احتجاج کی سیاست،مزاحمت اور حکومت کا طرز عمل
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
پاکستان میں ایک عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ اگر آپ نے اپنے سیاسی ،سماجی ،معاشی اور قانونی مطالبات کی منظوری میں سخت گیر طرز کی مزاحمت حکومت کے نظام کے خلاف اختیار نہ کی تو آپ کے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے؟کیونکہ ہمارا حکمرانی کا نظام اسی صورت میں لوگوں کی باتوں کو سنتا ہے جب آپ حالات کو بند گلی میں لے جاتے ہیں یا حالات کو اس نہج پر پہنچا دیتے ہیں جہاں حکمران طبقہ کے پاس آپ سے بات چیت یا مطالبات کی منظوری کے سوا کوئی آپشن موجود نہیں ہوتا۔کیونکہ حکمرانی کا نظام ابتدا ہی میں مخالفین کو ساتھ ملا کر بات چیت کرنا،مسائل کے حل میں سیاسی اور جمہوری راستہ تلاش کرنا،طاقت کے استعمال سے گریز کی پالیسی کو اختیار کرنا ہمارے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ یا سیاسی جماعتیں یا دیگر قوتیں اپنے مطالبات کے حق میں وہ راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جو اصولی طور پر نہیں ہونا چاہیے ۔کیونکہ اس طرز میں پرتشدد راستے سامنے آتے ہیں جو بظاہر ریاست اور حکمرانی کے نظام میں کوئی اچھے سیاسی آپشن نہیں ہیں۔
اسی طرح ہمارا ایک مزاج یہ بھی بن گیا ہے کہ ہم اس طرز کی سیاسی اور سماجی مزاحمت میں داخلی اور خارجی سازشی پہلوتلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں حکمران طبقہ پیش پیش ہوتا ہے ۔کیونکہ حکمرانی کے نظام پر تنقید کرنے کو ہم سیاسی دشمنی کے پہلو میں دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عام لوگ بھی اپنے سیاسی ،سماجی ،معاشی اور قانونی حقوق کی بات لے کر سیاسی میدان میں کودتے ہیں وہ کسی سازشی کھیل کا حصہ ہیں یا ان کو نظام کے خلاف بغاوت کے طور پر لیا جاتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں سیاسی احتجاج کی صورت میں دو طرز کے بیانات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ اول یہ قوتیں ریاست اور حکمرانی کے نظام کے خلاف کسی سازش کے کھیل کا حصہ ہیں اوردوئم ہم احتجاج کی بنیاد پر اپنے حقوق کی جنگ کو لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے حکومت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔یہ ہی وہ دو متضاد سوچ ہے جو نظام کے اندر جہاں ٹکراؤ کو پیدا کرتی ہے وہیں ان میں ایک دوسرے کے خلاف سیاسی بغاوتیں جنم لیتی ہیں۔
حالیہ آزاد کشمیر میں ہونے والی احتجاجی تحریک میں بھی ہمیں یہ پہلو دیکھنے کو ملے۔پھر اسی احتجاجی تحریک کی کمیٹی کے ساتھ ہی حکومت کا بیٹھنا،بات چیت کرنا ،مطالبات کو تحریری طور پر تسلیم کرنا اور تحریک کا خاتمہ مختلف وعدوں کی بنیاد پر ختم ہوناجیسا عمل حکمران طبقات کی جانب سے ابتدا ہی میں کیونکر اختیار نہیں کیا گیا اور کیوں اس تحریک کو ضرورت سے زیادہ پھیلنے کا موقع دیا گیا۔اس پر بہت زیادہ سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
بنیادی طور پر سیاسی اور دیگر مسائل کا حل ہمیں پرامن اور جمہوری تناظر میں ہی تلاش کرنا چاہیے اور یہ ہی حکومت سمیت احتجاج کرنے والی قوتوں کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔کیونکہ اگر لوگ سیاسی اور قانونی سطح کے دائرہ کار میں رہ کر اپنی پرامن مزاحمت کرتے ہیں تو حکومتی نظام کو ان کا یہ سیاسی حق تسلیم کرنا چاہیے۔اسی طرح احتجاج کرنے والے فریقین کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ حالات کو اس نہج پر نہ لے جائیں جہاں تشدد جنم لے ۔یہ ذمے داری کسی ایک فریق کی نہیں بلکہ اس میںتمام فریقین ذمے دار ہیں اور حالات کی خرابی میں دونوں کو ہی ذمے داری لینی بھی چاہیے۔
حکومت کا طرز عمل یہ بھی ہوتا ہے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ سیاسی احتجاج کا راستہ شدت اختیار کرگیا ہے تو پھر حکومت بچاؤ کے لیے پہلے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی ہے اوراحتجاج کے خاتمہ کے لیے ان سے زبانی یا تحریری معاہدے بھی کرتی ہے مگر جیسے ہی حالات بدلتے ہیں تو کیے گئے وعدوں سے انحراف کرکے حکمران طبقہ مستقبل کے لیے اپنے لیے مزید مسائل پیدا کرتا ہے اور لوگ پھر حکومتی وعدوں پر اعتبار نہیں کرتے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ احتجاج کی سیاست کے دوران ہی مطالبات کی منظور ی کی بات کی جاتی ہے اور سمجھا جاتا ہے جو چیز آج منظور ہوگئی وہی سچ ہے مگر سب جھوٹے دعوے ہیں۔
حکومت کو ایک بات سمجھنی چاہیے کہ لوگ ملک میں حکمرانی کے نظام سے نالاں ہیں اور ان کے تمام تر مسائل بالخصوص جو معاشی مسائل ہیں ان میں کافی شدت نظر آتی ہے ۔لوگ نالاں ہیں کہ حکمرانی کا نظام ان کے مسائل اور جو تحفظات ہیں ان پر کسی بھی قسم کی سنجیدگی دکھانے کے لیے تیار نہیں جو لوگوں میں جہاں غصہ کو پیدا کرتا ہے وہیں ان میں حکمرانی کے خلاف انتہا پسندانہ رجحانات دیکھنے کو بھی ملتے ہیں جو درست عمل نہیں ۔
خاص طور ملک کے وہ علاقے جو پس ماندہ ہیں یا سیاسی اور معاشی سمیت انتظامی محرومیوں کا شکار ہیں جہاں کمزور طبقات کے مسائل کو حل نہیں کیا جاتا تو وہاں ہمیں ردعمل کی سیاست زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے ۔یہ سوال بھی حکمرانی کے نظام میں اہم ہونا چاہیے کہ لوگ کیونکر اپنے مقامی مسائل کی بنیاد پر سڑکوں پر آتے ہیں یا احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب حکمرانی کا نظام لوگوں کے لیے اپنے دروازے بند کردیتا ہے اور جو لوگ بھی احتجاج کے لیے باہر نکلتے ہیں ان کے خلاف طاقت کے استعمال کو بنیاد بنا کر ہم سمجھتے ہیں ہمیں حالات کو کنٹرول کرنا آتا ہے ۔
ملک میں احساس محرومی کی سیاست بڑھ رہی ہے ۔بلکہ اب یہ معاملات محض چھوٹے یا پس ماندہ علاقوں یا دیہات تک محدود نہیں رہے بلکہ اب تو پاکستان کے بڑے شہروں کے مسائل یا گورننس کا نظام اس حد تک بگڑ گیا ہے کہ حالات کی درستگی کا کوئی بڑا واضح اور شفاف روڈ میپ ہی نظر نہیں آتا۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آزاد کشمیر میں حکومت اورجوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کامیاب تحریری مذاکرات کے بعد ان تمام معاملات پر حکومت سنجیدگی سے عملدرآمد کرسکے گی یا محض یہ عمل بھی ماضی کی حکمت عملیوں کی بنیاد پر سیاسی ٹال مٹول کا ذریعہ بنے گا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ مستقبل میں اس طرز کے پرتشدد رجحانات پر مبنی پالیسیوں سے گریز کریں اور حالات کو اس نہج پر نہ لے کر جائیں جہاں سوائے تشدد اور طاقت کے استعال کے کچھ اور نہ بچے۔
آج کی جدید ریاستیں اورحکمرانی کا بہتر اور شفاف نظام ہی ریاستوں کی سیاسی اور معاشی بقا سے جڑا ہوا ہے ۔لیکن ہم اپنی خامیوں اور ناکامیوں کو قبول کرنے کی بجائے بڑی سیاسی ڈھٹائی کے ساتھ اسی نظام کو بنیاد بنا کر ہی آگے بڑھنا چاہتے ہیں جو ہمیں مزید ناکامیوں کی طرف دھکیل رہا ہے ۔لیکن کیا ہم اپنی آج کی حکمرانی میں موجود حکمت عملیوں سے باہر نکلنے کے لیے تیار ہیں ، اس پر غور ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حکمرانی کے نظام حکمرانی کا نظام کی بنیاد پر ہونا چاہیے دیکھنے کو احتجاج کی سیاسی اور حالات کو کے مسائل کی سیاست نظام کے کے خلاف ہیں اور کا حصہ بات کی ہیں کہ کے لیے ہے اور ہیں ان ہیں جو
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی سیاست نہیں کررہے، سیاست میں ڈائیلاگ لازمی ہے، رانا ثنا ء
اسلام آباد(نیوزڈیسک) سینیٹررانا ثنا اللّٰہ نے ووٹ کاسٹ کرنےکےبعدمیڈیا سےگفتگو میں کہا بانی پی ٹی آئی سیاست نہیں کر رہے،سیاست میں ڈائیلاگ لازمی ہے،ایک آدمی جیل میں بیٹھ کرملک میں انارکی پھیلانے کی کوشش کرے تو ایسا نہیں ہوسکتا،،میں ساڑھے 6مہینے جیل میں رہا،میرے اہل خانہ اور 2وکلا کے سوا کوئی نہیں ملا۔
انہوں نے مزید کہا کسی پولنگ اسٹیشن سےکوئی شکایت موصول نہیں ہوئی،نہ ہی کوئی گرفتاری ہوئی، مخالفین کو پورے حلقےمیں شکایت کاموقع نہیں ملا،ترقی کادور مریم نوازکی صورت میں واقع آچکا ہے، اس حلقےمیں میرٹ کی بنیادپر 7الیکشن لڑے،5میں جیتا،ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ 25سے30فیصد ہوتا ہے،امید ہے عوام مسلم لیگ ن کا ساتھ دیں گے۔