data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد : وفاقی وزیر پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری کا کہنا ہےکہ بانی پی ٹی آئی لوگوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں اور یہی تاریخ علی امین گنڈاپور کے ساتھ بھی دہرائی جا رہی ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے طارق فضل چوہدری کا کہنا تھا کہ  وزیر اعظم آزادکشمیر کو ہٹانے، عدم اعتماد یا استعفےکا فیصلہ نہیں ہوا، وزیراعظم آزاد کشمیرکے خلاف عدم اعتماد کا وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں تذکرہ نہیں ہوا،  وزیراعظم آزادکشمیر کے استعفے یا ہٹائے جانےکی خبروں میں صداقت نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن  اور پاکستان پیپلز پارٹی کا اتحاد برقرار رہےگا، وزارتیں نہ لینےکے باوجود پیپلز پارٹی کا تعاون ان کی جمہوریت پسندی ہے، عدم اعتماد کی سیاسی مخالفین کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی، سیکیورٹی فورسز روز ملک کےلیے جانوں کی قربانیاں دے رہی ہیں،  اتحاد میں شامل جماعتیں حالات کی نزاکت کے پیش نظر حمایت کر رہی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں پیپلز پارٹی سے مذاکرات کا  آغاز ہوا ہے، باہمی اختلاف دونوں پارٹیوں کی قیادت کی سطح پر حل ہوں گے۔

ویب ڈیسک فاروق اعظم صدیقی.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

ایوان بلوچستان میں وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کے مخالف کون؟

بلوچستان کی سیاست ایک بار پھر شدید بے یقینی کا شکار ہے اور وزیر اعلیٰ میر سرفراز احمد بگٹی کی کارکردگی، طرز حکمرانی اور فیصلوں پر نہ صرف حکومت کے اندر بلکہ اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن میں بھی ناراضی بڑھتی نظر آ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی کا کوئی معاہدہ نہیں دیکھا، رہنما ن لیگ سلیم کھوسہ

گزشتہ چند دنوں میں سامنے آنے والی سیاسی سرگرمیوں نے اس سوال کو تقویت دی ہے کہ کیا بلوچستان میں ایک اور سیاسی تبدیلی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے؟

پیپلز پارٹی میں بڑھتی ناراضی

وزیر اعلیٰ بگٹی کے خلاف سب سے نمایاں اختلافات پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر ابھرے ہیں۔

پارلیمانی سیکریٹری میر لیاقت علی لہڑی نے سب سے پہلے کھل کر وزیراعلیٰ کے طرز حکمرانی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں ایسا وزیراعلیٰ ہو جو عوامی مفاد میں فیصلے کرے اور صوبے کے مسائل کو سنجیدگی سے سمجھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کے زیادہ تر اراکین تبدیلی چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیے: پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مستقبل کو کتنا خطرہ ہے؟

صوبائی وزیر علی حسن زہری نے بھی اسی نوعیت کے تحفظات کا اظہار کیا اور بتایا کہ پیپلز پارٹی کے کئی اراکین موجودہ حکومتی کارکردگی سے غیر مطمئن ہیں۔

پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر سینیٹر سردار عمر گورگیج نے بھی اختلافات کے وجود کا بالواسطہ اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کے 3 سے 4 ایم پی ایز کو تحفظات ہیں مگر یہ گھر کے اختلافات ہیں جو گھر کے اندر ہی حل ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں تبدیلی کی ہوا، سرفراز بگٹی کتنے مضبوط ہیں؟

تاہم ذرائع کے مطابق اصل مسائل ترقیاتی فنڈز کی غیر مساوی تقسیم، اہم فیصلوں میں مشاورت کی کمی اور وزیراعلیٰ کے مرکزیت پسند طرز حکمرانی ہیں جنہوں نے پارٹی میں بے چینی بڑھا دی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی کھلی تنقید اور سخت مؤقف

صورتحال مزید سنگین اس وقت ہوئی جب مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما اور سینیٹر میر دوستین ڈومکی نے میڈیا پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں بیڈ گورننس کے باعث سرفراز بگٹی کو ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا ہے پیپلز پارٹی نئے وزیراعلیٰ کے نام پر مشاورت کر رہی ہے۔

دوستین ڈومکی سابق نگراں وزیراعلیٰ علی مردان ڈومکی کے بھائی ہیں اور صوبائی سیاست میں اہم اثر رکھتے ہیں اس لیے ان کا یہ بیان معمولی نہیں سمجھا جا رہا۔

یہ بھی پڑھیے: بلوچستان کی سیاست میں ہلچل، کیا وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی تبدیلی قریب ہے؟

مسلم لیگ (ن) کے رکنِ اسمبلی نوابزادہ چنگیز مری نے بھی کھل کر وزیراعلیٰ سے ناراضی ظاہر کی اور اعلان کیا کہ اگر بگٹی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آتی ہے تو میں سب سے پہلے ووٹ دوں گا۔

پیپلز پارٹی کی وضاحتیں اور زمینی حقائق میں تضاد

اگرچہ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر صادق عمرانی اور صوبائی صدر عمر گورگیج مسلسل یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ کو ہٹانے کی کوئی بات نہیں، یہ سب افواہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: ملک کے پسماندہ ترین علاقوں کی فہرست جاری، بلوچستان کے کتنے اضلاع شامل ہیں؟

لیکن دوسری جانب حقائق کچھ اور منظرنامہ پیش کر رہے ہیں۔ اسمبلی کے اندر ناراض اراکین کا حلقہ دن بدن وسیع ہو رہا ہے جبکہ اتحادی جماعتوں کے رہنما کھل کر میڈیا میں اپنے تحفظات بیان کر رہے ہیں۔

کیا بلوچستان میں نئی سیاسی تبدیلی نزدیک ہے؟

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر ناراض گروپ باقاعدہ منظم ہو گیا تو اگلے چند ہفتے حکومت کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہو سکتے ہیں۔

بلوچستان کی سیاست پہلے ہی غیر یقینی اور اندرونی اختلافات کا شکار رہی ہے اور اتحادی حکومتیں اکثر ایسے ہی دباؤ میں کمزور پڑتی رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : وزیراعلیٰ بلوچستان کا گوادر میں پانی کے بحران کا نوٹس، ٹینکرز کے ذریعے سپلائی کا حکم

موجودہ حالات جن میں اتحادی جماعتوں کی بے چینی، ن لیگ کی سخت تنقید، وزرا اور ایم پی ایز کے کھلے بیانات سب اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی پر سیاسی دباؤ اپنے عروج پر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلوچستان بلوچستان اسمبلی پیپلز پارٹی سرفراز بگٹی کی مخالفت وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی

متعلقہ مضامین

  • صدر جب بھی پوسٹ سے اتریں گے استثنیٰ ختم ہوجائے گا، راجا پرویز اشرف
  • سہیل آفریدی کے دعوے حقیقت سے عاری ہیں، طارق فضل چوہدری
  • ایوان بلوچستان میں وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کے مخالف کون؟
  • کیا ایم کیو ایم مشرف دور حکومت سے زیادہ طاقت ور ہو گئی ہے؟
  • پیپلز پارٹی لاہور آفس کو 8لاکھ 74ہزار کا نوٹس جاری
  • ایم کیو ایم کے غبار ے سے ہوا نکل چکی ہے سینیٹر وقار مہدی
  • مخدوم امین فہیم کی برسی پر عام تعطیل کااعلان
  • احتجاج کے حوالے سے پارٹی عمران خان کے پیغام کی منتظر ہے، شفیع جان
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی سے متعلق کوئی بات زیر غور نہیں: سلیم کھوسہ
  • پیپلز پارٹی صرف سیاسی جماعت نہیں بلکہ جمہوری جدوجہد کی تحریک ہے، وقار مہدی