دورانِ سفر فلوٹیلا پر 3 ڈرون اٹیک ہوئے، 30 دن اور 30 راتیں سمندر میں گزاریں
2 سال سے زائد ہو گئے، فلسطین میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے،میڈیا سے گفتگو

اسرائیلی حراست سے رہائی کے بعد جماعت اسلامی کے رہنماء سابق سینیٹر مشتاق احمد پاکستان پہنچ گئے،سینکڑوں افراد نے ائیرپورٹ پر ان کا استقبال کیا۔جماعت اسلامی کے رہنماء مشتاق احمد گلف ایٔرلائن کی پرواز جی ایف 770 پر بحرین سے اسلام آباد ایٔرپورٹ پہنچے، استقبال کے لیے سینکڑوں افراد اسلام آباد ایٔرپورٹ پہنچے ،اسلام آباد ایٔرپورٹ پر فلسطینی پرچموں کی بہار آگئی۔جماعتِ اسلامی کے رہنما و سابق سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ دورانِ سفر صمد فلوٹیلا پر 3 ڈرون اٹیک ہوئے۔انہوں نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 30 دن اور 30 راتیں سمندر میں گزاریں۔سابق سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ 2 سال سے زائد ہو گئے، فلسطین میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے، غزہ میں ہزاروں کی تعداد میں بچے معذور اور یتیم ہو گئے۔ان کا کہنا ہے کہ مسلمان ممالک کو مل کر فلسطین سے متعلق غور کرنا ہو گا، 2 سال سے فلسطین میں ہونے والی نسل کشی ظلم کی انتہا ہے۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: سابق سینیٹر مشتاق احمد اسلام ا باد

پڑھیں:

اے، وائے اہلِ فلسطین

20 نومبر کے اخبارات کی اطلاع کے مطابق اسرائیل نے لبنان میں واقع ایک پناہ گزیں کیمپ پر فضائی حملہ کرکے تقریباً 13 افراد کو شہید کر دیا اور متعدد کو زخمی کر دیا۔ یہ حملہ لبنان میں واقع عین الحلوہ کے پناہ گزیں کیمپ پر کیا گیا۔اسرائیل نے جنگ بندی کے نفاذ سے لے کر اب تک 383 مرتبہ معاہدے کی خلاف ورزی کی جس کے نتیجے میں 279 افراد شہید 602 سے زائد زخمی ہوئے ہیں ۔اس کے علاوہ قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کے مغربی کنارے پر تقریباً 36 فلسطینیوں کو بلاجواز گرفتار کر لیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کی گرفتاری مہمان نوازی کے لیے عمل میں نہیں آئی ہے بلکہ یہ اب اسرائیلی بربریت کا شکار ہوں گے اور نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا کیا حشر ہوگا۔

یہ عجیب مضحکہ خیز جنگ بندی ہے اور یقینا پوری انسانی تاریخ میں بڑی بڑی جنگوں کے بعد جنگ بندی کی ایسی اور اتنی خلاف ورزی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ جنگ بندی کی ایسی اور اتنی تعداد میں خلاف ورزی کو اقوام عالم کیسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرتی رہی ہیں اور عالمی مزاج کو ایسی زباں بندی کیوں کر راس آگئی۔

امریکا بہادر جس کے صدر کا خیال ہے کہ وہ ’’امن کے پیامبر‘‘ ہیں اور انھوں نے جنگ بندی کرا کے لاکھوں افراد کی جان بچائی ہے، وہ اہل فلسطین و غزہ کے خون کی اس ارزانی پر کیوں خاموش رہے اور امریکا کو تو اس لیے مورد الزام قرار دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا اور اہل دنیا کا چوہدری ہے اور اگر ایک طرف امن کا اتنا ہی خیال ہے تو پھر اس کی ذمے داری ہے کہ وہ اہل فلسطین کی جانوں کی اس ارزانی پر خاموش نہ رہتا۔

مگر ہمیں تو گلہ اپنوں سے بھی ہے۔ بے چارے قریبی مسلم ممالک تو کسی گنتی شمار میں نہیں ، ان کو خاموش تماشائی بنے رہنے میں ہی عافیت نظر آتی ہے سو وہ خاموش رہے مگر ترکیہ، ایران اور پاکستان کو کیا ہو گیا تھا، وہ سب جنگ بندی ایسی اور اتنی دلیرانہ خلاف ورزیوں پر کیوں خاموش رہے؟

ہمارے ایک دوست جو اپنے حلقے میں بزرجمہر سمجھے جاتے ہیں فرما رہے تھے کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ دراصل امریکی صدر کے تعریفی کلمات کے سحر میں مبتلا تھا۔ مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سے زیادہ مرتبہ پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کی شان میں تعریف کا ایسا صور پھونکا کہ پاکستانی اہل اقتدار کو اپنی عافیت اسی میں نظر آئی کہ وہ ان خلاف ورزیوں پر ’’بے زبانی‘‘ کا مظاہرہ کریں اور خود بھی عافیت میں رہیں۔ یہ جو 279 شہید ہوئے اور ان کے علاوہ جو عرصہ دراز سے نیتن یاہو کے ہٹلری مظالم کا شکار ہو کر اللہ کو پیارے ہوگئے وہ بڑے آرام کی جگہ اور بڑے انعامات سے فیض یاب ہو رہے ہوں گے کہ ظالم کے ہاتھوں موت کو گلے لگانے کا مزہ کچھ اور ہوتا ہے مگر ان کی موت کا باعث بننے والے اسرائیلی درندوں کے نامہ اعمال میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ رنگ لا کر رہے گا۔

اسرائیل کا معاملہ تو خدا کے سپرد ہے مگر اہل فلسطین مسائل و مصائب کی ایسی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں جن سے ان کی نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ عالمی طاقتیں بڑے زعم میں رہتی ہیں اور غم خواری و فلسطین کی آبادکاری کے سلسلے میں دل کش دعوے کرتی رہتی ہیں کہ ان کی دوبارہ آبادکاری کا بوجھ عالمی برادری اٹھائے گی اور یہ کہ اس پر اس قدر خرچ آئے گا اور یہ خرچ بھی عالمی برادری ہی برداشت کرے گی انھیں بھی علم ہے کہ اس آبادکاری میں (اگر وہ کی جا سکی) سالوں لگ جائیں گے۔ اتنے عرصے تک یہ بے سر و سامان لوگ خستہ حال خیموں میں زندگی گزارتے رہیں گے۔

ہم لوگ جو اپنے گھروں میں چین کی نیند سو رہے ہیں وہ ان کی بے دردی و بے سر و سامانی کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ ان کو جو خیمے فراہم کیے گئے تھے ان کی حالت اس وقت تک خستہ ہے، پھر پچھلے دنوں بارش ہوئی تو یہ لوگ پانی میں بھیگتے رہے، اب سردی نے آ لیا ہے تو یہ اپنے شکستہ خیموں میں آگ جلا کر اپنے رشتہ جاں کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کو نہ پانی سے بچنے کا امکان ہے نہ موسم کے شدائد کا مقابلہ کرنے کی سکت ہے۔ نہ ان کے پاس اب روزگار کے وسائل ہیں۔

جو غذائی اور تن پوشی کی امداد بین الاقوامی اداروں کے ذریعے ان تک پہنچائی جانی تھی وہ درندہ صفت اسرائیلیوں نے روک رکھی ہے۔ شاید براستہ مصر کچھ خوراک اور کپڑے ان تک پہنچانے کی صورت بنتی ہے وہ بھی اس قدر تاخیر سے کہ بعض صورتوں میں یہ بنیادی ضروریات کی مدد انھیں اس وقت پہنچتی ہے جب انھیں اس کی ضرورت نہیں رہتی یعنی ان کا رشتہ جاں ہی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ وسائل سے یہ محرومی اہل غزہ کے لیے ایسی اذیت کا باعث ہے کہ زندگی جس کے لیے وہ تکالیف اٹھا رہے ہیں، عذاب لگنے لگتی ہے وہ زندگی کے بجائے موت کی تمنا کرتے ہوں گے۔

شاید ہم مسلمانوں کو بحیثیت ملت اپنے اعمال کی یہ سزا ہے کہ ان کی تکالیف کا احساس رکھتے ہوئے بھی ہم کہ جو ایک جسم کی مانند ہونے کے باوجود اپنے ہی وجود کے ایک حصے کی شدید تکالیف کا نہ پوری طرح ادراک کر سکتے ہیں، نہ ان کی کوئی مدد کر سکتے ہیں۔ ہماری آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہیں۔ ہمارے دست و پا جیسے کسی نے باندھ دیے ہوں۔ شاید ہم زبانی جمع خرچ کرنے کے ہی لائق ہیں، ہم کہ کبھی ایک قوم نہیں ملت ہوا کرتے تھے کہ اگر اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی تو پورا جسم چلا اٹھتا، تڑپ اٹھتا اور مدد کے لیے آ موجود ہوتا۔ آج ہم صرف خاموش تماشائی ہیں۔ کیا اس خاموشی کی قیمت ابھی چکانا نہیں ہوگی؟

متعلقہ مضامین

  •  عدالت نے شراب و اسلحہ برآمدگی کیس میں گنڈاپور کے پھر وارنٹ جاری کر دئیے 
  • ہر حکومت اپنے مفادات کے لیے آئین میں ترامیم کرتی آئی ہیں،علامہ احمد لدھیانوی
  • آسٹریلوی پارلیمنٹ میں خاتون سینیٹر برقع پہن کر پہنچ گئیں
  • خاتون رکن اسمبلی برقع پہن کر آسٹریلوی پارلیمنٹ پہنچ گئی
  • سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی پشاور ایف سی ہیڈکوارٹر پر حملے کی شدید مذمت
  • شراب و اسلحہ برآمدگی کیس: علی امین گنڈا پور کے وارنٹ جاری
  • اے، وائے اہلِ فلسطین
  • امریکی غلامی سے بہت نقصان اٹھایا، کشمیر و فلسطین ہماری ریڈ لائن: حافظ نعیم
  • اسلام آباد: مطلوب ڈکیت گینگ کی پولیس پر فائرنگ، 1 ڈکیت ہلاک، 2 زخمی
  • انٹرنیشنل مقابلۂ قرأت کے لیے مختلف ممالک کے قرّاء کی پاکستان آمد شروع