غزہ امن معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کیلیے مصر جاؤں گا، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کابینہ سے خطاب میں کہا کہ میں نے دنیا کی 7 جنگیں رکوائی ہیں اور اب آٹھویں بھی جلد ختم ہوجائے گی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے غزہ جنگ ختم کروا دی۔ یہ میں نے دنیا کی 8 ویں جنگ ختم کروائی ہے۔
غزہ امن معاہدے پر فریقین کے اتفاق کا کریڈٹ لیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران پر حملہ غزہ کے معاہدے تک پہنچنے کے لیے ضروری تھا۔
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کی تمام ممالک غزہ منصوبے کی حمایت کر رہے تھے۔ اب وہاں پائیدار امن قائم ہوجائے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ وہ غزہ معاہدے پر دستخط کرنے میزبان ملک مصر جائیں گے۔ وہاں سے اسرائیل جانے کا بھی ارادہ ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ غزہ کی پٹی کو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔ ایران امن کے لیے کام کرنا چاہتا ہے اور ہم اس سلسلے میں تعاون کریں گے۔
امریکی صدر نے کہا کہ پیر یا منگل تک اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہے۔ جس کے بعد غزہ جنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گی۔
یاد رہے کہ مصر ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے پر ہونے والے مذاکرات پر اسرائیل اور حماس نے ابتدائی مرحلے پر دستخط کردیئے ہیں۔
اس ابتدائی مرحلے کے تحت غزہ میں چند روز کے لیے جنگ بندی کی جائے گی جس کے دوران امدادی سامان کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔
علاوہ ازیں 72 گھنٹوں کے دوران حماس تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کردے گی جب کہ بدلے میں اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
روس ٹرمپ امن منصوبے سے متفق، یوکرین رکاوٹ ہے: صدر پیوٹن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے 28 نکاتی امن منصوبے پر اصولی طور پر اتفاق کر لیا تھا، تاہم یوکرین کی مخالفت کے باعث امریکا نے اس پر پیش رفت روک دی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یہ بات کریملن میں سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کے اجلاس کے دوران کہی، اجلاس کے آغاز میں چیئر آف فیڈریشن کی سربراہ ویلنٹینا ماتویینکو نے پیوٹن سے ٹرمپ کے منصوبے اور الاسکا میں ہونے والی ملاقات سے متعلق سوال کیا۔
پیوٹن نے جواب میں بتایا کہ امریکی انتظامیہ نے روس سے لچک دکھانے کی درخواست کی تھی، اور روس نے ان تجاویز سے اتفاق کر کے اپنا مثبت مؤقف واضح کر دیا تھا۔
صدر پیوٹن کے مطابق ٹرمپ کا امن منصوبہ الاسکا ملاقات سے پہلے بھی زیرِ غور تھا اور ملاقات میں روس نے دوبارہ اس سے اتفاق کی تصدیق کی، روس نے چین، بھارت، برازیل، جنوبی افریقہ، کوریا اور او ڈی کے بی کے تمام اتحادی ممالک کو مکمل طور پر اعتماد میں لیا، اور تمام شراکت دار ممالک نے اس ممکنہ معاہدے کی حمایت کی۔
پیوٹن نے الزام لگایا کہ امریکی انتظامیہ مذاکرات میں خاموشی اس لیے اختیار کیے ہوئے ہے کہ یوکرین اس منصوبے کو منظور کرنے پر آمادہ نہیں، یوکرین اور اس کے یورپی اتحادی اب بھی روس کو اسٹریٹیجک شکست دینے کے وہم میں مبتلا ہیں اور انہیں میدانِ جنگ کی اصل صورتحال کا ادراک نہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ 4 نومبر کو یوکرین دعویٰ کر رہا تھا کہ کوپیانسک میں صرف 60 روسی فوجی موجود ہیں، جبکہ حقیقت میں اس وقت پورا شہر روسی فوج کے کنٹرول میں آچکا تھا اور صرف چند علاقوں میں کلیئرنس آپریشن جاری تھا۔
صدر پیوٹن نے کہا کہ اگر یوکرین ٹرمپ منصوبے کو قبول نہیں کرے گا تو ایسے واقعات دیگر محاذوں پر بھی دہرائے جائیں گے، تاہم انہوں نے ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ روس امن مذاکرات کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ تمام نکات پر عملی گفتگو شروع کی جائے۔
اجلاس کے اختتام پر صدر نے 2026 میں روس کی او ڈی کے بی چیئرمین شپ اور نیو کولونیلزم کے خلاف روسی حکمتِ عملی سے متعلق پالیسی امور پر بھی گفتگو کی۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو امن معاہدہ قبول کرنے کے لیے آئندہ جمعرات تک کا وقت دیا ہے۔
دوسری طرف کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے تصدیق کی ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین میں امن قائم کرنے کے لیے امریکی تجویز کردہ 28 نکاتی منصوبے پر رابطوں کی نوعیت اور سطح ابھی طے نہیں ہوئی ہے۔
پیسکوف نے بتایا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مذاکرات کی ضرورت اور رابطوں کی نوعیت پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔