آئینی بنچ کیسے فل کورٹ بنا سکتا، جسٹس مظہر: چاہتے نہ چاہتے، ججز نے 26ویں ترمیم کو تسلیم کر لیا ہے، جسٹس جمال
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں 26 ویں ترمیم کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ آئینی بنچ کیسے فل کورٹ بنا سکتا ہے کیونکہ اب صورتحال مختلف ہے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے ہیں کہ سپریم کورٹ ججز نے چاہتے نہ چاہتے چھبیسویں آئینی ترمیم کو تسلیم کر لیا ہے۔ جسٹس امین الدین نے وکیل منیر اے ملک سے کہا کہ وہ گزشتہ روز کراچی سے ویڈیو لنک پر کچھ کہنا چاہتے تھے مگر آواز ٹھیک سے سنائی نہیں دی۔ منیر اے ملک نے بتایا کہ ان کی لائیو سٹریمنگ سے متعلق درخواست تھی، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اب اس پر فیصلہ ہو چکا ہے، لہٰذا یہ درخواست غیر مؤثر ہو گئی ہے۔ منیر اے ملک نے کہا کہ وہ حامد خان کے دلائل کو اپناتے ہیں اور مزید دلائل بھی دیں گے۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا وہ حامد خان کی اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے نکات کو سائڈ پر رکھا جائے؟ جسٹس محمد علی نے استفسار کیا کہ کیا وہ آرٹیکل 191اے کو نظر انداز کرنے کے مؤقف سے بھی متفق ہیں؟ منیر اے ملک نے دلائل دئیے کہ فل کورٹ ترمیم سے قبل بھی موجود تھا اور اس وقت بھی تشکیل دیا جا سکتا تھا۔ فل کورٹ کیلئے موجودہ بنچ کی جانب سے ڈائریکشن دیے جانے کی استدعا ہے۔ سپریم کورٹ کے اندر آئینی بنچ قائم ہے۔ سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مبنی بنچ درخواستوں پر سماعت کرے۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا فل کورٹ تشکیل دینے میں کوئی رکاوٹ ہے؟ جسٹس محمد علی نے سوال کیا کہ کیا موجودہ 8 رکنی بنچ فل کورٹ تشکیل دینے کا دائرہ اختیار رکھتا ہے؟ جس پر وکیل منیر اے ملک نے جواب دیا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا موجودہ بنچ ریگولر ہے یا آئینی، کیس کون سنے گا؟ موجودہ بنچ فیصلہ کر سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ اگر ہم جوڈیشل آرڈر جاری کریں تو آپ ایڈمنسٹریٹو آرڈر کہیں گے؟ کیا ایسے آرٹیکل191 اے کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟، جس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ کوئی خلاف ورزی نہیں ہوگی، آئینی بنچ کے پاس جوڈیشل اختیارات ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ آئینی بنچ جوڈیشل اختیارات کا استعمال کرکے فل کورٹ تشکیل دے؟ عدالت نے کئی بار ترمیم کے بجائے آئین پر انحصار کیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم کیسے آرٹیکل A191 کو بائی پاس کریں؟، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کیخلاف درخواست میں آپ 26 ویں ترمیم پر انحصار نہیں کر سکتے۔ آپ آئین پر انحصار کریں 26 ویں ترمیم کا دفاع اسی کے ذریعے نہیں کر سکتے، آپ کیا یہی کہنا چاہ رہے ہیں؟۔ وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ اس 8 رکنی آئینی بنچ کے پاس جوڈیشل آرڈر کا اختیار ہے۔ موجودہ آئینی بنچ فل کورٹ کا آرڈر کر سکتا ہے۔ آئینی بنچ کے تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ کیس کی سماعت کرے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ ترمیم کے بعد کیا ہم ججز کمیٹی کے سوا ایسا کوئی حکم دے سکتے ہیں؟، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ ترمیم اگر زیر سماعت ہو تو ترمیم سے پہلے کے آئین کو دیکھا جائے گا۔ آئینی ترمیم سے قبل جو طریقہ کار تھا اس کے مطابق فل کورٹ کا کہا جا سکتا ہے۔ منیر اے ملک نے کہا کہ بالکل! آپ نے ٹھیک کہا اور اب بھی یہ بینچ فل کورٹ کا آرڈر کر سکتا ہے۔ بنچ سب سے پہلے شریعت کورٹ میں تشکیل دیاگیا تھا۔ جسٹس جمال نے کہا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں لیاگیا، لیکن جوڈیشل کمشن کسی بھی جج کو نامزد کر سکتا ہے۔ سینئر ججز پر مشتمل جوڈیشل کمشن جو مرضی بنچ تشکیل دے دے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ دائرہ اختیار کیس کی میرٹس میں آتا ہے۔ جس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ آئینی بنچ کے پاس جوڈیشل اختیارات موجود ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا چیف جسٹس آرڈر جاری کر سکتے ہیں کہ کوئی کیس فل کورٹ سنے گا؟، جس پر وکیل منیر اے ملک نے جواب دیا کہ کوئی بھی بنچ جوڈیشل آرڈر پاس کر سکتا ہے، جوڈیشل آرڈر پاس کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آئینی ترمیم کو چیلنج کیا گیا ہے۔ کیا فل کورٹ ترمیم کی موجودگی میں تشکیل ہو سکتا ہے؟ جوڈیشل اختیارات کو دیکھنا ہے تو آرٹیکل191 اے کو نہیں دیکھنا۔ جسٹس محمد علی نے کہا کہ اگر آرٹیکل191 اے کو نظرانداز کر دیں تو ہم عدالت میں بیٹھے ہی کیوں ہیں؟۔ وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ میں آئینی بنچ کو سپریم کورٹ کاہی بنچ سمجھتا ہوں۔ آئینی ہو یا ریگولر بنچ، موجودہ بنچ کے پاس جوڈیشل اختیارات موجود ہیں۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ جوڈیشل کمیٹی نے موجودہ بنچ تشکیل دیا جو ججز دستیاب تھے ان پر مشتمل بنچ قائم کیا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جوڈیشل کمیٹی کوئی بھی بنچ تشکیل دے سکتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ موجودہ بینچ اپنے دائرہ اختیار پر کیسے فیصلہ کرے؟ آئین میں ترمیم سے قبل جانا پڑیگا، دیکھنا پڑیگا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کیوں ہوئی، ان ججز کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے جن کی چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد ترقی ہوئی ہے جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ ہم چھبیسویں آئینی ترمیم سے قبل کے ہیں، کیا نئے ججز کسی اور ملک سے لا کر لگائے گئے ہیں؟ جوڈیشل کمشن کے ہر اجلاس میں، میں نے اور چیف جسٹس نے مطالبہ کیا کہ آئینی بنچ میں تمام ججز کو شامل ہونا چاہیے، کیا آپ ایسی صورتحال میں مطمئن ہوں گے؟ دائرہ اختیار کو چھوڑیں، ہمیں ایسا راستہ بتائیں جس میں تمام ججز بنچ میں بیٹھ جائیں۔ کون سے چیف جسٹس بنچ کے سربراہ ہوں گے؟ چھبیسویں ترمیم والے چیف جسٹس بنچ کی سربراہی کریں گے؟۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ کیا چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد والے ججز کو بنچ سے نکال دیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کس جج کی کیا دلچسپی ہے؟ کبھی ایسا ہوا کہ کوئی جج سپریم کورٹ میں آیا ہو اور پھر واپس چلا گیا ہو؟ جسٹس امین الدین نے کہا کہ موجودہ آئینی بنچ میں شامل ججز کا کیا ہو گا؟ ہم نے گالیاں بھی بہت کھائی ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسا لگ رہا جیسے آپ کو موجودہ آئینی بنچ کے ججز پر اعتماد نہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جسٹس امین الدین نے کہا کہ جس پر وکیل منیر اے ملک نے چھبیسویں ا ئینی ترمیم جسٹس جمال مندوخیل نے بنچ کے پاس جوڈیشل ا جسٹس محمد علی مظہر جسٹس عائشہ ملک نے جوڈیشل اختیارات ا ئینی بنچ کے دائرہ اختیار کہ ا ئینی بنچ جوڈیشل ا رڈر نے کہا کہ ا سپریم کورٹ کر سکتا ہے کیا کہ کیا ویں ترمیم ترمیم کے ترمیم کی چیف جسٹس کورٹ کا کہ کوئی فل کورٹ ہیں کہ بنچ کی
پڑھیں:
آئینی ترمیم اور قومی سمت ایک فکری جائزہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251124-03-3
آئین کسی ریاست کا محض قانونی دستاویز نہیں ہوتا بلکہ وہ قومی بصیرت، اجتماعی سمت اور فیصلہ سازی کے بنیادی تصور کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ پاکستان میں ماضی کی آئینی ترامیم جیسے چوبیسویں، پچیسویں اور حالیہ ستائیسویں ترمیم ہمیشہ کسی نہ کسی انتظامی، سیاسی یا وفاقی ضرورت کو سامنے رکھ کر کی گئیں، مگر تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ترمیم صرف الفاظ کی تبدیلی نہیں بلکہ مستقبل کے نظام کی تشکیل کا اشارہ ہوتی ہے، اور اس کی کامیابی اس وقت مکمل مانی جاتی ہے جب وہ قانونی تقاضوں کے ساتھ ساتھ فکری اتفاقِ رائے کا حصہ بھی بن جائے۔ حالیہ ترمیم پارلیمانی اکثریت سے منظور ضرور ہوئی، تاہم اس کے بعد جس نوعیت کا مکالمہ سامنے آیا، اس نے یہ پہلو نمایاں کیا کہ قانونی طور پر فیصلہ مکمل ہو جانے کے باوجود، اس کی حقیقی قبولیت تب تک قائم نہیں ہوتی جب تک وہ ادارہ جاتی توازن، عدالتی خودمختاری اور عوامی اعتماد کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو۔
سرکاری موقف کے مطابق اس ترمیم کا مقصد نظم و نسق کو بہتر بنانا اور جدید ریاستی تقاضوں کے تحت فیصلہ سازی کو مؤثر کرنا ہے، مگر آئینی و قانونی حلقوں میں یہ بحث بھی شدت اختیار کر رہی ہے کہ آیا یہ تبدیلی اختیارات کی ساخت میں ایسا رخ متعین کر رہی ہے جو مستقبل میں اداروں کے درمیان توازن پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ بعض اعلیٰ آئینی شخصیات کی جانب سے حالیہ دنوں میں اختیار کیے گئے اصولی موقف نے بھی اس بحث کو مزید گہرائی دی، جسے کچھ اہل ِ فکر نے اس تناظر میں دیکھا کہ آئین پر اعتماد صرف قانونی حیثیت سے نہیں بلکہ اخلاقی توازن سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ عمومی طور پر عوام براہِ راست ایسے مباحث میں شامل نہیں ہو پاتے کیونکہ ان کی ترجیحات معاشی دباؤ اور روزمرہ زندگی کے تقاضوں سے وابستہ ہوتی ہیں، تاہم تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ فیصلے جو کسی قوم کی لاعلمی میں قبول ہو جائیں، ان کا اثر سب سے پہلے اسی معاشرے کی روزمرہ زندگی پر ظاہر ہوتا ہے۔ یہی سوال اب سامنے آ رہا ہے کہ آیا یہ ترمیم مستقبل میں ہم آہنگی اور مؤثریت لائے گی یا کسی نئے فکری موڑ کا آغاز کرے گی۔
قومی پالیسی کے فیصلے اس وقت دیرپا ثابت ہوتے ہیں جب وہ صرف پارلیمانی اکثریت کے زور پر نہیں بلکہ ذمے دارانہ سوچ، اجتماعی شعور اور اداروں کی باہمی ہم آہنگی کے ساتھ کیے جائیں۔ نئی نسل اگر آئینی عمل کو جذباتی ردِعمل کے بجائے تجزیاتی نقطہ ٔ نظر سے دیکھے، تو یہی مباحث آئندہ اصلاح اور فکری بلوغت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
آخرکار، آئین تبدیل ہو سکتا ہے لیکن سمت وہی بدلتی ہے جب فیصلہ شعور کے ساتھ کیا جائے، کیونکہ بعض اوقات ایک ترمیم قانون سے بڑھ کر آنے والے وقت کی سوچ کو تشکیل دیتی ہے، اور ایسے لمحوں میں قلم صرف اظہار کا ذریعہ نہیں رہتا بلکہ راستے متعین کرنے کی امانت بن جاتا ہے۔