Juraat:
2025-10-08@01:14:02 GMT

مایوسی نا انصافیوں کا لازمی نتیجہ ہوتی ہے!

اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT

مایوسی نا انصافیوں کا لازمی نتیجہ ہوتی ہے!

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔۔۔۔

ہماری تہذیب کی کہانی کا آغاز تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح کے یونانیوں سے ہوتا ہے، ان سے پہلے اور ان کے زمانے میں اور بھی تہذیبیں موجود تھیں جو ان سے زیادہ عظیم الشان اور جلیل القدر تھیں لیکن اس زمانے میں صرف یونانی ہی تھے جو ”سوچتے ”تھے، ان کی سوچ گہری اور مسلسل ہوتی تھی۔ حالانکہ وہ چاروں طرف سے ”وحشیوں” میں گھرے ہوئے تھے، وحشی سے مراد ایسی قوتیںتھیں جو تقاضائے عقل کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتی تھیں ۔ ایک بہت بڑے مفکر نے دنیا کی تہذیبی ترقی پریو نانیوں کے اثرات کا بیان ایک لفظ میں کیا ہے اور اس نے اس لفظ کی تشریح میں تین موٹی موٹی جلدیں لکھیں اس مفکر کا نام ورنر جیگر ہے۔ اس نے بتا یا کہ لفظ
” پائیڈیٹا” یونان کے تہذیبی اثرات کوپور ے طورپر بیان کردیتا ہے ۔ اس کتاب کا نام ”پائیڈیٹا ”یونانی ثقافت کا نصب العین ہے ۔ کتاب جر من زبان میں لکھی گئی ،اس کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہو چکا ہے ۔ پائیڈیٹا یونانی زبان میں تعلیم کو کہتے ہیں لیکن اعلیٰ ترین سطح پر اسکے معنی تہذیب وثقافت کے ہیں۔ دراصل یونانیوں کے نزدیک تمام تہذیب و ترقی کی اسا س تعلیم پر تھی۔ یونانی اچھی طرح جانتے تھے کہ زندگی کی اعلیٰ ترین قدر کون سی ہے۔ ان کی تمام عظیم شخصیتوں نے اس قدر کی جستجو اور حصول میں اپنی زندگیاں صرف کر دیں اور یہ قد رتھی ذہن کی نشو ونما ۔ وہ چاہتے تھے کہ انسانوں کو سوچنے سمجھنے کے قابل بنائیں ۔ یونانیوں نے پہلے ایک دوسرے کو سو چنے ، بولنے اور لکھنے کی تعلیم دی اور پھر ساری مغربی دنیا کو اپنا علم سکھا یا۔ دانتے کی ڈیوا ئن کا میڈی میں شاعر تصور میں دوزخ کی سیر کرتا ہے، اسی
دو زخ میں تین طبقے ہیں جن میں بے اعتدالی کر نے والوں ، ظلم و ستم کر نے والوں اور فریب کاروں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ دانتے کا یہ تصور ارسطو کے مجوزہ اخلاقی نظام پرمبنی ہے ۔ شیکسپیئر کے المیہ ڈرامے میکبتھ کو پڑھ کر سو چنے پر مجبور ہواجاتا ہے کہ المیہ کی ہیئت اور اسی کی بنیادی مغو یت یونانی شاعروں کی تخلیق ہے ۔توازن قوت کا نظریہ جس پر امریکی آئین کی بنیاد رکھی گئی ہے سب سے پہلے ایک یونانی مورخ نے مرتب کیا تھا۔ یونانی مفکروں نے ہی سب سے پہلے انسانی اخوت کا شاندار نصب العین دنیا کے سامنے رکھا۔
یونانیوں کے سب سے پہلے شاگرد رومن تھے۔ رومن فلسفیا نہ غور و فکر سے عاری تھے ۔ ان کے پاس اعلیٰ پائے کا ادب تھا نہ علوم ۔ ان کی زبان میں قوت اور لچک تو تھی لیکن حسن نہ تھا۔ یو نا نیوں سے تعلیم اور علم حاصل کرنے کے بعد ان میں خو بیاں پیدا ہوئیں جو خود یونانیوں میں بھی موجود تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یونان کی ثقافت یونان میں مٹنے کے بعد ایک بار پھر اٹلی میں پھلی پھولی ۔ یایوں کہیے کہ ایک نئی ثقافت پیدا ہوئی جسے یونانی رومن تہذیب کانام دیا جا سکتاہے۔ لیکن عظیم الشان اورعقل افروز تہذیب کیوں کرفنا ہوگئی ؟ یہ کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا ۔ خود رومن نہیں جانتے تھے کہ ان کی تباہی کا سبب کیا ہے ؟ تاہم ایک بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ پہلے اس کا مغربی حصہ زوال پذیر ہوا جس میں رومن بولی جاتی تھی مشرقی حصہ جس میں یونانی زبان رائج تھی، اپنے آپ کو بیرونی حملوں کے باوجود مزید ایک ہزار سال تک برقرار رکھ سکا ۔ آگے چل کر پستی کی انتہا ہو جاتی ہے لیکن پستی بھی ہمیشہ قائم نہیں رہتی ۔ زمانہ وسطی کو زمانہ تاریک کے نام سے یا د کیا جاتاہے لیکن یہ حالات زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکے۔ شہروں میںلٹیروں اور ڈاکوئو ں کا راج تھا جو اپنی فہم سے بالا ترہر چیز کو تباہ کر دیتے تھے ۔ حکمرانوں اور کلیسیا نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا کے رکھ دیں ۔ اس کے باوجود کچھ مفکر اورفلسفی پر امن علاقوں میں چلے گئے اورتعلیم و علم میں مصروف ہوگئے انہوں نے پرانی کتابیں ڈھونڈھ نکالیں اور ان کی نقول تیار کیں ۔اسی طرح وہ قدیم علوم کو محفو ظ کرنے میں کامیاب ہوئے ۔اس طرح آہستہ آہستہ ٹو ٹی پھوٹی ذہنی دنیا کی تعمیر دوبارہ شروع ہوئی۔ پھر ان گنت قربانیوں اور جدو جہد کے بعد مغربی دنیا آہستہ آہستہ تاریکی کے دور سے نکل آئے۔ جیسے ان کے اجداد بھی تاریک دورسے نکل آئے تھے ۔ جب ہم یورپ اور امریکہ کے فلسفیانہ اور مذہبی فکر کی نشو ونما کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مفکروں کی چالیس نسلوں نے سقراط ، افلاطون اور ارسطو کے ذہنی سر مائے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ دوسری تہذیبیں چینی ، مصری ، ایرانی ، اسلامی ، ہندو ، امریکی انڈین بھی باطی اور ذہنی ارتقا کی عظیم الشان کہا نیاں سناتی ہیں ۔ کسی ایک تہذہب کی کہانی محض اس کی مادی اور ذہنی ترقی کی کہانی نہیں ہوتی بلکہ اس کے فکر اور تعلیم و علم کے ارتقا کے بیان پر مشتمل ہوتی ہے ۔ اس طرح جب ہم ساری نوع انسان کی تاریخ مرتب کریں تو کرہ ارض پر خیالات کے دھاروں کو ایک تہذیب سے دوسری تہذیب میں آتے جاتے دیکھتے ہیں ۔ انسانی تاریخ کی تشریح محض سیاسی و معاشی نقطہ نظر سے نہیں کی جاسکتی بلکہ اس کا پورا مفہوم اس صورت میں واضح ہوسکتا ہے کہ انہیں اعمال ذہنی کی حیثیت سے دیکھا جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ آج ہم ذہنی، سیاسی، سماجی اور معاشی پستی کی انتہا سے بھی آگے جاچکے ہیں ،پورا ملک مایوسی کے نرغے میں آچکا ہے۔ ہم میں اور یونان اور روم میں یہ واضح فرق ہے کہ ہم ان کے مقابلے میں اپنی پستی کی انتہاپر پہنچنے کی مکمل معلومات اور علم رکھتے ہیں ہم اپنے مجرم آپ ہی ٹہرے ہیں ۔جب آپ اخلاقی طور پر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد لازماً معاشی ، سیاسی اور سماجی بربادی آتی ہے ۔ جو قوم لکھنا ، پڑھنا اور سو چنا چھوڑ دیتی ہیں ، ان کو فنا ہونے سے کوئی نہیں روک پاتا ہے۔ بھوک ،افلاس ، غربت ،مہنگائی ،بے روزگاری ، گھٹن ، حبس، مایوسی ناانصافیوں کا لازمی نتیجہ ہوتی ہیں۔ اور انقلاب اور بغاوت ان کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ آج کے پی کے اور بلوچستان کے حالات کو نظر انداز کرنا ایک اور بہت بڑی غلطی ہوگی ۔ پنجاب اور سندھ میں بے چینی اپنی آخری حدوں کو چھورہی ہے۔ پورے ملک میں اخلاقیات اور انسانیت ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ہیں ۔ Madame Bovary فلابئیر کا عظیم ناول ہے جو 1857 میں شائع ہوا۔ Baudelaireنے ”فن کا ر” اکتوبر 1857 کے شمارے میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ فلا بئیر نے اپنے پہلے ہی ناول میں جوکچھ کردکھا یا ہے وہ دوسرے ناول نگار زندگی بھر میں حاصل نہیں کرپاتے ہیں ۔اسے جس سماج سے سابقہ پڑا اس میں اخلاقی زوال کے ساتھ ساتھ بسیار خوری اور دولت کی پر ستش عام تھی اور زندگی کی اعلیٰ قدر یں ختم ہوچکی تھیں۔ اس دور کے لوگوں کو ہر اس چیز سے نفرت تھی جس میں نیکی اور خیر کی خوشبو آرہی ہو۔ کہتے ہیں وقت کا پہیہ ہمیشہ آگے بڑھتاہے۔ لیکن جب ہم اپنے سماج کو دیکھتے ہیں تو یہ سو چنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ وقت کا پہیہ پیچھے کی طرف بھی سفر کرتاہے۔ آج ہمیں ان ہی حالات و واقعات کا سامنا ہے جن کا سامنا صدیوں پہلے یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم ان حالات کو جلد شکست دیتے ہیں یا پھر یورپ کے لوگوں کی طرح صدیوں بعد ان حالات کے جہنم سے نکلتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: سے پہلے اور ان کے بعد

پڑھیں:

وزارت داخلہ کے افسران کو غیر ملکی شخصیات سے ملاقات سے قبل پیشگی منظوری لینا لازمی قرار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: وزارتِ داخلہ نے اپنے تمام ماتحت افسران کے لیے غیر ملکی شخصیات سے ملاقات سے قبل پیشگی منظوری لازمی قرار دے دی۔

میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکلر کے مطابق کوئی بھی افسر سرکاری یا ذاتی دعوت قبول کرنے سے قبل سیکرٹری داخلہ کی منظوری حاصل کرے گا۔ اسی طرح غیر ملکی مشن، سفارت کاروں یا بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقات سے قبل بھی اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے، اے این ایف اور اسلام آباد پولیس سمیت دیگر اداروں کو باضابطہ ہدایت نامہ جاری کر دیا گیا ہے۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پیشگی منظوری کے بغیر کسی غیر ملکی سے ملاقات یا بات چیت کو گورنمنٹ سرونٹ رولز کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا۔

وزارتِ داخلہ کے مطابق کسی بھی افسر کو ازخود غیر ملکی شخصیات سے رابطہ یا بات چیت کرنے کی اجازت نہیں۔ تمام متعلقہ محکموں اور افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان احکامات پر مکمل عملدرآمد یقینی بنائیں۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • تنازعات کے باوجود بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاک بھارت میچوں کو لازمی قرار دے دیا
  • وزارت داخلہ کے افسران کو غیر ملکی شخصیات سے ملاقات سے قبل پیشگی منظوری لینا لازمی قرار
  • وزارتِ داخلہ، غیر ملکیوں سے ملاقات سے پہلے پیشگی اجازت لازمی قرار
  • سیاسی بیان بازی ،ن لیگ اور پی پی وفود میں مذاکرات بے نتیجہ ختم
  • غزہ کا امتحان اور مغربی تہذیب کا زوال
  • پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان کشیدگی برقرار، اسپیکر کے چیمبر میں ہونے والی ملاقات بے نتیجہ ختم
  • سندھ کی حکمراں جماعت نے عوام کو مایوسی و بدحالی کے سوا کچھ نہیں دیا، خالد مقبول
  • سندھ کی حکمراں جماعت نے عوام کو مایوسی و بدحالی کے سوا کچھ نہیں دیا: خالد مقبول
  • نیت صاف ہو تو عہدوں کی ضرورت نہیں ہوتی :ہمایوں اختر خان