Jasarat News:
2025-10-09@00:10:18 GMT

سیاسی افق پر نیا موڑ

اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT

سیاسی افق پر نیا موڑ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251009-03-3
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
حالیہ واقعات نے ایک بار پھر غزہ کی المیہ کہانی کو عالمی اسٹیج پر لا کھڑا کیا ہے۔ چند روز قبل امریکی صدارتی پیش کشِ امن جسے عمومی طور پر ’’ٹرمپ کا 21 نکاتی منصوبہ‘‘ کہا جا رہا ہے پر حماس نے مشروط رضا مندی ظاہر کی اور کہا کہ وہ غزہ کی پٹی کی انتظامیہ ایک ایسی فلسطینی اتھارٹی کو سونپنے پر آمادہ ہے جو آزاد (ٹیکنوکریٹ) شخصیات پر مشتمل ہو، ساتھ ہی قیدیوں کی رہائی اور مذاکرات کے لیے فوری طے پانے والے فریم ورک پر بھی بات چیت کے لیے تیار ہے، مگر اس نے غزہ پر قابض ہونے یا اپنے عوام کی جبری بے دخلی کے منصوبے کو سختی سے مسترد کیا اور مکمل فوجی انخلا و زمینی حالات کی حفاظت پر زور دیا۔ اسی پس منظر میں امریکی صدر کی جانب سے حماس کو مختصر مگر سخت الٹی میٹم جاری کیا گیا ’’اتوار شام چھے بجے تک معاہدے پر دستخط یا پھر شدید نتائج‘‘ اور ساتھ ہی وہ معصوم شہریوں کو محفوظ علاقوں میں منتقل ہونے کی ہدایت دینے لگے، مشرقِ وسطیٰ کے ذرائع کے مطابق حماس کے اصرار اور ثالثوں کے دَخِل کے بعد صدر ٹرمپ نے حماس کے اعلامیے کو بنیاد بنا کر کہا کہ وہ سمجھتے ہیں حماس امن کے لیے تیار ہے اور اسرائیل کو بمباری فوری طور پر روک دینے کا عندیہ دیا، تاکہ قیدیوں کی حفاظت کے ساتھ رہائی ممکن بنائی جا سکے۔ اس مکمل منظرنامے میں واشنگٹن، دوحا، قاہرہ اور انقرہ جیسے ثالثی کھلاڑی فعال رہے۔

ٹرمپ کے منصوبے کے جوہری نکات عارضی اور بین الاقوامی نگرانی میں غزہ کا انتظامی ازسر ِنو ڈھانچہ، متبادل سیکورٹی فریم ورک، قیدیوں کا تبادلہ، فوری انسانی امداد اور طویل المیعاد سیاسی حل کی راہ ہموار کرنا نے خطے میں مختصر مدت کے لیے جنگ بندی کا امکان پیدا کردیا ہے، مگر اسی وقت یہ منصوبہ متعدد پیچیدہ قانونی، سیاسی اور عملی سوالات بھی جنم دیتا ہے۔ فریقین کے مابین ’’عدمِ ہتھیار‘‘ یا ’’ڈی ملٹرا لائزیشن‘‘ کے تقاضے اور فوجی ڈھانچوں کو ختم کرنے کی شرائط ایسے معاملات ہیں جن کے نفاذ کے لیے سخت بین الاقوامی نگرانی، موثر قابل ِ نفاذ میکانزم اور علاقائی ضمانتیں درکار ہوں گی۔

تاریخی تناظر یہ ہے کہ غزہ کا مسئلہ محض ایک عارضی اور تکنیکی نظم و نسق کا معاملہ نہیں رہا، یہ صدیوں پر محیط زمین، حق ِ خودارادیت، پناہ گزینوں کا مسئلہ اور بین الاقوامی قراردادوں کے نفاذ کا مجموعہ ہے۔ اس لیے اگرچہ عارضی ٹیکنو کریٹک انتظامیہ جنگ بندی اور امدادی کارکردگی کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے، مگر طویل المدت حل کے لیے قومی وفاق، فلسطینی سیاسی دھڑوں کے مابین مصالحت اور بین الاقوامی تسلیم شدہ سیاسی فریم ورک کی ضرورت لازمی ہے۔ صرف ایڈمنسٹریٹو تبدیلی سے انسانی حقوق، ریاستی وقار اور حیثیت کے مسئلے حل نہیں ہوں گے؛ یہ امر بالخصوص اْس وقت حساس ہے جب مقامی لوگوں کے سیاسی حقوق اور مستقبل کا فیصلہ بین الاقوامی یا علاقائی گھٹنوں میں سمیٹ دیا جائے۔ انسانی اور اقتصادی جہت خاص طور پر نازک ہے، سول انفرا اسٹرکچر کی تباہی، پانی و بجلی کی قلت اور بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کی فوری بحالی کے لیے نہ صرف ہنگامی امداد درکار ہوگی بلکہ دہائیوں کے لیے تعمیر نو اور روزگار پروگراموں کی ضرورت ہوگی جن کے لیے وسیع بین الاقوامی مالی مدد اور مکمل شفاف منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ اگر ری کنسٹرکشن مقامی شمولیت اور نگرانی کے بغیر شروع ہوا تو فنڈنگ کا ریڈکشن، کرپشن یا سیاسی مرضی کی پابندی خطرات میں اضافہ کر سکتی ہے۔

سیکورٹی کی شرائط پر بھی دو بڑے خطرات منڈلاتے ہیں، ایک یہ کہ جب تک اسرائیل کو ظلم کے خلاف موثر ترین لگام نہ ڈالی جائے، وہ فلسطینی مظلومین کے خلاف مسلسل سخت رویہ اختیار رکھے گا، دوسرا یہ کہ ردعمل میں ضرور حماس یا دیگر مزاحمتی گروہ جھڑپیں برقرار رکھیں گے نیز نیم فوجی یا خفیہ نیٹ ورکس دوبارہ تشدد کے خلاف مدافعت کی راہیں ہموار رکھیں گے۔ اس مشکل کو دور کرنے کے لیے بین الاقوامی مشنوں، علاقائی فوجی و سول نگرانی اور یکے بعد دیگرے شواہد کی بنیاد پر مرحلہ وار اعتماد سازی کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔ سیاسی نتیجہ خیزی کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ کیا یہ معاہدہ محض ایک عارضی اچھی فائلنگ بن کر رہ جائے گا یا اسے وسیع قومی اور بین الاقوامی ضمانتیں ملیں گی۔ اگر معاہدہ بجا طور پر شفاف، منصفانہ اور فلسطینی قومی عدالتوں اور نمائندہ اداروں کے ضامن کے ساتھ نافذ ہوا تو یہ جنگ بندی ایک نئی سیاسی کشمکش کو پرامن حل کی طرف موڑ سکتی ہے، تاہم اگر حتمی حل میں مشروط اور غیر شفاف وعدے رہ جائیں تو یہ دوبارہ تشدد اور استحصال کی راہیں کھول دے گا۔

اختتامی کلمات کے طور پر واضح رہے کہ امن کی راہ تیز فیصلوں اور الٹی میٹمز سے نہیں کھڑی ہوتی، مگر جب حقیقتاً معصوم شہریوں کی زندگی اور قیدیوں کی بازیابی کا سوال ہو تو ثالثی اور فوری تدارک ضروری ہیں۔ عالمی برادری، خاص طور پر مسلم دنیا اور اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ انسانی پیمانے کو مقدم رکھتے ہوئے ایک منظم، شفاف اور قانونی فریم ورک کے تحت اس عبوری مرحلے کی نگرانی کریں، تاکہ بحالی سے سیاسی حل کی جانب راستہ کھلے اور آئندہ کے خطرناک تنائو سے بچنے کا کوئی دیرپا راستہ تلاش کیا جا سکے۔ اگرچہ یہ لمحہ خطرناک ہے، مگر مناسب بین الاقوامی ضمانتوں، مقامی شمولیت اور واضح حقوقِ فلسطینی کی پاسداری کے ساتھ اسے ایک موقع بھی بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ قوتِ ضمانت صرف طاقت ہی نہ بلکہ قانون، شفافیت اور انصاف پر مبنی ہو۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اور بین الاقوامی کے لیے

پڑھیں:

فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیل کا حملہ بحری قزاقی ہے، ترکیہ

انقرہ نے فریڈم فلوٹیلا میں شامل اپنے شہریوں کو صہیونی رژیم کی حراست سے جلد رہا کروا کر وطن واپس لانے کیلئے ضروری اقدامات شروع کر دئیے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ فریڈم فلوٹیلا پر صیہونی حملہ، بحری قزاقی ہے۔ فریڈم فلوٹیلا کے بحری جہازوں میں مہذب شہری اور قانون ساز موجود ہیں، جن پر حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اسی سلسلے میں تُرک پارلیمنٹ کے سپیکر "نعمان کورتولمش" نے صہیونی رژیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تُرک پارلیمنٹ کے اراکین کو جلد از جلد رہا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر فریڈم فلوٹیلا میں شامل ترک پارلیمنٹیرین کو کوئی نقصان پہنچا تو اسرائیل عالمی عوامی رائے کے سامنے جواب دہ ہو گا۔

واضح رہے کہ انقرہ نے فریڈم فلوٹیلا میں شامل اپنے شہریوں کو صہیونی رژیم کی حراست سے جلد رہا کروا کر وطن واپس لانے کے لئے ضروری اقدامات شروع کر دئیے ہیں۔ یاد رہے کہ منگل کی شب ایک ہوائی جہاز عالمی صمود فلوٹیلا میں شامل 15 تُرک کارکنوں کو لے کر اس وقت استنبول واپس آیا جب اسرائیل نے انہیں بین الاقوامی پانیوں میں غیر قانونی طور پر حراست میں لیا اور پھر انہیں اردن منتقل کر دیا۔ قبل ازیں، صیہونی رژیم نے غزہ کی جانب انسانی مشن پر بین الاقوامی پانیوں میں سفر کرنے والی 42 کشتیوں کو قبضے میں لے کر امدادی کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی بحریہ کا بین الاقوامی پانیوں میں فریڈم فلوٹیلا پر حملہ،  تفصیلات منظر عام پر
  • غزہ کے عوام نے ہتھیار ڈالنے اور حماس کو سیاسی نظام سے نکالنے کی مخالفت کردی
  • فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیل کا حملہ بحری قزاقی ہے، ترکیہ
  • سعودی کابینہ کیجانب سے صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے اقدامات کا خیر مقدم
  • حماس کےحملے نے اسرائیلی عوام کا سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ پر اعتماد توڑ دیا
  • اے این ایف نے بین الاقوامی منشیات اسمگلنگ نیٹ ورک کے 9 ملزمان کو گرفتار کرلیا
  • غزہ کا امتحان اور مغربی تہذیب کا زوال
  • پاکستانی فلم ’موکلانی‘ نے آسکر کا ہم پلہ عالمی ایوارڈ جیت لیا
  • اگر حماس سے مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ پھر شروع کردیں گے، اسرائیلی فوجی سربراہ