Express News:
2025-10-10@02:31:43 GMT

احتجاج کی سیاست،مزاحمت اور حکومت کا طرز عمل

اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT

پاکستان میں ایک عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ اگر آپ نے اپنے سیاسی ،سماجی ،معاشی اور قانونی مطالبات کی منظوری میں سخت گیر طرز کی مزاحمت حکومت کے نظام کے خلاف اختیار نہ کی تو آپ کے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے؟کیونکہ ہمارا حکمرانی کا نظام اسی صورت میں لوگوں کی باتوں کو سنتا ہے جب آپ حالات کو بند گلی میں لے جاتے ہیں یا حالات کو اس نہج پر پہنچا دیتے ہیں جہاں حکمران طبقہ کے پاس آپ سے بات چیت یا مطالبات کی منظوری کے سوا کوئی آپشن موجود نہیں ہوتا۔کیونکہ حکمرانی کا نظام ابتدا ہی میں مخالفین کو ساتھ ملا کر بات چیت کرنا،مسائل کے حل میں سیاسی اور جمہوری راستہ تلاش کرنا،طاقت کے استعمال سے گریز کی پالیسی کو اختیار کرنا ہمارے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ یا سیاسی جماعتیں یا دیگر قوتیں اپنے مطالبات کے حق میں وہ راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جو اصولی طور پر نہیں ہونا چاہیے ۔کیونکہ اس طرز میں پرتشدد راستے سامنے آتے ہیں جو بظاہر ریاست اور حکمرانی کے نظام میں کوئی اچھے سیاسی آپشن نہیں ہیں۔

اسی طرح ہمارا ایک مزاج یہ بھی بن گیا ہے کہ ہم اس طرز کی سیاسی اور سماجی مزاحمت میں داخلی اور خارجی سازشی پہلوتلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں حکمران طبقہ پیش پیش ہوتا ہے ۔کیونکہ حکمرانی کے نظام پر تنقید کرنے کو ہم سیاسی دشمنی کے پہلو میں دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عام لوگ بھی اپنے سیاسی ،سماجی ،معاشی اور قانونی حقوق کی بات لے کر سیاسی میدان میں کودتے ہیں وہ کسی سازشی کھیل کا حصہ ہیں یا ان کو نظام کے خلاف بغاوت کے طور پر لیا جاتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں سیاسی احتجاج کی صورت میں دو طرز کے بیانات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ اول یہ قوتیں ریاست اور حکمرانی کے نظام کے خلاف کسی سازش کے کھیل کا حصہ ہیں اوردوئم ہم احتجاج کی بنیاد پر اپنے حقوق کی جنگ کو لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے حکومت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔یہ ہی وہ دو متضاد سوچ ہے جو نظام کے اندر جہاں ٹکراؤ کو پیدا کرتی ہے وہیں ان میں ایک دوسرے کے خلاف سیاسی بغاوتیں جنم لیتی ہیں۔

حالیہ آزاد کشمیر میں ہونے والی احتجاجی تحریک میں بھی ہمیں یہ پہلو دیکھنے کو ملے۔پھر اسی احتجاجی تحریک کی کمیٹی کے ساتھ ہی حکومت کا بیٹھنا،بات چیت کرنا ،مطالبات کو تحریری طور پر تسلیم کرنا اور تحریک کا خاتمہ مختلف وعدوں کی بنیاد پر ختم ہوناجیسا عمل حکمران طبقات کی جانب سے ابتدا ہی میں کیونکر اختیار نہیں کیا گیا اور کیوں اس تحریک کو ضرورت سے زیادہ پھیلنے کا موقع دیا گیا۔اس پر بہت زیادہ سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

بنیادی طور پر سیاسی اور دیگر مسائل کا حل ہمیں پرامن اور جمہوری تناظر میں ہی تلاش کرنا چاہیے اور یہ ہی حکومت سمیت احتجاج کرنے والی قوتوں کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔کیونکہ اگر لوگ سیاسی اور قانونی سطح کے دائرہ کار میں رہ کر اپنی پرامن مزاحمت کرتے ہیں تو حکومتی نظام کو ان کا یہ سیاسی حق تسلیم کرنا چاہیے۔اسی طرح احتجاج کرنے والے فریقین کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ حالات کو اس نہج پر نہ لے جائیں جہاں تشدد جنم لے ۔یہ ذمے داری کسی ایک فریق کی نہیں بلکہ اس میںتمام فریقین ذمے دار ہیں اور حالات کی خرابی میں دونوں کو ہی ذمے داری لینی بھی چاہیے۔

حکومت کا طرز عمل یہ بھی ہوتا ہے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ سیاسی احتجاج کا راستہ شدت اختیار کرگیا ہے تو پھر حکومت بچاؤ کے لیے پہلے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی ہے اوراحتجاج کے خاتمہ کے لیے ان سے زبانی یا تحریری معاہدے بھی کرتی ہے مگر جیسے ہی حالات بدلتے ہیں تو کیے گئے وعدوں سے انحراف کرکے حکمران طبقہ مستقبل کے لیے اپنے لیے مزید مسائل پیدا کرتا ہے اور لوگ پھر حکومتی وعدوں پر اعتبار نہیں کرتے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ احتجاج کی سیاست کے دوران ہی مطالبات کی منظور ی کی بات کی جاتی ہے اور سمجھا جاتا ہے جو چیز آج منظور ہوگئی وہی سچ ہے مگر سب جھوٹے دعوے ہیں۔

 حکومت کو ایک بات سمجھنی چاہیے کہ لوگ ملک میں حکمرانی کے نظام سے نالاں ہیں اور ان کے تمام تر مسائل بالخصوص جو معاشی مسائل ہیں ان میں کافی شدت نظر آتی ہے ۔لوگ نالاں ہیں کہ حکمرانی کا نظام ان کے مسائل اور جو تحفظات ہیں ان پر کسی بھی قسم کی سنجیدگی دکھانے کے لیے تیار نہیں جو لوگوں میں جہاں غصہ کو پیدا کرتا ہے وہیں ان میں حکمرانی کے خلاف انتہا پسندانہ رجحانات دیکھنے کو بھی ملتے ہیں جو درست عمل نہیں ۔

خاص طور ملک کے وہ علاقے جو پس ماندہ ہیں یا سیاسی اور معاشی سمیت انتظامی محرومیوں کا شکار ہیں جہاں کمزور طبقات کے مسائل کو حل نہیں کیا جاتا تو وہاں ہمیں ردعمل کی سیاست زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے ۔یہ سوال بھی حکمرانی کے نظام میں اہم ہونا چاہیے کہ لوگ کیونکر اپنے مقامی مسائل کی بنیاد پر سڑکوں پر آتے ہیں یا احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب حکمرانی کا نظام لوگوں کے لیے اپنے دروازے بند کردیتا ہے اور جو لوگ بھی احتجاج کے لیے باہر نکلتے ہیں ان کے خلاف طاقت کے استعمال کو بنیاد بنا کر ہم سمجھتے ہیں ہمیں حالات کو کنٹرول کرنا آتا ہے ۔

ملک میں احساس محرومی کی سیاست بڑھ رہی ہے ۔بلکہ اب یہ معاملات محض چھوٹے یا پس ماندہ علاقوں یا دیہات تک محدود نہیں رہے بلکہ اب تو پاکستان کے بڑے شہروں کے مسائل یا گورننس کا نظام اس حد تک بگڑ گیا ہے کہ حالات کی درستگی کا کوئی بڑا واضح اور شفاف روڈ میپ ہی نظر نہیں آتا۔

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آزاد کشمیر میں حکومت اورجوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کامیاب تحریری مذاکرات کے بعد ان تمام معاملات پر حکومت سنجیدگی سے عملدرآمد کرسکے گی یا محض یہ عمل بھی ماضی کی حکمت عملیوں کی بنیاد پر سیاسی ٹال مٹول کا ذریعہ بنے گا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ مستقبل میں اس طرز کے پرتشدد رجحانات پر مبنی پالیسیوں سے گریز کریں اور حالات کو اس نہج پر نہ لے کر جائیں جہاں سوائے تشدد اور طاقت کے استعال کے کچھ اور نہ بچے۔

آج کی جدید ریاستیں اورحکمرانی کا بہتر اور شفاف نظام ہی ریاستوں کی سیاسی اور معاشی بقا سے جڑا ہوا ہے ۔لیکن ہم اپنی خامیوں اور ناکامیوں کو قبول کرنے کی بجائے بڑی سیاسی ڈھٹائی کے ساتھ اسی نظام کو بنیاد بنا کر ہی آگے بڑھنا چاہتے ہیں جو ہمیں مزید ناکامیوں کی طرف دھکیل رہا ہے ۔لیکن کیا ہم اپنی آج کی حکمرانی میں موجود حکمت عملیوں سے باہر نکلنے کے لیے تیار ہیں ، اس پر غور ہونا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حکمرانی کے نظام حکمرانی کا نظام کی بنیاد پر ہونا چاہیے دیکھنے کو احتجاج کی سیاسی اور حالات کو کے مسائل کی سیاست نظام کے کے خلاف ہیں اور کا حصہ بات کی ہیں کہ کے لیے ہے اور ہیں ان ہیں جو

پڑھیں:

سیاست اور کھیل

کھیل انسان کی فطرت کا حصہ ہیں۔ دوڑنے، بھاگنے، تیر چلانے اور نشانہ باندھنے سے لے کر آج کے زمانے کے کرکٹ اور فٹ بال تک یہ سب انسان کی جسمانی قوت، ذہنی تیزی اور تخلیقی رجحان کے مظہر ہیں۔ کھیلوں سے صحت بہتر ہوتی ہے، برداشت جنم لیتی ہے اور اجتماعی طور پر ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملتا ہے، مگر جب کھیل کے میدان کو سیاست کے داؤ پیچ میں جکڑ دیا جاتا ہے تو یہ نامناسب ہے۔

 28 ستمبر کو ایشیا کپ کا فائنل تھا۔ پاکستان اور بھارت آمنے سامنے تھے۔ کروڑوں آنکھیں اس منظر پر جمی تھیں، بھارت جیت گیا، پاکستان ہار گیا۔ میدان میں ایک ٹیم نے کامیابی حاصل کی اور دوسری شکست سے دوچار ہوئی مگر میدان سے باہر یہ کھیل ایک اور طرح کا تھا۔ کبھی کھلاڑیوں نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے انکار کیا، کبھی کسی نے پرانی جنگوں اور طیارے گرانے کے اشارے دیے، گویا کھیل کا اصل مقصد کہیں کھوگیا اور یہ کھیل بھی رنجش اور نفرت کی نظر ہوگیا۔

یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے۔ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کھیل اور تماشے ہمیشہ سے حکمرانوں کے ہتھیار رہے ہیں۔ روم کی سلطنت اپنے عروج پر تھی، گلیڈیئیٹرز کی لڑائیاں بڑے بڑے میدانوں میں کرائی جاتیں۔

شیر اور انسان کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا جاتا، تلوار ٹکراتی، خون بہتا اور ہزاروں لوگوں کی تالیوں اور نعروں سے فضا گونج اٹھتی مگر کیا ان تماشوں سے عوام کی بھوک مٹتی تھی؟ کیا غربت کم ہوتی تھی؟ کیا مظلوم کی فریاد سنائی دیتی تھی؟ نہیں۔ حکمران جانتے تھے کہ اگر لوگ روٹی مانگیں گے، انصاف کا مطالبہ کریں گے تو تخت لرز جائیں گے۔ اس لیے انھیں کھیل تماشے اور خون کی ہولی میں الجھا دو تاکہ اصل سوال دب جائیں۔

روم کی تاریخ میں یہ قول مشہور ہوا Bread and Circuses  یعنی روٹی اور تماشا، عوام کو اتنا اناج دے دو کہ وہ زندہ رہیں اور اتنا کھیل دکھا دو کہ وہ سوال نہ کریں۔ یہی ترکیب آج بھی نظر آتی ہے۔ جب غربت بیروزگاری اور ناانصافی اپنے عروج پر ہوتی ہے تو کھیلوں کو سیاست کی ڈھال بنا دیا جاتا ہے۔ ہمارے خطے میں بھی یہی روش ہے۔

پاکستان اور بھارت جب کرکٹ کھیلتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے میدان میں گیارہ گیارہ کھلاڑی نہیں بلکہ دونوں ممالک کی پوری تاریخ آمنے سامنے کھڑی ہے۔ جیت کو قوم کی فتح اور ہارکو قومی المیہ بنا دیا جاتا ہے۔ جذبات اتنے بھڑکائے جاتے ہیں کہ تعلیم، بھوک، بیماری اور سیلاب زدگان سب پس منظر میں چلے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک عام مزدور جو شام کو گھر آکر بجلی کے بل اور آٹے کی قیمت کے بوجھ تلے دبا ہوتا ہے، اگلے دن کرکٹ میچ کی جیت یا ہار پر اپنی جھوٹی تسلی ڈھونڈتا ہے۔

 یہ کھیل صرف کھیل نہیں رہتے بلکہ ایک نفسیاتی ہتھیار بن جاتے ہیں۔ عوام کو خواب دکھائے جاتے ہیں، جیسے اگر میچ جیت لیا تو سب کچھ سنور جائے گا، مگر کیا ایک چھکا مارنے سے فیکٹری کے مزدور کی اجرت بڑھتی ہے؟ کیا ایک وکٹ لینے سے بیوہ کا چولہا جلتا ہے؟ کیا ایک فائنل جیتنے سے ہزاروں اسکول کھل جاتے ہیں؟ نہیں مگر عوام کو بہلانے کے لیے یہ فریب بار بار دہرایا جاتا ہے۔

 یونان کی تاریخ بھی ہمیں بتاتی ہے کہ اولمپکس کھیلوں کا مرکز تھے۔ وہاں بھی حکمران جانتے تھے کہ کھیل انسانوں کو متحد کرسکتے ہیں اور سوالوں کو موخرکرسکتے ہیں لیکن یونان اور روم کے زمانے میں کھیل کم از کم جسمانی قوت اور انسانی صلاحیت کی نمایندگی کرتے تھے۔ آج کھیل کے ساتھ میڈیا،کارپوریٹ سرمایہ اور سیاست کی گٹھ جوڑ نے اسے ایک صنعت میں بدل دیا ہے۔ ایک کھلاڑی کی شرٹ پر چھپی کمپنی کے اشتہار سے کمپنی اربوں کماتی ہے مگر وہی ملک اپنے اسپتالوں میں دوائیں فراہم نہیں کر پاتا۔

 کھیل ہمیں دشمنی نہیں سکھاتا، بلکہ کھیل تو ہمیں سکھاتا ہے کہ جیتنے اور ہارنے کے باوجود وقار سے کھڑے رہنا چاہیے، لیکن یہ کھیل جب نفرت سیاست اور سرمایہ دارانہ منافع کے ہتھیار بن جاتے ہیں تو ان کا حسن کھو جاتا ہے۔

آج پاکستان میں لاکھوں بچے بھوک کا شکار ہیں، لاکھوں نوجوان تعلیم کے دروازے سے باہر کھڑے ہیں، ہزاروں خاندان سیلاب کے بعد خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ایسے میں کروڑوں روپے کرکٹ پر خرچ کیے جاتے ہیں اور ہم سب اپنی ساری توانائی اس پر لگا دیتے ہیں کہ کون جیتا اورکون ہارا جیسے ہماری ساری زندگی کی کامیابی یا ناکامی اسی ایک نتیجے پر منحصر ہو۔  تاریخ ہمیں بار بار یہ سکھاتی ہے کہ اصل کھیل وہ ہے جو انسانیت کے میدان میں کھیلا جاتا ہے۔ وہ کھیل جس میں ایک ڈاکٹر دیہات کے بچوں کو مفت دوائیں دیتا ہے، ایک استاد غریب طالب علم کو پڑھاتا ہے، ایک مزدور اپنی محنت سے شہرکو زندہ رکھتا ہے، یہی وہ کھلاڑی ہیں جن کی جیت ساری قوم کی جیت ہے۔

ہمارے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہم کھیلوں کو کھیل رہنے دیں۔ انھیں سیاست اور نفرت کا ہتھیار نہ بنائیں اور اپنی اصل جنگ بھوک، جہالت اور بیماری کے خلاف لڑیں، اگر ہم نے صرف کھیل کو سب سے بڑا معرکہ سمجھ لیا تو کل ہماری تاریخ بھی روم کی تاریخ کی طرح لکھی جائے گی کہ ایک قوم بھوک سے مر رہی تھی لیکن اس کے حکمران اور عوام کھیل اور تماشے میں مگن تھے۔

اگر ہم کھیل سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اس محبت کو مثبت رخ دینا ہوگا۔ کھیل کو انسانوں کے بیچ دیوار نہیں پل بنانا ہوگا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم کھیلوں کو ایک بہتر سماج کے لیے استعمال کریں، نہ کہ ایک ایسے ہتھیار کے طور پر جو ہمیں اصل جنگ یعنی بھوک لاعلمی اور غربت سے غافل رکھے۔

متعلقہ مضامین

  • سیاسی بیانات کی بنا پر تعلقات خراب نہیں ہونے چاہییں، وزیراعظم کی پی پی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت
  • غزہ کے عوام نے ہتھیار ڈالنے اور حماس کو سیاسی نظام سے نکالنے کی مخالفت کردی
  • پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو اپنے مسائل حل کرکے آگے بڑھنا چاہیے، رانا ثناء اللہ
  • مولانا فضل الرحمن کا پی ٹی آئی کو تنبیہ: 26ویں آئینی ترمیم پر سیاست نہ کی جائے
  • حکومت اپنے کشمیری بھائیوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے اقدامات جاری رکھے گی، وزیراعظم
  • کیا اسد عمر دوبارہ میدانِ سیاست میں کودنے والے ہیں؟
  • مولانا فضل الرحمن کے بھائی کے سیاسی بیانات پر ترجمان وزیر اعلیٰ کے پی کا ردعمل سامنے آ گیا
  • سیاست اور کھیل
  • گلدستہ پاکستان اور سیاست کا کھیل