امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بالآخر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے معاہدے کو ممکن بنا دیا لیکن اس کامیابی کے پیچھے کئی ہفتوں کی سفارتی کوششوں سمیت عرب اور مسلمان اتحادی ممالک کی مدد ایک بڑا عنصر ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق دو امریکی اعلیٰ عہدیداروں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وحشیانہ جنگ میں اس وقت اہم موڑ آیا جب شکست خوردہ حماس کو احساس ہوا کہ یرغمالی اثاثے سے زیادہ بوجھ بن چکے ہیں۔
ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ نمائندہ خصوصی سٹیو وٹکوف اور صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کی قیادت میں ہونے والے مذاکرات میں شامل اہلکاروں کے خیال میں اس وقت امید پیدا ہوئی جب انہیں لگا کہ حماس کے لیے یہ جنگ مزید جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔
اس کے باوجود معاہدے تک پہنچنا ایک پیچیدہ مرحلہ تھا اور امریکی انتظامیہ کو بھی مشکل صورتحال کا سامنا تھا جس کی ایک بڑی وجہ اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان بڑھتا ہوا عدم اعتماد ہے۔
امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی میں کئی عرصے سے جاری مذاکرات ستمبر کے آغاز میں تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔
امریکی نمائندہ خصوصی وٹکوف حماس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مذاکراتی عمل سے علیحدہ ہو چکے تھے۔ حماس نے اس کے بعد ایک مجوزہ معاہدہ قبول کیا جس کے متعلق ثالثوں کا کہنا تھا یہ اسرائیلی تجاویز سے مماثلت رکھتا تھا لیکن اس پر امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔
حماس اپنے مؤقف پر قائم رہا کہ وہ پائیدار جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی فوجوں کے مکمل انخلا اور سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں ہی یرغمالیوں کو رہا کرے گا۔
تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے یہ کہتے ہوئے ان شرائط کو مسترد کر دیا کہ حماس کے ہتھیار ڈالنے اور یرغمالیوں کی واپسی کے بعد ہی جنگ ختم ہو گی۔
  لیکن 9 ستمبر کو ایک اور واقعہ پیش آیا اور قطر کا دارالحکومت دوحہ دھماکوں سے گونج اٹھا۔ اسرائیل نے اس وقت دوحہ پر فضائی حملہ کیا جب حماس کے رہنما اور ثالث جنگ بندی معاہدے پر بات چیت کے لیے دوحہ میں اکھٹے تھے۔
اس حملے میں حماس کے پانچ ارکان اور قطری سکیورٹی فورسز کے اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اس واقعے سے نہ صرف خلیجی ممالک کے سربراہ برہم ہوئے بلکہ وائٹ ہاؤس نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ نے صورتحال پر قابو پانے کی کوشش میں قطر کو یقین دہانی کروائی۔
اسرائیلی فضائی حملے سے خطے بھر میں امریکہ کے اتحادیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی بالخصوص مصر اور ترکیہ میں جہاں حماس کے سربراہ رہتے رہے ہیں۔
امریکی عہدیداروں کے مطابق حملے کے باوجود قطری حکومت سٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر کے ساتھ رابطے میں رہی اور ٹرمپ کے سینیئر مذاکرات کاروں کو امن منصوبے کی تشکیل میں مدد فراہم کی جو بعد میں صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کی شکل میں سامنے آیا۔
دوحہ حملے کے دو ہفتے بعد صدر ٹرمپ نے اقوم متحدہ کے اجلاس کے موقع پر 8 عرب اور مسلمان ممالک کے سربراہوں سے ملاقات کی جس کو ٹرمپ نے ’سب سے زیادہ اہم ملاقات‘ قرار دیا۔
صدر ٹرمپ واشنگٹن واپس آ گئے لیکن سٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر نے سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو کے ہمراہ عرب اور مسلمان رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا تاکہ زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کر سکیں۔
اس کے ایک ہفتے بعد ہی سٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر حتمی پلان کے ساتھ واشنگٹن واپس آئے جب صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات متوقع تھی۔
اس دوران سٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر نے صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا کہ وہ فضائی حملے کے ردعمل میں قطری حکومت کو مفاہمت کی پیشکش کریں۔
صدر ٹرمپ نے قطر کے وزیراعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی سے ٹیلی فون پر بات کی اور ساتھ ہی فون نیتن یاہو کو دے دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے تحریری معافی نامہ پڑھا اور قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی پر افسوس کا اظہار کیا۔
  29 ستمبر کو ہونے والی ملاقات کے بعد واشنگٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب میں نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ انہیں صدر ٹرمپ کا منصوبہ منظور ہے۔
مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ اس اعلان کے بعد صدر ٹرمپ کے ثالثوں نے اپنی کوششوں میں تیزی لاتے ہوئے قطر اور مصر کے ذریعے حماس کو بھی اس تمام عمل میں شامل کیا جبکہ دوسری جانب صدر ٹرمپ نے عالمی رہنماؤں سے رابطے کیے۔
حماس نے مذاکرات کے دوران فلسطینی قیدیوں کے بدلے تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے اور دیگر فلسطینی دھڑوں کے لیے اقتدار چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی۔ لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ ٹرمپ کے منصوبے کے دیگر نکات پر مزید بات چیت کی ضرورت ہے جبکہ خود کو غیرمسلح کرنے سے متعلق نکتے پر کوئی ردعمل نہیں دیا جو دراصل اسرائیل کا ایک اہم مطالبہ ہے۔
جب حماس نے جمعے کی رات کو اپنے جواب سے آگاہ کیا تو اس وقت اسرائیل میں سبت کے مذہبی دن کے باعث چھٹی تھی لہٰذا صدر ٹرمپ نے پہل کرتے ہوئے بیان جاری کیا۔
جمعے کی رات گئے صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ حماس امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے لیے تیار ہے تاہم انہوں نے یہ نہیں کہا کہ حماس نے چند اہم شرائط قبول نہیں کیں۔
اس بیان کے بعد صدر ٹرمپ نے فوکس نیوز کی میزبان سے بات کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا معاہدے سے اسرائیل کی عالمی سطح پر ساکھ بہتر ہو گی۔
انہوں نے کہا ’میں نے کچھ دیر پہلے ببی (نیتن یاہو) سے بات کی ہے۔ میں نے ان سے کہا ببی اسرائیل دنیا سے نہیں لڑ سکتا۔ وہ دنیا سے نہیں لڑ سکتے اور وہ اس بات کو سمجھتے ہیں۔‘

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

حماس وفد غزہ جنگ کے ثالثوں سے ملاقات کیلئے قاہرہ پہنچ گیا

قاہرہ (ویب ڈیسک) مصری سیکیورٹی نے بتایا ہے کہ حماس کا وفد آج غزہ جنگ کے ثالثوں سے ملاقات کے لیے قاہرہ میں موجود ہے۔

ادھر حماس کے عہدے دار کا کہنا ہے کہ حماس کا وفد اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی پر بات کرے گا۔

قاہرہ سے غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق اسرائیل اور حماس نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جنوبی ایشیائی ممالک کی امریکا اور بھارت کے ممکنہ تجارتی معاہدے پر گہری نظر
  • غزہ: اسرائیل نے مزید24 فلسطینی شہید کر دیے‘ حماس کی امریکا سے مداخلت کی اپیل،حملے امن معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہیں‘ پاکستان
  • غزہ امن منصوبہ: کیا فلسطین کی آزاد ریاست وجود میں آ پائے گی؟
  • غزہ جنگ بندی مذاکرات: حماس کا وفد مصر پہنچ گیا
  • غزہ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر بات چیت کے لیے حماس کا اعلیٰ سطح وفد قاہرہ پہنچ گیا
  • حماس کا وفد غزہ جنگ بندی پر مذاکرات کیلئے مصر پہنچ گیا
  • حماس وفد غزہ جنگ کے ثالثوں سے ملاقات کیلئے قاہرہ پہنچ گیا
  • اسرائیل کی سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی ،24فلسطینی شہید، پاکستان کی شدید مذمت
  • غزہ میں اسرائیلی فوج کے مسلسل حملے جاری، حماس نے ثالثوں سے فوری مداخلت کی اپیل کردی
  • اسرائیلی بمباری سے غزہ میں 20 فلسطینی شہید