غزہ میں نسل کشی، امریکی یہودیوں، آسٹریلوی شہریوں کی اکثریت اسرائیل سے نالاں، نئے سروے، روس جیسی پابندیوں کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
کراچی (نیوز ڈیسک) غزہ میں جاری نسل کشی پر امریکی یہودیوں اور آسٹریلوی شہریوں کی اکثریت اسرائیل سے نالاں ہے،انہوں نے اسرائیل پر روس جیسی پابندیوں کا بھی مطالبہ کردیا ہے ،یہ بات امریکا میں مقیم یہودیوں اور آسٹریلوی شہریوں سے کئے گئے نئے سروے میں سامنے آئی ہے ۔ واشنگٹن پوسٹ کے سروے کے مطابق امریکا میں 61فیصد یہودیوں نے غزہ میں اسرائیلی پالیسی کو جنگی جرائم اور 39فیصد نے نسل کشی قرار دے دی ، 68 فیصد نے صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو کی قیادت کو منفی درجہ دیا ، 48 فیصد یہودی اسرائیلی کارروائیوں کے مخالف ہیں جبکہ 46فیصد یہودی اسرائیلی کارروائیوں کے حامی ہیں، مجموعی طور پر 60فیصد امریکی شہریوں نے اسرائیلی کارروائیوں کی مخالفت کی جبکہ صرف 32فیصد نے حمایت کی،80 فیصد ری پبلکن یہودی اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے حامی ہیں۔ صرف 30 فیصد ڈیموکریٹس نے ان کی حمایت کی۔56 فیصد مردوں نے اسرائیلی اقدامات کی تائید کی جبکہ 55 فیصد خواتین نے مخالفت کی۔62 فیصد کا کہنا ہے کہ غزہ کا انتظام کسی منتخب فلسطینی حکومت کے سپرد کیا جا سکتا ہے، جبکہ صرف 4 فیصد نے کہا کہ حماس کے زیرِانتظام غزہ قابلِ قبول ہے۔یہ سروے 2 تا 9 ستمبر کے دوران 815 امریکی یہودیوں پر کیا گیا۔ آسٹریلیا میں کرائے گئے ایک تازہ سروے کے مطابق نصف سے زیادہ آسٹریلوی عوام اسرائیل پر پابندیوں کے حق میں ہیں،57 فیصد اسرائیل اور اس کے رہنماؤں پر روس جیسی پابندیاں عائد کرنے کے حامی ہیں،53 فیصد کا کہنا ہے آسٹریلوی حکومت کو ان کمپنیوں سے تجارت بند کرنی چاہیے جو غزہ یا مغربے کنارے پر قبضے میں ملوث ہیں،58فیصد آسٹریلوی شہریوں نے اتفاق کیا کہ غزہ میں نسل کشی کی جارہی ہے جبکہ صرف 16فیصد نے اس سے اختلاف کیا۔اسی طرح 22سے 28ستمبر کے دوران پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق 39فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے حماس کیخلاف عسکری آپریشن میں حد سے تجاوز کیا، یہ تعداد گزشتہ برس 31فیصد اور 2023میں 27فیصد تھی۔ 59فیصد امریکی شہری اسرائیلی حکومت سے نالاں ہیں جبکہ یہ تعداد گزشتہ برس 51فیصد تھی۔ سروے میں 3ہزار 445افرادنے حصہ لیا جس میں 42فیصد نے نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ پر ٹرمپ انتظامیہ کے ردعمل کومسترد کیا، جبکہ30فیصد نے اس کی حمایت اظہار کیا۔ تقریباً ایک چوتھائی (27 فیصد) نے کہا کہ وہ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ان امریکیوں کی تعداد میں 5فیصد اضافہ ہوا ہے جو سمجھتے ہیںکہ ٹرمپ اسرائیل کی حد سے زیادہ حمایت کررہے ہیں، ایسے لوگوں کی تعداد پہلے 31فیصد تھی جو اب بڑھ کر 36فیصد ہوگئی ہے ۔امریکا میں ایسے افراد کی تعداد میں6فیصد کمی ہوئی جو سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ نے اسرائیل فلسطین تنازع میں متوازن پالیسی اختیار کررکھی ہے۔ایک تہائی افرادیعنی 33فیصد کا کہنا ہے کہ امریکا اسرائیل کو بہت زیادہ فوجی امداد فراہم کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں 8فیصد کا کہنا ہے کہ امریکا اسرائیل کو کافی فوجی امداد فراہم نہیں کر رہا ہے۔ تقریباً ایک چوتھائی (23فیصد) کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً صحیح مقدار میں فراہم کر رہا ہے، اور 35فیصد نے اس معاملے پر یقین سے کچھ نہ کہنا کا بتایا۔فلسطینی شہریوں کو امریکی انسانی ہمدردی کی امدادسے متعلق 35فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ امریکا غزہ میں فلسطینی شہریوں کو کافی انسانی ہمدردی کی امداد فراہم نہیں کر رہا ہے، جبکہ 9فیصد کا کہنا ہے کہ وہ بہت زیادہ انسانی ہمدردی کی امداد فراہم کر رہا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: فیصد کا کہنا ہے کہ ا سٹریلوی شہریوں امداد فراہم نے اسرائیل کر رہا ہے فیصد نے
پڑھیں:
اسرائیل امریکی فنڈنگ سے غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے؛ زہران کا ٹرمپ کے سامنے کڑوا سچ
نیویارک کے پہلے نومنتخب مسلم میئر زہران ممدانی روایتی ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس پہنچے جہاں ٹرمپ کے سامنے غزہ کا مقدمہ پیش کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صحافیوں سے مشترکہ گفتگو میں زہران ممدانی نے ایک سوال کے جواب میں اپنے دوٹوک مؤقف کو دہرایا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔
صدر ٹرمپ کی موجودگی میں زہران ممدانی نے مزید کہا کہ امریکیوں کے ٹیکس دہندگان کا پیسا اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں استعمال کر رہا ہے۔
نیویارک کے نومنتخب میئر نے مزید کہا کہ نیویارک کے بہت سے شہری چاہتے ہیں کہ ان کے ٹیکس کا پیسا جنگوں میں نہیں بلکہ مقامی ضروریات بالخصوص مہنگائی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی پر خرچ ہو۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے زہران ممدانی کے اس جواب پر کہا کہ ہم دونوں ہی مشرقِ وسطیٰ میں امن کے خواہاں ہیں۔
یاد رہے کہ ٹرمپ اور اسرائیل دونوں ہی اس بات کی تردید کرتے آئے ہیں کہ امریکیوں کا پیسا غزہ جنگ میں استعمال نہیں ہو رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے نیویارک کے نو منتخب میئر زہران ممدانی سے پہلی دوستانہ اور بالمشافہ پہلی ملاقات کئی ماہ سے جاری تلخ بیان بازی کے بعد ہوئی ہے۔
اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے مختلف سیاسی نظریات رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کی تعریف کی اور نیویارک شہر کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
79 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن کے وقت 34 سالہ زہران ممدانی کو دیوانہ لیفٹسٹ، کمیونسٹ اور یہود مخالف قرار دے چکے تھے۔
تاہم آج پہلی بالمشافہ ملاقات میں زہران ممدانی کے انتخابات میں کامیابی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے جتنا سوچا تھا، اس سے کہیں زیادہ باتوں پر اتفاق پایا۔
REPORTER: Are you affirming that you think President Trump is a fascist?
MAMDANI: I've spoken about-
TRUMP: That's okay, you can just say yes. Okay? It's easier.
MAMDANI: Yes.
TRUMP: It's easier than explaining it. I don't mind. pic.twitter.com/AJjiRndudf
ایک موقع پر صحافیوں نے زہران ممدانی سے سوال کیا کہ کیا وہ ٹرمپ کو ’’فاشسٹ‘‘ سمجھتے ہیں؟ جس پر ممدانی جواب دینے لگے تو ٹرمپ نے انھیں بیچ میں روکتے ہوئے کہا کہ آپ بس ہاں کہہ دیں، وضاحت دینے یا سمجھانے سے زیادہ آسان ہاں کہہ دینا ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ الیکشن میں پہلی بار نیویارک کے مسلم منتخب ہونے والے زہران ممدانی یکم جنوری 2026 کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھائیں گے۔