہم نے دیکھا کہ کچھ عرصے بعد کراچی سینٹرل جیل میں رفیق ببلی کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔
آپ سمجھ تو گئے ہوں گے یہ تمہید کیوں باندھی گئی ہے۔ اس ماہ کے شروع میں امریکا میں جو ہلچل دکھائی دے رہی تھی اور 8 مسلم ممالک کے سربراہان کی ٹرمپ سے ملاقات بھی ہوئی اس میٹنگ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ فلسطین کے لیے 21 نکاتی فارمولہ ان سربراہان کے سامنے رکھا۔ گو کہ یہ بہت آئیڈیل فامولہ تو نہیں تھا لیکن فلسطین میں نسل کشی ختم کرنے کے لیے ایک موقع تھا جسے یہ مسلم سربراہان کھونا نہیں چاہتے تھے۔ جب یہی 21 نکاتی فارمولہ نیتن یاہو کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے اس میں کچھ ایسی تبدیلیاں کردیں کہ یہ 21 کے بجائے 20 نکاتی ہوگیا۔ پہلے والے فارمولے میں دو ریاستی حل کی بات کی گئی تھی اس شق ہی کو ختم کردیا گیا ہے اور پورا فارمولہ حماس اور فلسطینیوں کے بجائے اسرائیل کے حق میں چلا گیا۔ اسی فارمولے کے بارے میں ٹرمپ نے کہا ہے کہ حماس کو ہم تین چار دن کا وقت دے رہے ہیں کہ وہ اس فارمولے کو قبول کرلیں یا پھر جہنم کے لیے تیار ہوجائیں اور پھر اسرائیل حماس کے ساتھ جو کچھ کرے گا ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو کیا اس سے پہلے وہ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ پہلے والے فارمولے میں ابراہام اکارڈ کی روشنی دو ریاستوں کی بات شامل تھی اس میں یہ بات بھی کہ جب اسرائیل غزہ چھوڑ دے گا تو 72 گھنٹے کے اندر تمام یرغمالی واپس کردیے جائیںگے اور اسرائیل دو ہزار فلسطینیوں کو رہا کرے گا اور ان میں وہ فلسطینی بھی ہوں گے جن کو عمرقید ہوچکی ہو۔ پھر اس کے بعد حماس کو غیر مسلح کرنے کی بات کی گئی۔ ٹرمپ نے نیتن یاہو سے یہ پوچھا نہیں یا پوچھنے کی ہمت نہیں تھی کہ تم نے اس فارمولے میں تبدیلی کیوں کی جسے میں مسلمان ممالک کے سر براہان کو دکھا چکا تھا۔ اب معاہدے میں یہ بات ہے کہ اس پر دستخط ہونے کے بعد 72 گھنٹوں کے اندر حماس کو یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا اور اسرائیل مرحلہ وار غزہ سے اپنی فوجیں واپس بلائے گا لیکن ایک مستقل نگرانی کا نظام قائم کیا جائے گا اہم سوال یہ ہے کہ دنیا کی وہ کون سی قوت ہوگی جو اسرائیل کو اس معاہدے کی پابندی پر مجبور کرے گی۔ اسرائیل نے ان بیس نکات کو مبہم بنادیا ہے۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بیان دیا ہے کہ یہ وہ ڈرافٹ نہیں ہے جو ہمیں دکھایا گیا تھا پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسی ڈرافٹ کو تسلیم کر لینے پر کیوں زور دیا جارہا ہے اور امریکا کی طرف سے دھمکی بھی دی جارہی ہے۔ آٹھ مسلم ممالک اب خاموش کیوں ہیں وہ اس اہم اور حساس مسئلے پر ٹرمپ سے بات کیوں نہیں کرتے کہ پہلے والا مسودہ کہاں ہے جس پر اتفاق ہوا تھا۔ دوحا چونکہ شروع سے امریکا اور دیگر ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا ہے اس لیے دوحا امریکا سے اس ایشو پر بات کرسکتا تھا لیکن اس درمیان دو واقعات ایسے ہوئے جس میں دوحا کو مصلحتاً خاموشی اختیار کرنا پڑی، پہلی تو یہ کہ نیتن یاہو نے فون کرکے دوحا سے معذرت کی دوسری بات یہ ہوئی کہ صدر امریکا ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نوٹیفکیشن نکالا کہ آئندہ سے دوحا پر حملہ امریکا پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ قطر میں قطری، مصری اور ترکش خفیہ ایجنسی کے نمائندے تین روز سے حماس رہنمائوں سے مذاکرات کررہے ہیں۔ ان تینوں ممالک کی خواہش ہے کہ اسی تازہ ڈرافٹ کو ہی مان لیا جائے تاکہ معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز ہو جائے۔ آخری خبریں یہ آئیں ہیں کہ حماس رہنمائوں نے اس معاہدے کو کچھ شرائط کے ساتھ تسلیم کرلیا ہے۔ ایک تجزیہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل جنگ بند نہیں کرنا چاہتا اس لیے اس نے اس ڈرافٹ کو اتنا متنازع بنادیا ہے کہ حماس مشتعل ہوکر اس کو ماننے سے انکار کردے اور پھر اسرائیل کا بمباری کا سلسلہ دوبارہ جاری ہوجائے اور اس نئی جنگ کے آغاز کا الزام حماس پر لگا دیا جائے کہ حماس کے لوگ خود فلسطینیوں کے قتل عام کو رکوانا نہیں چاہتے۔ لیکن اس معاہدے کے جو مثبت نکات سامنے آئے ہیں اس میں سب سے پہلی بات تو یہ کہ بمباری رُک جائے گی اور فلسطینیوں کا قتل عام رُک جائے گا۔ دوسرے یہ کہ فلسطینی اپنی جگہوں پر ہی رہیں گے۔ تیسری بات یہ کہ خوراک اور ادویات پر مشتمل چھے سو ٹرک روزآنہ غزہ میں داخل ہوں گے۔ چوتھی بات یہ کہ غزہ کی تعمیر نو کا کام فوری طور پر شروع کردیا جائے گا۔ غزہ کی نگرانی ایک کمیٹی کرے گی جس کے سربراہ خود ڈونلڈ ٹرمپ ہوںگے اور بدنام زمانہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر ان کے معاون ہوں گے جن کے جھوٹ نے عراق کے دو ملین بچوں کی جان لے لی تھی۔
اسرائیلی فوجوں کی واپسی مرحلہ وار ہوگی لیکن اسرائیل فی الوقت غزہ کے ستر فی صد علاقوں میں موجود رہے گا پھر دھیرے دھیرے یہ افواج واپس ہوتی جائیں گی۔ پہلے والے ڈرافٹ میں تو یہ تھا کہ اسرائیلی فوجوں کا مکمل انخلا ہو جائے گا لیکن اس ڈرافٹ میں اسرائیل مستقل غزہ میں رہے گا۔ بہرحال اس معاہدے میں بہت سارے اگر مگر ہیں ہوسکتا ہے حماس نے اپنے ثالثوں کو یہ پیشکش کی ہو کہ جب اسرائیل مکمل طور پر غزہ چھوڑدے گا تو ہم بھی ہتھیار واپس رکھ دیں گے۔ ایک بات یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ صرف امریکا اور اسرائیل ہی حماس کے مخالف نہیں ہیں بلکہ عرب ممالک بھی حماس کو پسند نہیں کرتے کہ یہ تنظیم جمہوریت کا راگ الاپتی ہے اور جمہوری راستے سے برسراقتدار آتی ہے۔ اس لیے حماس کی بڑھتی ہوئی عوامی حمایت شہنشاہی نظام کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اس لیے اب حماس کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اس معاہدے ہے کہ اس کے ساتھ حماس کو کہ حماس جائے گا حماس کے لیکن اس ہوں گے یہ بات کی بات اور اس اس لیے بات یہ
پڑھیں:
ٹرمپ کا امن منصوبہ یا دفاعِ اسرائیل روڈ میپ؟
اسلام ٹائمز: نجانے کیوں ہمارے حکمرانوں کو نوشتہ دیوار پڑھنا نہیں آرہا کہ امریکہ کے عروج کا سورج غروب ہونیوالا ہے۔ دنیا میں چین سمیت دیگر قوتیں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں۔ امریکہ خود کسی ایک جھٹکے کی مار ہے۔ اس کی جنگ کسی بھی قوت کیساتھ ہوگئی تو وہ امریکہ کی آخری جنگ ہوگی، اس لئے ٹرمپ دنیا میں جنگیں بند کروانے کا راگ آلاپ کر امریکہ کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ تحریر: تصور حسین شہزاد
ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کا چرچا اس وقت عروج پر ہے۔ یہاں تک کہ اس منصوبے کو ’’بہترین‘‘ قرار دلوانے کیلئے ہمارے میڈیا میں بھی خبریں چلوائی گئیں کہ اس پر حماس نے بھی مشروط آمادگی ظاہر کر دی ہے، جبکہ ہمارے وزیراعظم نے بھی ’’شاہ کی شاہ سے زیادہ وفاداری‘‘ میں عجلت میں اس منصوبے کے نکات پڑھے بغیر، قبول ہے، قبول ہے، کہہ دیا، جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ خود ٹرمپ نے بھی اسے حتمی شکل نہیں دی تھی، ایک مجوزہ منصوبہ تھا، جس کا مسودہ قبل از وقت پبلک کر دیا گیا۔ بعدازاں نیتن یاہو کیساتھ ملاقات کے بعد ٹرمپ نے اس میں ’’بڑی‘‘ تبدیلیاں کیں اور وائٹ ہاوس کی جانب سے وہ تبدیل شدہ منصوبہ ایک بار پھر جاری کیا گیا۔ جس پر کہا گیا کہ پہلے سے جاری کردہ مسودہ درست نہیں تھا، اب اس میں ’’غلطیاں‘‘ ٹھیک کرکے دوبارہ جاری کیا جا رہا ہے۔
اس میں جو ’’غلطیاں‘‘ درست کی گئیں، وہ یہ تھیں کہ وہ پوائنٹس اسرائیلی مفادات کیخلاف جا رہے تھے اور نیتن یاہو کو وہ قبول نہیں تھے، جس پر فوری ’’غور و خوض‘‘ کے بعد ٹرمپ نے وہ پوائنٹس نکال دیئے اور نیا مسودہ تیار کرکے جاری کروا دیا۔ اب حماس سمیت فلسطینی اتھارٹی، قطر اور سعودی عرب سمیت دیگر مسلم حکمرانوں کو بھی وہ مسودہ دیا گیا، کسی نے بھی اتنی عجلت میں اسے ’’منظور‘‘ نہیں کیا، جتنی تیزی ہمارے وزیراعظم نے دکھائی، اب نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو اس کی وضاحتیں دینی پڑ رہی ہیں، جبکہ عسکری قیادت کے حوالے سے بھی ہدایات ملنے کے بعد پارلیمنٹ کو بتایا گیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے نہیں جا رہے۔
لاہور میں گفتگو میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے واضح کر دیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں۔ البتہ ایک اور حکومتی عہدیدار سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا ہم مشرق وسطیٰ میں امن چاہتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا یہ سلسلہ بند ہو جائے۔ اس کیلئے ہم کسی بھی امن معاہدہ کی حمایت کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ٹرمپی منصوبے کو حماس تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ منصوبے کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو اس سے کھلے بندوں یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ قیام امن کیلئے نہیں، بلکہ دفاعِ اسرائیل کیلئے ہے۔ اس منصوبے کو صرف اور صرف اسرائیل کو طاقتور بنانے اور اسے تحفظ فراہم کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔
کیونکہ حالیہ حماس اسرائیل جنگ میں، اسرائیل کو عبرتناک شکست ہوئی ہے۔ اوپر سے ایران اسرائیل جنگ نے 12 دنوں میں اسرائیل کے نام نہاد دفاعی نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ یہ حقیقت ہے کہ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے، بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے، لیکن اس تباہی کے باوجود، شکست اسرائیل کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے۔ پوری دنیا، بالخصوص یورپی ممالک میں اسرائیل کیخلاف ہونیوالے مظاہرے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اب عالمی رائے عامہ اسرائیل کیخلاف اور فلسطین کے حق میں ہوچکی ہے۔ یہ حماس کی فتح ہے۔ آج 7 اکتوبر کو حماس کی جدوجہد آزادی کو پورے دو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ اسرائیل آج کے دن کو کس نظر سے منا رہا ہے، یہ اسرائیل میڈیا اور اسرائیل کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ 7 اکتوبر کو شروع ہونیوالی مزاحمت نے اسرائیل کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
اسرائیلی وزارتِ دفاع نے غزہ جنگ کے دو سال مکمل ہونے پر فوجی جانی نقصان کی تفصیلات بھی جاری کی ہیں۔ جن میں اعتراف کیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک 1152 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونیوالوں میں اسرائیلی فوج، پولیس، شن بیٹ ایجنسی اور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔ وزارت نے اعتراف کیا کہ غزہ جنگ کی بھاری قیمت اسرائیلی ریاست اپنے کندھوں پر اٹھا رہی ہے اور اس تنازع نے اسرائیلی معاشرے کو گہرے زخم دیئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس وقت سامنے آئے ہیں، جب بین الاقوامی سطح پر اسرائیل پر جنگ بندی کے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے اور غزہ میں انسانی بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
ایسے وقت میں نیتن یاہو کی مقبولیت کا گراف بھی بُری طرح نیچے آیا ہے اور اس کی سیاسی ساکھ بھی خطرے سے دوچار ہے۔ ٹرمپ کا یہ اقدام نتین یاہو کو بچا پائے گا اور نہ ہی اسرائیل کو محفوظ رکھ سکے گا۔ کیونکہ عالمی بیانیہ تبدیل ہوچکا ہے، خود امریکہ کی کیفیت بھی ڈوبتی ناؤ کی سی ہے۔ نجانے کیوں ہمارے حکمرانوں کو نوشتہ دیوار پڑھنا نہیں آرہا کہ امریکہ کے عروج کا سورج غروب ہونیوالا ہے۔ دنیا میں چین سمیت دیگر قوتیں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں۔ امریکہ خود کسی ایک جھٹکے کی مار ہے۔ اس کی جنگ کسی بھی قوت کیساتھ ہوگئی تو وہ امریکہ کی آخری جنگ ہوگی، اس لئے ٹرمپ دنیا میں جنگیں بند کروانے کا راگ آلاپ کر امریکہ کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔
کچھ حلقے کہہ رہے ہیں کہ حماس نے اسرائیل پر 7 اکتوبر کو حملہ کرکے غلطی کی اور غزہ کی تباہی کا سامان کیا۔ راقم اس سوچ سے متفق نہیں، حماس نے مزاحمت کرکے غلطی نہیں کی، بلکہ بروقت اور موثر فیصلہ کیا ہے۔ اس سے عربوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جو ایک لہر چل پڑی تھی، وہ رک گئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کا منظرنامہ تبدیل ہوا ہے اور عالمی رائے عامہ اسرائیل کیخلاف ہوگئی ہے۔ یہ حماس کی بہت بڑی فتح ہے۔ جانوں اور املاک کی قربانیاں اپنی جگہ، لیکن بڑے ہدف کیلئے قربانی بھی بڑی دینی پڑتی ہے۔ حماس نے بڑی قربانیاں دے کر بڑا ہدف حاصل کیا ہے۔ اب حماس کی اس کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کا ٹرمپی منصوبہ خود ناکام ہو جائے گا اور فلسطین ایک آزاد ریاست کے طور پر ایک بار پھر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوگا۔ ان شاء اللہ