اسلام آباد میں غزہ مارچ، امن معاہدے پر عملدرآمد کے ذمہ دار امریکہ، مصالحتی ممالک ہونگے: حافظ نعیم
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
لاہور (خصوصی نامہ نگار) امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ غزہ امن معاہدہ حماس اور اہل فلسطین کی عظیم جد وجہد کا ثمر ہے۔ معاہدہ پر اسرائیل سے عملدرآمد کی تمام ذمہ داری امریکہ اور مصالحت کرانے والے ممالک کی ہوگی۔ ناکہ بندی کھلنے پر الخدمت فاؤنڈیشن غزہ میں تین ارب روپے کی لاگت سے ہسپتال بنائے گی اور پاکستان سے ایک ارب ڈالر مالیت کی امداد اکٹھی کر کے اہل فلسطین کو بھیجیں گے۔ اسلام آباد میں بچوں کے غزہ ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ پاکستانی قوم مقدس سرزمین پر دو نہیں واحد ریاست فلسطین کا قیام چاہتی ہے۔ ہم اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ مارچ سے نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں محمد اسلم، امیر اسلام آباد نصراللہ رندھاوا اور پرائیویٹ سکولوں کی ایسوسی ایشنز کے رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ حافظ نعیم الرحمن نے مارچ میں شریک ہزاروں بچوں، ان کے والدین اور اساتذہ کو اہل فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کا معاہدہ جس پر حماس اور اسرائیل نے برابری کی سطح پر دستخط کیے ثابت کرتا ہے کہ آزادی کبھی بھی گھر بیٹھنے اور باتیں کرنے سے نہیں ملتی، اس کے لیے جد وجہد کرنا پڑتی ہے۔ فلسطینیوں نے قربانیاں دے کر ثابت کیا ہے کہ وہ عظیم قوم ہیں اور مسلمانوں کے قبلہ اول کے محافظ ہیں، مسجد اقصیٰ پر صہیونیوں کا قبضہ ہے۔ اسرائیل قابض اور ناجائز ریاست ہے۔ اسرائیل امریکہ کی مدد سے اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کے لیے مسلمانوں پر حملے کر رہا ہے۔ اسرائیل کی تمام کارروائیوں میں امریکہ اس کا پشتیبان ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ حماس نے قربانیاں دے کر اپنے وجود کو تسلیم کرایا ہے، حماس اور اہل غزہ کی مزاحمت کو سلام کرتے ہیں، حماس فلسطین کی عوامی اور جمہوری قوت ہے جس کا راستہ روکا گیا، حماس نے آزادی کے دفاع کے لیے مزاحمت کا آغاز کیا، یہ حق اسے اقوام متحدہ سے ملتا ہے۔ انہوں نے کہا حالیہ معاہدے کے بعد اب ڈونلڈ ٹرمپ کا امتحان ہے کہ وہ کیسے اسرائیلی جارحیت کو روکتا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے مطالبہ کیا کہ اسلام آباد میں حماس کو دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف صرف ایک ریاستی حل کی بات کریں۔ ایٹمی طاقت ہو نے کے ناطے پاکستان امت کے مسائل کے حل کے لیے قائدانہ کردار ادا کرے۔ مسلمان ممالک متحد ہونے کا اعلان کر دیں تو کسی کو مسلمانوں پر حملے کی جرات نہ ہو۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ خود فلسطینیوں کے لیے امداد اکٹھی کریں گے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: حافظ نعیم الرحمن نے اسلام ا باد نے کہا کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ، نیتن یاہو اور مسلم دنیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251009-03-2
یہ بات پہلے بھی کہی جاتی رہی ہے کہ مسلم دنیا اور بالخصوص عرب ممالک کا بڑا سیاسی انحصار امریکا پر رہا ہے اور عرب دنیا کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کے دفاع میں امریکا بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا میں امریکا کی مخالفت اور مسلم حکمرانوں میں امریکا سے محبت دیکھنے کو ملتی ہے۔ امریکا کی جانب سے فلسطین، غزہ اور اسرائیل کے تناظر میں پیش کردہ اکیس نکاتی امن معاہدہ بنیادی طور پر ایسا لگتا ہے کہ مسلم دنیا امریکا اور اسرائیل کے ہاتھوں سیاسی طور پر ٹریپ ہوئی ہے۔ یہ امن معاہدہ مسلم ممالک ومسلم حکمرانوں کے ساتھ ایک سنگین مذاق لگتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے بقول یہ امن معاہدہ وہ نہیں ہے جو چھے اسلامی ممالک کے سربراہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے پیش کیا تھا۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے بقول پیش کردہ معاہدے میں ایسی ترامیم کی گئی ہیں جو ہمیں قبول نہیں۔ جبکہ امریکی صدر کا موقف ہے کہ اسی معاہدے پر اسلامی ممالک کے سربراہوں نے دستخط کیے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی امریکا نے چھے اسلامی ممالک کے سربراہان کی ملاقات میں طے ہونے والے امن معاہدے سے انحراف کیا یا اس میں ان کو اعتماد میں لیے بغیر تبدیلیاں کی گئی ہیں تو اس پر پاکستان سمیت ان اسلامی ممالک کے سربراہان نے امریکا کے ساتھ بھرپور احتجاج کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا کہ ہمیں اعتماد میں لیے بغیر اس معاہدے میں تبدیلی کرکے امریکا نے اعتماد سازی کو نقصان پہنچایا۔ اس کے برعکس ماشاء اللہ مسلم حکمران بشمول پاکستان امریکا اور ٹرمپ کی حمایت میں پیش پیش ہیں اور پاکستان نے تو ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے بھی نامزد کیا ہے۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ امریکا مسلم ممالک کے لیے مثبت جذبات رکھتا ہے اور غزہ میں امن لانا اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہے۔ اس امن معاہدے پر اسلام آباد اور لاہور میں بڑے بڑے پوسٹرز پر پاکستان کے حکمران اور سیاسی طاقت ور شخصیات نے ٹرمپ کی تصاویر لگا کر امریکا سے محبت کا بھرپور ثبوت دیا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ مسلم حکمرانوں امریکا پر کس حد تک سیاسی انحصار کرتے ہیں۔ انہی مسلم حکمرانوں بشمول پاکستان نے غزہ میں ہونے والے اسرائیلی مظالم پر ایک لفظ کی مذمت بھی امریکا کی طرف سے نہیں کہلوائی بلکہ امریکا کے بقول اگر اس امن معاہدے کو حماس نے قبول نہ کیا تو وہ ہر صورت میں اسرائیل کی پشت پر کھڑا ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ امن معاہدہ بنیادی طور پر امریکا اور اسرائیل کا باہمی گٹھ جوڑ ہے اور اس میں ان دونوں ملکوں کا اپنا ایجنڈا بشمول گریٹر اسرائیل اور مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے۔ یہ کیسا معاہدہ ہے جس میں فلسطین کا کنٹرول امریکا کی سرپرستی میں چلے گا اور جب امریکا کہا جاتا ہے تو ہمیں امریکا اور اسرائیل کے باہمی تعلق کو بنیاد بنا کر حالات کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ اسرائیل کے غزہ سے مکمل انخلا پر یہ معاہدہ خاموش ہے اور حماس نے اس معاہدے کی چند بڑی شرائط کو تسلیم کرکے اس کی حمایت ضرور کی ہے لیکن حماس نے کمال ہوشیاری سے امریکا کے اس معاہدے کی حمایت کرکے اس تاثر کی نفی کردی کہ حماس مسائل کا حل بات چیت سے کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ لیکن حماس نے ایک طرف اس معاہدے کی حمایت کی ہے تو دوسری طرف کھل کر غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا اور دوسری جانب فلسطین کا کنٹرول کسی غیر ملکی قوت کے مقابلے میں فلسطین کی نامزدہ کردہ کمیٹی کے سپرد کرنے کا اعلان کیا ہے جو یقینی طور پر امریکا کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ اگرچہ اس امن معاہدے کے باوجود ابھی تک اسرائیلی فوج غزہ پر مسلسل حملے کررہی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ امن کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ دوسری جانب یہ خبریں بھی چل رہی ہیں کہ مسلم ممالک پر بڑا دبائو ہے کہ وہ اسرائیل کو قبول کریں اور پاکستان میں کچھ لوگ اسرائیل کی حمایت میں سامنے بھی آگئے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے تو ہمارے پاس بھی اس کو قبول کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ یہ خبریں بھی موجود ہیں کہ اس امن معاہدہ میں مسلم ممالک کے حکمرانوں کے بغیر جو تبدیلیاں کی گئی ہیں اس میں اسرائیل کے نقاط کو اہمیت دی گئی اور اسی بنیاد پر امن معاہدے میں ترمیم سامنے آئی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو مسلم حکمرانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امریکا مسلم دنیا کے ساتھ نہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ کل بھی کھڑا تھا اور آج بھی کھڑا ہے۔ یہ جو اسرائیلی وزیر اعظم نے قطر کے سربراہ سے قطر پر حملے کی معافی مانگی ہے یہ بھی امریکی صدر کی مسلم ممالک کے حکمرانوں کی حمایت کے حصول کی حکمت عملی نظر آتی ہے۔ مسلم دنیا یہ سوال کیونکر امریکا سے نہیں پوچھ رہی کہ کیوں اسرائیل کے ایما پر امن معاہدے میں ردوبدل کیا گیا اور کیونکر اس امن معاہدہ کے اعلان سے قبل فلسطینی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس امن معاہدے سے امریکا اور اسرائیل کے سیاسی مقاصد مسلم دنیا سے مختلف ہیں اور اس کو چھپایا جارہا ہے۔ ایک طرف حماس کو غیر مسلح کرنا امریکا کی ترجیحات کا حصہ ہے تو دوسری طرف ایک بے لگام گھوڑے کی طرح اسرائیل کو سب کچھ کرنے اور غزہ میں مظالم ڈھانے کی مکمل آزادی ہے اور اس پر مسلم دنیا کی خاموشی مجرمانہ غفلت یا ذاتی مفادات کی سیاست سے جڑی نظر آتی ہے۔ اگر حماس اور الفتح اس امن منصوبے کو مکمل طور پر قبول نہیں کرتے تو پھر اس امن معاہدے کی کیا حیثیت باقی رہ جائے گی اور قبول نہ کرنے کی صورت میں امریکا کی جانب سے کھلم کھلا دھمکی کو مسلم ممالک نے کیونکر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور اگر اسی طرز پر امریکا کی دھمکیاں چلنی ہیں تو پھر اس امن معاہدے کی کامیابی کی کوئی ضمانت نظر نہیں آتی۔ یہ جو مسلم دنیا میں امریکا کے لیے اندھی محبت میں مزید شدت آئی ہے اس کا یقینا تجزیہ ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ کیونکر ہورہا ہے اور کن شرائط پر ہورہا ہے اور اس سارے عمل سے مسلم ممالک اور بالخصوص غزہ میں ہونے والے اہم اقدامات سے مسلم دنیا کو کیا فائدہ ہوگا۔ اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا امریکا حماس کے اس مطالبے کو تسلیم کرے گا کہ غزہ کا انتظام فلسطینی کمیٹی کو دیا جائے اور کیا اسرائیل اس فیصلے پر امریکا کے ساتھ کھڑا ہوگا اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم اس معاہدے کے لیے پھر کہاں کھڑے ہوں گے۔ یہ بھی لگتا ہے کہ خود حماس کو اندازہ ہے کہ ان تمام معاملات میں خود امریکا کس حد تک سنجیدہ ہے لیکن اس نے مذاکرات کے نام پر امریکا کو بات چیت کے عمل میں شامل کرکے خاصہ وقت لیا ہے جو خود حماس کے حق میں ہوگا۔ مسلم ممالک جو بھی فیصلہ کریں اسے ایک بڑے تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ مسلم دنیا میں امریکا سمیت ان بڑی طاقتوں کے خلاف جو تحفظات پائے جاتے ہیں ان کا اظہار بھی اس طرز کے امن معاہدے میں سامنے آنا چاہیے۔ مسلم ممالک کے سربراہ ضرور امریکا کے ساتھ کھڑے ہوں مگر ان کے سامنے اصل ترجیح مسلم دنیا کے مفادات اور امن کی مکمل ضمانت کے ساتھ مشروط ہونا چاہیے وگرنہ اس طرز کے امن معاہدے سے مسلم دنیا میں جہاں امریکا کے خلاف ردعمل ہوگا وہیں مسلم حکمرانوں کے خلاف بھی اس کا ردعمل دیکھا جائے گا۔