اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں 26 ویں ترمیم کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہرنے کہا کہ آئینی بنچ کیسے فل کورٹ بنا سکتا ہے کیونکہ اب صورتحال مختلف ہے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے ہیں کہ سپریم کورٹ ججز نے چاہتے نہ چاہتے چھبیسویں آئینی ترمیم کو تسلیم کر لیا ہے۔ جسٹس امین الدین نے وکیل منیر اے ملک سے کہا کہ وہ گزشتہ روز کراچی سے ویڈیو لنک پر کچھ کہنا چاہتے تھے مگر آواز ٹھیک سے سنائی نہیں دی۔ منیر اے ملک نے بتایا کہ ان کی لائیو سٹریمنگ سے متعلق درخواست تھی، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ اب اس پر فیصلہ ہو چکا ہے، لہٰذا یہ درخواست غیر مؤثر ہو گئی ہے۔ منیر اے ملک نے کہا کہ وہ حامد خان کے دلائل کو اپناتے ہیں اور مزید دلائل بھی دیں گے۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا وہ حامد خان کی اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے نکات کو سائڈ پر رکھا جائے؟ جسٹس محمد علی نے استفسار کیا کہ کیا وہ آرٹیکل 191اے کو نظر انداز کرنے کے مؤقف سے بھی متفق ہیں؟ منیر اے ملک نے دلائل دئیے کہ فل کورٹ ترمیم سے قبل بھی موجود تھا اور اس وقت بھی تشکیل دیا جا سکتا تھا۔ فل کورٹ کیلئے موجودہ بنچ کی جانب سے ڈائریکشن دیے جانے کی استدعا ہے۔ سپریم کورٹ کے اندر آئینی بنچ قائم ہے۔ سپریم کورٹ کے تمام ججز پر مبنی بنچ درخواستوں پر سماعت کرے۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا فل کورٹ تشکیل دینے میں کوئی رکاوٹ ہے؟ جسٹس محمد علی نے سوال کیا کہ کیا موجودہ 8 رکنی بنچ فل کورٹ تشکیل دینے کا دائرہ اختیار رکھتا ہے؟ جس پر وکیل منیر اے ملک نے جواب دیا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا موجودہ بنچ ریگولر ہے یا آئینی، کیس کون سنے گا؟ موجودہ بنچ فیصلہ کر سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ اگر ہم جوڈیشل آرڈر جاری کریں تو آپ ایڈمنسٹریٹو آرڈر کہیں گے؟  کیا ایسے آرٹیکل191 اے کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟، جس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ کوئی خلاف ورزی نہیں ہوگی، آئینی بنچ کے پاس جوڈیشل اختیارات ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ آئینی بنچ جوڈیشل اختیارات کا استعمال کرکے فل کورٹ تشکیل دے؟ عدالت نے کئی بار ترمیم کے بجائے آئین پر انحصار کیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم کیسے آرٹیکل A191 کو بائی پاس کریں؟، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کیخلاف درخواست میں آپ 26 ویں ترمیم پر انحصار نہیں کر سکتے۔ آپ آئین پر انحصار کریں 26 ویں ترمیم کا دفاع اسی کے ذریعے نہیں کر سکتے، آپ کیا یہی کہنا چاہ رہے ہیں؟۔ وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ اس 8 رکنی آئینی بنچ کے پاس جوڈیشل آرڈر کا اختیار ہے۔ موجودہ آئینی بنچ فل کورٹ کا آرڈر کر سکتا ہے۔ آئینی بنچ کے تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ کیس کی سماعت کرے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ ترمیم کے بعد کیا ہم ججز کمیٹی کے سوا ایسا کوئی حکم دے سکتے ہیں؟، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ ترمیم اگر زیر سماعت ہو تو ترمیم سے پہلے کے آئین کو دیکھا جائے گا۔ آئینی ترمیم سے قبل جو طریقہ کار تھا اس کے مطابق فل کورٹ کا کہا جا سکتا ہے۔ منیر اے ملک نے کہا کہ بالکل! آپ نے ٹھیک کہا اور اب بھی یہ بینچ فل کورٹ کا آرڈر کر سکتا ہے۔ بنچ سب سے پہلے شریعت کورٹ میں تشکیل دیاگیا تھا۔ جسٹس جمال نے کہا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں لیاگیا، لیکن جوڈیشل کمشن کسی بھی جج کو نامزد کر سکتا ہے۔ سینئر ججز پر مشتمل جوڈیشل کمشن جو مرضی بنچ تشکیل دے دے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ دائرہ اختیار کیس کی میرٹس میں آتا ہے۔ جس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ آئینی بنچ کے پاس جوڈیشل اختیارات موجود ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا چیف جسٹس آرڈر جاری کر سکتے ہیں کہ کوئی کیس فل کورٹ سنے گا؟، جس پر وکیل منیر اے ملک نے جواب دیا کہ کوئی بھی بنچ جوڈیشل آرڈر پاس کر سکتا ہے، جوڈیشل آرڈر پاس کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آئینی ترمیم کو چیلنج کیا گیا ہے۔ کیا فل کورٹ ترمیم کی موجودگی میں تشکیل ہو سکتا ہے؟ جوڈیشل اختیارات کو دیکھنا ہے تو آرٹیکل191 اے کو نہیں دیکھنا۔ جسٹس محمد علی نے کہا کہ اگر آرٹیکل191 اے کو نظرانداز کر دیں تو ہم عدالت میں بیٹھے ہی کیوں ہیں؟۔ وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ میں آئینی بنچ کو سپریم کورٹ کاہی بنچ سمجھتا ہوں۔ آئینی ہو یا ریگولر بنچ، موجودہ بنچ کے پاس جوڈیشل اختیارات موجود ہیں۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ جوڈیشل کمیٹی نے موجودہ بنچ تشکیل دیا جو ججز دستیاب تھے ان پر مشتمل بنچ قائم کیا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جوڈیشل کمیٹی کوئی بھی بنچ تشکیل دے سکتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ موجودہ بینچ اپنے دائرہ اختیار پر کیسے فیصلہ کرے؟  آئین میں ترمیم سے قبل جانا پڑیگا، دیکھنا پڑیگا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کیوں ہوئی، ان ججز کو بینچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے جن کی چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد ترقی ہوئی ہے جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ ہم چھبیسویں آئینی ترمیم سے قبل کے ہیں، کیا نئے ججز کسی اور ملک سے لا کر لگائے گئے ہیں؟ جوڈیشل کمشن کے ہر اجلاس میں، میں نے اور چیف جسٹس نے مطالبہ کیا کہ آئینی بنچ میں تمام ججز کو شامل ہونا چاہیے، کیا آپ ایسی صورتحال میں مطمئن ہوں گے؟ دائرہ اختیار کو چھوڑیں، ہمیں ایسا راستہ بتائیں جس میں تمام ججز بنچ میں بیٹھ جائیں۔ کون سے چیف جسٹس بنچ کے سربراہ ہوں گے؟ چھبیسویں ترمیم والے چیف جسٹس بنچ کی سربراہی کریں گے؟۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ کیا چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد والے ججز کو بنچ سے نکال دیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کس جج کی کیا دلچسپی ہے؟ کبھی ایسا ہوا کہ کوئی جج سپریم کورٹ میں آیا ہو اور پھر واپس چلا گیا ہو؟ جسٹس امین الدین نے کہا کہ موجودہ آئینی بنچ میں شامل ججز کا کیا ہو گا؟ ہم نے گالیاں بھی بہت کھائی ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسا لگ رہا جیسے آپ کو موجودہ آئینی بنچ کے ججز پر اعتماد نہیں۔ 

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس امین الدین نے کہا کہ جس پر وکیل منیر اے ملک نے چھبیسویں ا ئینی ترمیم جسٹس جمال مندوخیل نے بنچ کے پاس جوڈیشل ا جسٹس محمد علی مظہر جسٹس عائشہ ملک نے جوڈیشل اختیارات ا ئینی بنچ کے دائرہ اختیار کہ ا ئینی بنچ جوڈیشل ا رڈر نے کہا کہ ا سپریم کورٹ کر سکتا ہے کیا کہ کیا ویں ترمیم ترمیم کے ترمیم کی چیف جسٹس کورٹ کا کہ کوئی فل کورٹ ہیں کہ بنچ کی

پڑھیں:

سپریم کورٹ، 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر)سپریم کورٹ آف پاکستان نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت دے دی۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف 36 درخواستوں پر سماعت کی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔آئینی بنچ میں جسٹس جمال مندو خیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے ، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی بنچ کا حصہ تھے ، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بنچ میں شامل تھے ۔دوران سماعت سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کیخلاف چھتیس درخواستوں پرسماعت براہ راست دکھانے کی درخواستیں منظور کرلیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم ہر چیز کا غلط استعمال کرتے ہیں، ہم لائیو اسٹریمنگ سے ایکسپوز ہوگئے ، اس کا غلط استعمال نہ کیا جائے ۔وکیل خیبرپختونخوا حکومت نے فل کورٹ یا آئینی فل بنچ کی تشکیل کی استدعا کرتے ہوئے بینچ پراعتراض نہ ہونے کا مؤقف اپنایا۔مصطفیٰ نواز کھوکھر کے وکیل شاہد جمیل نے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق درخواست پراعتراضات دورکرنے کی استدعا کی۔بینچ نے مشاورت کے بعد درخواست پرنمبرلگانے کی ہدایت کردی، جواد ایس خواجہ کے وکیل نے لائیو اسٹریمنگ کی درخواست کی استدعا کی۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ اگربینچ پراعتراض لگتا ہے تودوسرا بینچ ان کو سنے گا، پھرلائیوسٹریمنگ کی درخواست سنیں گے ۔وکیل نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم رات کے اندھیرے میں منظورکی گئی تھی، جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیئے کہ آپ چاہتے ہیں دن کی روشنی میں سماعت کے علاوہ لائیو اسٹریم بھی ہونی چاہیے ۔جسٹس عائشہ ملک نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے لائیو اسٹریمنگ سے متعلق موقف پوچھا توعامررحمان نے کہا کہ لائیو اسٹریمنگ انتظامی سطح پرہوتا ہے ۔جسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ یعنی بینچ جوفیصلہ کرلے ،اس پرراضی ہیں۔آئینی بینچ نے لائیو اسٹریمنگ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا جسے بعد میں سناتے ہوئے عدالت نے لائیو اسٹریمنگ کی درخواستیں منظور کرلیں، سماعت دوبارہ آج ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی 26ویں آئینی ترمیم کو تسلیم کرلیا ہے:جسٹس جمال مندو خیل
  • سپریم کورٹ ججز نے چاہتے نہ چاہتے چھبیسویں آئینی ترمیم کو تسلیم کرلیاہے. جسٹس جمال مندوخیل
  • چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی 26ویں آئینی ترمیم کو تسلیم کرلیا ہے، جسٹس جمال مندو خیل
  • سپریم کورٹ ججز نے چاہتے نہ چاہتے چھبیسویں آئینی ترمیم کو تسلیم کرلیاہے، جسٹس جمال مندوخیل
  • میرے خیال میں ان ججز کو بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہئے جن کی تقرری 26ویں ترمیم کے بعد ہوئی،جسٹس مسرت ہلالی کے 26ویں ترمیم کیخلاف درخواستوں پر ریمارکس
  • 26ویں آئینی ترمیم کیس؛فرق نہیں پڑتا موجودہ بنچ ریگولر ہے یا آئینی  کیس سننے کا فیصلہ موجودہ بنچ کر  سکتا ہے،وکیل منیر اے ملک کے دلائل
  • 26ویں آئینی ترمیم کیس ؛کیا آپ خوش نہیں ہوں گے ماضی کا فیصلہ برقرار رہے اور اب چھوٹا بنچ ہی سماعت کرے؟جسٹس جمال مندوخیل کا استفسار
  • 26ویں آئینی ترمیم ٹھیک تھی یا غلط فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی،آپ ترمیم کو آئین کا حصہ سمجھتے ہیں تب ہی چیلنج کیا ہے،جسٹس مسرت ہلالی کا حامد خان سے مکالمہ
  • سپریم کورٹ، 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر سماعت براہ راست نشر کرنے کی اجازت