وفاقی کابینہ نے ایک اہم پالیسی فیصلے کے تحت پاکستانی خواتین کے لیے بیرون ملک گھریلو ملازمت کے مواقع بڑھانے کی غرض سے کم از کم عمر کی حد 35 سال سے کم کر کے 25 سال کر دی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے 60 فیصد ڈاکٹرز بیرونِ ملک جا رہے ہیں، سینیٹ کمیٹی میں انکشاف

حکام کے مطابق اس فیصلے کا مقصد پاکستان کو بین الاقوامی لیبر مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہے جہاں دیگر ممالک میں کم از کم عمر کی حد عمومی طور پر 23 سے 25 سال کے درمیان ہوتی ہے۔

حکومت کو توقع ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف خواتین کو روزگار کے مزید مواقع ملیں گے بلکہ ترسیلات زر میں سالانہ ایک ارب ڈالر تک کا اضافہ بھی ممکن ہو سکے گا۔

جواں عمری کا سفر، خدشات

اس فیصلے کے حوالے سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کم عمر خواتین اگر ملازمت کے لیے بیرون ممالک جاتی ہیں تو ہراسانی، انسانی اسمگلنگ اور جنسی استحصال کے خدشات بڑھ جائیں گے۔

تاہم انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 18 سال کی عمر کے بعد ہر جینڈر کو اپنے فیصلے خود کرنے کا قانونی حق حاصل ہے۔ انہوں نے کچھ منفی پہلووں پر نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ خواتین کو ہر عمر میں استحصال، ہراسانی اور انسانی اسمگلنگ جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور اس کا عمر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

وہ کتہے ہیں کہ نہ صرف حکومت بلکہ پرائیویٹ سیکٹرز کو بھی ایسے ادارے بنانے چاہیے جہاں ملازمت کے لیے جانے والے افراد کی تربیت کی جائے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی شمائلہ ناز اس وقت آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ وہ 15 سال قبل کھانا پکانے کی ملازمت کے حصول کے لیے بیرون ملک گئی تھیں۔

مزید پڑھیے: قلم کی جنگ: پاکستانی صحافیوں پر سائبر قوانین کا شکنجہ

شمائلہ کی تعلیم میٹرک تھی اور انہیں کھانا بنانے کا ہمیشہ سے شوق تھا۔ ابتدا میں وہ ایک گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے مختلف کھانوں کی تراکیب سیکھیں، کورسز کیے اور آج وہ سڈنی کے ایک ہوٹل میں شیف کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ بیرون ملک جا کر انہیں نہ صرف عزت کے ساتھ روزگار ملا بلکہ وہ اپنے خاندان کے لیے مالی طور پر ایک مضبوط سہارا بن گئیں۔

ان کے مطابق اگر انہیں یہ موقع نہ ملتا تو شاید وہ اپنے خوابوں کو پورا نہ کر پاتیں۔

وائس چیئرمین اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ گلف ممالک میں گھریلو ملازمین کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے جہاں سری لنکا اور فلپائن کی خواتین بڑی تعداد میں کام کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے مقابلے میں پاکستان سے خواتین گھریلو ملازمین کی شرح کم ہے کیونکہ اس حوالے سے آگاہی اور تربیتی پروگرامز مؤثر انداز میں نہیں چلائے گئے۔

عدنان پراچہ نے کہا کہ حکومت نے خواتین گھریلو ملازمین کی عمر کی حد 35 سے کم کر کے 24 سال کر دی ہے جو خوش آئند اقدم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس پالیسی سے رجحان میں اضافہ متوقع ہے تاہم اس پر مکمل عملدرآمد ابھی باقی ہے۔

بیرون ملک پیش آنے والے مسائل

انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو کام کے اصول، رہائش، ثقافت اور قوانین سے متعلق تربیت دی جائے تاکہ وہ بہتر انداز میں بیرون ملک کام کر سکیں۔ ساتھ ہی حکومت کو بیرونی کمپنیوں کو باؤنڈ کرنا ہوگا کہ وہ خواتین کو مکمل سہولیات اور تحفظ فراہم کریں۔

مزید پڑھیں: اوورسیز پاکستانی اور ڈیجیٹل پاکستان کا خواب

وہ کہتے ہیں اکثر مسائل رہائش اور اوقاتِ کار سے متعلق ہوتے ہیں جن کے حل کے لیے پاکستانی سفارتخانوں کو فوری کردار ادا کرنا چاہیے۔ ورنہ یہی وجوہات ہماری ورک فورس کی واپسی اور شکایات میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

عدنان پراچہ کے مطابق تمام اداروں کو مل کر جامع حکمتِ عملی اپنانی ہوگی تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین بیرون ملک باعزت روزگار حاصل کر سکیں۔ خاص طور پر عمان کا لیبر سیکٹر ایسا علاقہ ہے جہاں پاکستانی خواتین کی شمولیت بڑھانے کی ضرورت ہے۔

انسانی حقوق کی معروف علمبردار فرزانہ باری نے خواتین گھریلو ملازمین کی بیرونِ ملک ملازمت کے لیے عمر کی حد میں کمی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے پاکستانی خواتین کے لیے نہ صرف روزگار کے دروازے کھلیں گے بلکہ وہ مالی طور پر خودمختار بھی بن سکیں گی۔

فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ نوجوان خواتین جب گھریلو کاموں کے لیے بیرون ملک جاتی ہیں تو وہاں نہ صرف نئی مہارتیں سیکھتی ہیں بلکہ بہتر آمدن حاصل کر کے اپنے خاندان کی کفالت بھی بہتر انداز میں کر سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بعض خواتین کھانا پکانے کے کام سے شروعات کرتی ہیں مگر وہاں مختلف کھانوں کی تربیت حاصل کر کے آگے چل کر اپنا ذاتی کاروبار جیسے ریسٹورنٹ یا بیوٹی پارلر کھولنے کی صلاحیت بھی پیدا کر لیتی ہیں۔

ان کے مطابق 25 سال کی عمر میں خواتین زیادہ ایکٹیو ہوتی ہیں بلکہ یہ عمر 18 سال ہی ہونی چاہیے تھی اور اگر وہ اس عمر میں بیرون ملک کام کا تجربہ حاصل کرتی ہیں تو 35 سال کی عمر تک وہ ایک مستحکم اور بااعتماد زندگی کی بنیاد رکھ چکی ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: بجٹ 26-2025 کے بعد، اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل ہو جائیں گے ؟

انہوں نے مزید کہا کہ 18 سال کی عمر میں لڑکا ہو یا لڑکی عمومی طور پر وہ اتنے سمجھ دار ہو جاتے ہیں کہ اپنی زندگی کے اہم فیصلے خود کر سکیں اسی لیے شادی کے لیے بھی قانونی عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے اور ان کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔

فرزانہ باری کے مطابق 25 سال کی عمر ایک پختہ اور سمجھ داری کی عمر ہوتی ہے جہاں ایک عورت اپنے حقوق و فرائض سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہے اور یہ جان سکتی ہے کہ کب اور کہاں اس کے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں حکومت کا فیصلہ نہ صرف درست ہے بلکہ وقت کی ضرورت بھی ہے کیونکہ اس سے نوجوان خواتین کو بہتر مواقع میسر آئیں گے اور وہ بااعتماد طریقے سے اپنی زندگی کو سنوارنے کے قابل ہو سکیں گی۔

تاہم فرزانہ باری نے اس پالیسی سے وابستہ ممکنہ خطرات کی جانب بھی توجہ دلائی اور کہا کہ کم عمر خواتین کو مناسب تربیت اور قانونی آگاہی کے بغیر بیرون ملک بھیجنا ان کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہراسانی، استحصال اور انسانی اسمگلنگ جیسے مسائل ان خواتین کو لاحق ہو سکتے ہیں خاص طور پر جب وہ اپنے حقوق یا مدد کے ذرائع سے واقف نہ ہوں۔

فرزانہ باری نے حکومت پر زور دیا کہ خواتین کو بیرون ملک بھیجنے سے قبل جامع تربیت دی جائے جن میں ان کے قانونی حقوق، کام کے اوقات اور میزبان ملک کے قوانین سے متعلق مکمل آگاہی شامل ہو۔

مزید پڑھیے: بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام نے پاکستان کی غریب خواتین کو شناخت دی، سینیٹر روبینہ خالد

ان کا کہنا تھا کہ ساتھ ہی انہیں سفارتخانوں کے ہنگامی نمبرز بھی فراہم کیے جائیں تاکہ کسی بھی مشکل کی صورت میں فوری مدد حاصل کی جا سکے۔ ان اقدامات کے بغیر عمر کی حد میں نرمی کا فائدہ مکمل طور پر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

فوائد و نقصانات

اس حوالے سے طاہرہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ اس کے فوائد تو حکومت نے خود بیان کر دیے کہ زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا اب جہاں تک نقصانات یا خدشات یعنی عورتیں ہراسانی اور اسانی اسمگلنگ کا شکار ہو سکتی ہیں اس سے وہ اتفاق نہیں کرتیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے آئین کی شق نمبر 25 میں مردوں، عورتوں اور خواجہ سرا کی برابری اور مساوات کی ضمانت دی گئی ہے تو پھر اس طرح کی پابندیاں (کم یا زیادہ عمر) کی ضرورت ہی نہیں پڑنی چاہیے کیونکہ یہ کون فیصلہ کرے گا کہ 25 سال کی عمر میں عورتوں کو ہراساں کیا جائے گا اور 35 سال میں نہیں کیا جائے گا؟

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق مرد اور عورت 18 سال کی عمر میں بلوغت حاصل کر لیتے ہیں اور پاسپورٹ، شناختی کارڈ، لائسنس یہ سب 18 سال کی عمر میں ہو جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس لیے میری نظر میں جو بھی مرد، عورت یا ٹرانسجینڈر بالغ ہے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا حق دار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک عورتوں کی اسمگلنگ کی بات ہے تو وہ تو 5 سال سے لے کر 100 سال کی عورتوں کی اسمگلنگ ہو رہی ہے اور جتنی بھی قانون سازی کر لی جائے عورتوں کی اسمگلنگ نہیں رکتی تو یہ 35 اور 25 بالکل غلط باتیں ہیں اور حکومت کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہیں پڑنا چاہیے کیوں کہ اس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

خواتین اور خاندان والوں کو بہت محتاط ہونے کی ضرورت

طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ خواتین اور ان کے خاندان والوں کو بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے اور بہت پوچھ گچھ اور ریسرچ کرنی چاہیے اور بہت احتیاط سے چلنا چاہیے، خاص طور پر جب بیرون ممالک ملازمت کی پیشکش کی جائے۔

ایک مزید سوال پر طاہرہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں جو کم انکم گھریلو خواتین کا استحصال ہوتا ہے، ان کے لیے ٹریننگ اسکولز ہونے چاہییں جو کہ پوری دنیا میں ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حتیٰ کہ جنوبی ایشیا، فلپائن، انڈونیشیا وغیرہ میں موجود ہیں اور جہاں جہاں سے کم آمدن پیشوں کے لیے خواتین یا مرد بیرون ممالک ملازمت کے لیے جاتے ہیں ان کی ٹریننگ ہونی چاہیے اور صرف حکومت نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر کو بھی اس پر کام کرنا چاہیے۔

فزانہ باری کا کہنا تھا کہ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اب پاکستانی خواتین گھریلو ملازمین کی نوکریوں میں اضافہ ہوگا اور نوجوان خواتین ملک سے باہر گھریلو ملازمت کے لیے جائیں گی جہاں ان کے لیے مزید ملازمت کے مواقع بھی کھلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ بہت سی خواتین اگر کسی کے گھر ’کک‘ کی نوکری کے لیے جاتی ہیں تو وہاں وہ بہت سے نئے کھانے بنانا سیکھ جاتی ہیں اور آمدن بھی اچھی ملتی ہے جس سے وہ اپنے گھر والوں کی اچھی کفالت بھی کرتی رہتی ہیں اور ملک کو بھی زرمبادلہ کے ذریعے فائدہ پہنچتا رہتا ہے۔

فرزانہ باری کہتی ہیں کہ جب یہ خواتین بیرون ممالک کا تجربہ حاصل کر لیتی ہیں تو اس سے نہ صرف ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے بلکہ یہ خودمختاری کی جانب بھی بڑھتی ہیں، اپنا کاروبار شروع کر لیتی ہیں، کوئی پارلر بنا سکتی ہے، کوئی ریسٹورنٹ کھول سکتی ہے تو یہ بہت سی خواتین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں 35 سال کی عورت بڑھاپے کی جانب بڑھ رہی ہوتی ہے اور اس عمر میں کام کرنا بھی مشکل ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اب اگر 25 سال میں کوئی خاتون بیرون ملک جاتی ہیں تو 35 سے 40 تک وہ اپنی زندگی بنا چکی ہوتی ہے۔

ایک اور سوال پر فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ عمر میں کمی سے کچھ منفی خدشات بھی جنم لے سکتے ہیں جیسا کہ ہراسانی اور انسانی اسمگلنگ جیسے خدشات، خاص طور پر جب ان کے لیے مناسب تربیت اور قانونی تحفظات کا فقدان ہو۔

مزید پڑھیے: اسکوٹی سے لیکر ایئر ایمبولینس کی فراہمی، وزیراعلیٰ مریم نواز نے پہلے خطاب میں کیا کیا وعدے کیے؟

ماہرین کا مطالبہ ہے کہ عمر کی حد میں نرمی کے ساتھ ساتھ حکومت کو خواتین کی حفاظت، تربیت اور قانونی معاونت کو یقینی بنانے کے لیے بھی عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔

حکومت کو چاہیے ان کو بھیجنے سے قبل ان کی ٹریننگز کی جائیں۔ ان کو وہاں کی ایمبیسیز کے نمبرز دیے جائیں تاکہ اگر انہیں کوئی مشکل در پیش آئے تو ان سے رابطہ کر سکیں۔ ان کو انسانی حقوق کے حوالے سے بتایا جائے۔ انہیں یہ بتایا جائے کہ اس ملک میں کام کرنے کے کتنے قانونی گھنٹے ہیں اور وہاں گھریلو ملازمین کے حوالے سے کیا قوانین ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اوورسیز ایمپلائمنٹ بیرون ملک پاکستانی خواتین ورکرز خواتین کی نوکری کی عمر کی حد.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اوورسیز ایمپلائمنٹ بیرون ملک پاکستانی خواتین ورکرز خواتین کی نوکری کی عمر کی حد پاکستانی خواتین کے لیے بیرون ملک انہوں نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ سال کی عمر میں کا کہنا تھا کہ ملازمت کے لیے بیرون ملک جا بیرون ممالک جاتی ہیں تو خواتین کو ان خواتین کہ خواتین کہا کہ اس عمر کی حد ان کے لیے حوالے سے کی ضرورت کے مطابق حکومت کو وہ اپنے ہیں اور کر سکیں ہوتی ہے ہے جہاں اور ان کام کر ہے اور ہیں کہ کو بھی

پڑھیں:

جامعہ کراچی،گھٹتے طلبہ اور…

ایک خبر تو یہ ہے کہ ملک کے سب سے کثیر آبادی والے شہرکراچی میں جہاں سب سے زیادہ پڑھنے کا رحجان ہے، وہاں کی سب سے بڑی سرکاری جامعہ میں طلبہ کی تعداد کم سے کم ہوتی جا رہی ہے جس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ راقم کا خیال ہے کہ وزیر جامعات سندھ محمد اسماعیل راہو اپنی ذمے داریوں کو خوب سمجھتے ہیں اور باخبر رہنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور پھر مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات بھی کرتے ہیں، لٰہذا اس ضمن میں ان کی توجہ جامعہ میں طلبہ کی گھٹتی تعداد کی طرف بھی مبذول کروانا چاہوں گا۔

جامعات خاص کر جامعہ کراچی میں ہر سال داخلوں میں کمی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے اور یہ بات خاص توجہ طلب ہے کہ کراچی شہر لگ بھگ تین کروڑ تک کی آبادی والا شہر بن چکا ہے اور یہ وہ واحد شہر ہے کہ جہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا رحجان سب سے زیادہ رہا ہے، ایسے میں جامعہ کراچی جو سب سے بڑی سرکاری جامعہ ہے، یہاں طلبہ کی تعداد کا کم ہونا، معمولی بات نہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ان وجوہات کا کھوج لگایا جائے جن کے سبب اس سرکاری جامعہ میں طلبہ کی تعداد کم ہو رہی ہے۔

بظاہر تو دو اہم وجوہات نظر آتی ہیں جن میں سے ایک جامعہ کراچی میں بڑھتی فیسیں ہیں،چونکہ مہنگائی اس وقت اپنے عروج پر ہے، لٰہذا ایک عام خیال یہی ہے کہ شہرکے طلبہ اب ان بھاری فیسوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے، اب ایک سوال یہ ہے کہ جامعہ کراچی آخر فیسوں میں اضافہ کیوں کرتے چلی جا رہی ہے؟ اس کا جواب بھی بظاہر یہی ہے کہ اگر فیسوں میں اضافہ نہ کرے تو پھر اپنے اخراجات کہاں سے پورا کرے، کیونکہ تعلیمی بجٹ تو بہت ہی کم ملتا ہے۔

ایک اور اہم ترین بات یہ ہے کہ وقت پر تنخواہیں وغیرہ نہ ملنے سے اب اساتذہ میں بھی مایوسی پھیلنا شروع ہوگئی ہے اور ویزیٹنگ اساتذہ کی ایک اچھی تعداد اب نجی جامعات کی طرف منتقل ہو رہی ہے جب کہ ریگولر اساتذہ بھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ جیسے ہی موقع ملے، اس جامعہ کو خیر باد کہہ دیا جائے کیونکہ انھیں بھی بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔

مثلاً ان کی مختلف قسم کی مراعات میں توکمی واقع ہو رہی ہے مگر ان کی ترقی کے راستے بھی تقریباً بند ہوتے چلے جا رہے ہیں، بیشتر اساتذہ ترقی کے انتظار میں ہی ریٹائر ہوگئے مگر ان کے سلیکشن بورڈ نہ ہوسکے، حالانکہ وہ میرٹ پر تھے مگر پروسیجر بہت سست تھا، یعنی برسوں میں بھی مکمل نہ ہو سکا۔ اسی طرح اساتذہ کی ایک بہت بڑی تعداد سلیکشن بورڈ میں ترقی نہ پا سکی (حالانکہ ترقی ان کا جائز حق تھا کیونکہ بیرون ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے تین تین ماہرین نے ان کے سی وی (جس کو ’ڈوزئیر‘کہا جاتا ہے) چھ، سات مہینے چیک کرنے کے بعد سلیکشن بورڈ میں شرکت کرنے اور پروموشن کرنے کی سفارش کی تھی) محض اس لیے کہ دس منٹ کے انٹرویو میں، انٹرویو لینے والوں نے انھیں ترقی پانے والوں کی لسٹ میں شامل کرنے کے قابل نہ سمجھا۔ ساٹھ سے زیادہ کی تعداد میں یہ اساتذہ آج بھی ریفر بیک کمیٹی کے رحم وکرم پر ہیں کہ وہ اس سلسلے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ بہرکیف سندھ کی سب سے بڑی جامعہ کراچی اس دہانے پر پہنچ چکی ہے کہ فوری طور پر اس کے تمام مسائل پر توجہ دی جائے۔

 اور دوسری خبر اس جامعہ سے متعلق یہ ہے کہ یہاں کتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ ایک خبرکے مطابق تقریباً آٹھ سے دس سال کی دو بچیوں کو ان کتوں نے کیمپس میں ایک گھرکے لان میں گھس کر بری طرح کاٹ کر زخمی کردیا، اس سے قبل بھی بہت سے واقعات رونما ہوچکے ہیں جس میں کئی طلبہ کتوں سے بچنے کے لیے بھاگے اور گرکر زخمی ہوگئے، یعنی یہ کتے پوری جامعہ میں گھومتے رہتے ہیں، کبھی رہائشی علاقوں میں توکبھی مختلف شعبہ جات میں۔ طلبہ میں ان کتوں سے سخت خوف ہراس پھیلا ہوا ہے۔

ان واقعات کے بعد مختلف واٹس ایپ گروپ اور سوشل میڈیا پر یہ موضوع چھایا نظر آیا اور ہمارے طلبہ کلاس روم میں بھی اسی موضوع پر بات کرتے نظر آئے۔ ایک طالب علم کہہ رہا تھا کہ ’’ کتے بھی جان رکھتے ہیں، جانوروں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، لٰہذا انھیں ہلاک کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔‘‘ ایک دوسرا طالب علم کہہ رہا تھا کہ ’’ مذہب میں بھی جانوروں کو اذیت دینا منع ہے۔ بچے کو تو ایک کتے نے کاٹا اور ہم سارے کتوں کو مارنے کی باتیں کر رہے ہیں۔‘‘ کسی نے کہا کہ ’’ ان کو مخصوص ویکسین لگا دو تاکہ کتے کے کاٹنے کے نقصانات سے بچا جا سکے۔‘‘

ایک اور طالب علم نے کہا کہ ’’کتوں سے ہمدردی رکھنے والوں کو شعبہ نفسیات کے حوالے کیا جائے، ہم خوف کی فضا میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘بطور استاد ہم نے طلبہ کو میڈیا کمپیئن چلانے کے لیے اسائنمنٹ دیا تھا چنانچہ ایک روز جب ہم کلاس میں پہنچے تو ایک طالبہ نے کہا کہ ’’ سر! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے اسائنمنٹ کی میڈیا کمپیئن جامعہ کراچی کے کتوں پر چلائیں گے۔

 اس سے قبل کہ میں کچھ کہتا، ایک دوسرے طالبعلم نے کہا، لیکن یہ سوال یہ ہے کہ کتوں تک یہ پیغام کس ذریعے سے جائے گا؟ واٹس ایپ سے، اخبار سے یا لاؤڈ اسپیکر سے اعلانات کیے جائیں گے یا پھر شٹل اور پوائنٹس میں بیٹھے طلبہ کھڑکیوں سے سر نکال کر آوازیں لگاتے جائیں گے۔

 ایک اور طالب علم نے کہا،’’ کتے پڑھے لکھے نہیں ہوتے، لہٰذا کمپیئن پرنٹ میڈیا پر نہیں چل سکتی۔‘‘

کلاس میں سارے طالب علم اس گفتگو پر ہنس رہے تھے،ایک طالبہ نے کہ ’’ سر یہ طلبہ تو پارلیمنٹ میں بیٹھے حزب اختلاف کی طرح شور مچائے جا رہے ہیں، میری بات پوری نہیں ہونے دے رہے ہیں۔

میرا مطلب ہے کہ ہم میڈیا کمپیئن کیمپس میں رہنے والوں اور انتظامیہ کی آگاہی کے لیے چلائیں گے  جس میں ہم بتائیں گے کہ جامعہ کراچی ایک تعلیمی ادارہ ہے جہاں لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں پڑھتی ہے، جب یہاں مختلف شعبہ جات میں درجنوں کتے جگہ جگہ گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں تو اس سے طلبہ خصوصاً لڑکیوں میں شدید خوف و ہراس پھیلتا ہے، انھیں ایک سے دوسرے شعبہ جات میں جانا ہو،کینٹین جانا ہو یا لائبریری، سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لٰہذا جس طرح انسانی آبادی کو نقصانات سے بچانے کے لیے مہم چلائی جاتی ہے ویسے ہی جامعہ کراچی میں کتوں کی بڑھتی تعداد کو فوری طور پر کنٹرول کیا جائے اور مہم چلائی جائے۔اس بات پر ایک طالب علم پھر بولا، ’’ سر! بات بالکل درست ہے جب ہم انسانوں کے لیے مہم چل سکتے ہیں تو پھرکتوں کے لیے کیوں نہیں! خود میرے محلے میں کتوں کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے اور آئے دن یہ بچوں کو کاٹتے ر ہتے ہیں۔‘‘

میں نے کلاس کے طلبہ سے کہا کہ ’’ میں آپ طلبہ کی اس دلچسپ گفتگو سے بہت لطف اندوز ہوچکا ہوں، اب آپ کتوں کے اس موضوع کو چھوڑ دیں، کیونکہ اعلیٰ سطح پر ان واقعات کا نوٹس لے کر ضروری ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔‘‘

ایک اچھی خبر یہ آئی کہ جامعہ کراچی میں کتوں کے کاٹنے کے ان واقعات پر وزیر جامعات سندھ محمد اسماعیل راہو نے نوٹس لیا اورگلشن ٹاؤن کی انتظامیہ کو ہدایات جاری کی کہ فوری طور پرکتا مار مہم شروع کی جائے۔

متعلقہ مضامین

  • سب سے زیادہ پاکستانی کس بیرون ملک میں موجود ہیں؟ حیران کن انکشافات
  • بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی زیادہ تعداد کون سے ممالک میں ہے؟
  • جامعہ کراچی،گھٹتے طلبہ اور…
  • محنت کشوں کے حقوق کا ضامن مزدور قانون
  • تعلیم یا سرمایہ کی بیرون ملک منتقلی؟ کیمبرج بورڈ کے امتحانات اور پاکستان کی قومی کمزوری
  • بیرون ملک جانے والے محنت کشوں کے لیے سافٹ اسکلز ٹریننگ، کیا حکومت کی پالیسی ناکام ہو رہی ہے؟
  • مینار پاکستان پر منعقدہ جماعت اسلامی کے اجتماع عام میں بیرون ملک سے آنے والی خواتین مرکزی اسٹیج پر بیٹھی ہیں
  • ادکارہ فضا علی اور بیٹی کی تصاویر پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا
  • لاہور:اجتماع گاہ میں خواتین کی بڑی تعداد نماز ادا کررہی ہیں
  • نیانظام؛سرکاری ملازمت کے امیدواروں کو تعلیمی قابلیت کے اضافی نمبر ملیں گے