ٹرمپ امن منصوبے پر حماس کا جواب
اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT
گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے لیے ایک نام نہاد امن منصوبہ جسے ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ کہا جا رہا ہے پیش کیا تھا۔ اس منصوبے سے متعلق پاکستان نے سب سے پہلے حمایت کا اعلان کیا لیکن یہ حمایت اس وقت بھاری پڑگئی جب ملک بھر میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
بہرحال بعد ازاں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس موضوع سے متعلق وضاحت پیش کی اور کہا کہ وزیر اعظم سفر میں تھے اور مکمل نہیں پڑھ سکے اور حمایت کا اعلان کر دیا۔ اسی طرح وزیر خارجہ نے یہ بھی بیان دیا کہ ہم آٹھ ممالک نے ٹرمپ کے ساتھ جس معاہدے پر بات کی تھی، یہ وہ معاہدہ نہیں ہے، یعنی یہ معاہدہ مشکوک قرار دیا گیا۔
دوسری جانب فلسطین کی حامی جماعتوں اور قوتوں کا ایک ہی موقف ہے کہ فلسطینیوں کی مرضی کے بغیر کسی کو بھی فلسطین کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ انھی حالات میں مورخہ 3 اکتوبر کو رات گئے حماس کی جانب سے موقف سامنے آیا جس میں حماس نے ٹرمپ کے منصوبے پر اپنے رد عمل کا اعلان کیا تھا۔
اس اعلان کے بعد مغربی ذرایع ابلاغ سمیت مقامی ذرایع ابلاغ نے یہ کہنا شروع کردیا کہ حماس نے ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کردی ہے، حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔
ٹرمپ پلان کو حماس نے کن شرائط پر قبول کیا؟ حماس نے ٹرمپ کی تجویز کو اپنے حق میں کیسے موڑ دیا؟ ان سوالات کو میڈیا نے فراموش کرتے ہوئے ایسی خبریں نشر کیں جس سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ حماس نے امریکی صدر کے منصوبے کے ساتھ حامی بھر لی ہے۔
حقیقت میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کے جواب میں حماس کا تازہ ترین بیان بیانیہ کی جنگ میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے، یعنی حماس نے ٹرمپ کے منصوبے کو تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ اس کو از سر نو تشکیل کیا ہے اور بال دوبارہ سے امریکی صدر کے کورٹ میں پہنچا دی ہے۔
حماس نے اپنے بنیادی اصولوں کی حفاظت کرتے ہوئے بین الاقوامی ثالثوں کے سامنے تعمیری نظر آتے ہوئے سفارتی طور پر چال چلنے میں کامیابی حاصل کی ہے، یعنی ایک طرف تو حماس نے ٹرمپ کی تجویز کو مسترد نہیں کیا اور دوسری طرف اس کے بجائے، اس نے اسے اپنی شرائط پر اسی پلان کو از سر نو دوبارہ ترتیب دیا ہے۔
حماس نے صیہونی قیدیوں کے تبادلے کو قبول کرنے کی تیاری کا اعلان کیا ہے، لیکن صرف ٹرمپ کے بیان کردہ فارمولے کے مطابق نہیں بلکہ فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے ساتھ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ قبولیت دشمنی کے مکمل خاتمے اور غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے مکمل انخلاء سے منسلک ہے۔
یعنی اس معاہدے میں حماس کی اہم ترین شرط غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلاء سے مشروط ہے، جہاں تک گہرے سیاسی مسائل کا تعلق ہے، جیسے کہ غزہ یا فلسطینی ریاست کا مستقبل، حماس نے انھیں ایک وسیع تر فلسطینی قومی اتفاق رائے کے لیے موخر کیا، نہ کہ واشنگٹن یا تل ابیب کے حکم پر۔
اس سے حماس اپنی سرخ لکیروں کی حفاظت کرتے ہوئے تعاون پر مبنی نظر آئی، نہ کہ رکاوٹ ڈالنے والی۔ یعنی دشمن کا سارا پراپیگنڈا حماس نے زائل کر دیا ہے کہ حماس اپنے اقتدار کی خاطر جنگ کر رہی ہے بلکہ حماس نے ثابت کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے مستقبل کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
حماس کی جانب سے معاہدے کو از سر نو تشکیل دینے میں ایک اور اہم کام جو انجام پایا ہے وہ ٹرمپ اور نیتن یاہوکی جانب سے جاری طویل مدتی مہم کا خاتمہ ہے یعنی مہینوں سے نیتن یاہو اور ٹرمپ نے یرغمالیوں کو اپنے ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کیا اور اسرائیل کی فوجی مہم کو انسانی بنیادوں پر ضروری قرار دیا۔
حماس نے اس بیانیے کو الٹا کردیا ہے۔ فلسطینی قیدیوں کے بدلے زندہ اور مردہ تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے پر آمادگی کا اعلان کرتے ہوئے، حماس نے اسرائیل سے جنگ کو طول دینے کا بنیادی جواز چھین لیا، اگر اب بھی لڑائی جاری رہتی ہے تو اس کی ذمے داری اسرائیل اور امریکا پر عائد ہوتی ہے، حماس پر نہیں۔
حماس نے غزہ کی انتظامیہ کو آزاد فلسطینیوں کی ایک ٹیکنو کریٹک باڈی کو منتقل کرنے پر رضامندی سے اپنی سیاسی شبیہہ کو بھی مضبوط کیا، بشرطیکہ اسے قومی اتفاق رائے اور عرب اسلامی حمایت حاصل ہو۔
یہ اقدام ان الزامات کا مقابلہ کرتا ہے کہ حماس غزہ میں اقتدار سے چمٹی ہوئی ہے۔ اس کے بجائے، یہ تحریک کو اپنے سیاسی کنٹرول پر فلسطینی عوام کی بقا اور اتحاد کو ترجیح دینے کے طور پر پیش کرتا ہے۔
ٹرمپ کا نام نہاد امن پلان در اصل ٹرمپ کو دنیا کے سامنے ایک امن پسند شخصیت کے طور پر پیش کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن اب صورتحال اس کے بر عکس ہو چکی ہے، یعنی حماس نے فلسطینیوں کی خواہش کو مد نظر رکھا اور اعلان کیا کہ کوئی بھی امن منصوبہ فلسطین کے عوام کے لیے انصاف فراہم کرنے پر مبنی ہونا چاہیے۔
یعنی جارحیت کا مکمل خاتمہ، نقل مکانی کو روکنا اور غزہ پر دوبارہ قبضہ نہ ہونے کی ضمانت۔ اگر ٹرمپ اور نیتن یاہو اب معاہدے کو مسترد کرتے ہیں، تو وہ خود کو امن کو روکنے والوں کے طور پر بے نقاب ہو جائیں گے۔
شاید حماس کے ردعمل کا سب سے اہم حصہ اس بات پر اصرار ہے کہ غزہ کے طویل مدتی مستقبل اور وسیع تر فلسطینی کاز کو امریکا یا اسرائیل کی طرف سے حکم نہیں دیا جائے گا۔ حماس نے زور دیا کہ ان سوالات کو بین الاقوامی قانون اور اجتماعی مرضی کی بنیاد پر قومی فلسطینی فریم ورک کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔
ایسا کرنے سے حماس نے ٹرمپ کے وژن میں آنے سے گریز کیا اور اس اصول کی توثیق کی کہ فلسطینی تنہا ان کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔
حماس نے درحقیقت ٹرمپ کے معاہدے سے انکار کر دیا ہے، پھر بھی اس نے سفارتی اور اسٹرٹیجک طریقے سے ایسا کیا۔ تحریک نے اس تجویز کے انسانی اور فوری جہتوں (جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے، حکمرانی کے انتظامات) کو قبول کر لیا جب کہ اس کے سیاسی جال کو مسترد کردیا۔
یہ تدبیر اسرائیل کے یرغمالی کے بیانیے کو بے اثر کرتی ہے اور امریکا اور اسرائیل پر بوجھ ڈالتی ہے کہ یا تو اس کی تعمیل کریں یا امن کی راہ میں اصل رکاوٹوں کے طور پر سامنے آئیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ حماس نے ٹرمپ کے امن پلان پر عمل درآمد کو غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلاء کے ساتھ مشروط کردیا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی تو ہو گئی ہے اور اسرائیلی فوج کا جزوی انخلا شروع ہو گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اتوار شام چھ بجے تک اسرائیل غزہ سے اپنی فوج کے مکمل انخلا کرتا ہے یا نہیں؟ اگر یہ ہو گیا تو واقعی ایک بریک تھرو ہوگا۔ یہ یقینی طور پر حماس اور فلسطینی عوام کی کامیابی قرار پائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حماس نے ٹرمپ کے امریکی صدر ہے کہ حماس کہ حماس نے قیدیوں کے کرتے ہوئے کے منصوبے اعلان کیا کے طور پر کا اعلان کے ساتھ کے مکمل کرتا ہے اور اس دیا ہے کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ اور ثالث یقینی بنائیں کہ اسرائیل دوبارہ فوجی کارروائیاں شروع نہ کرے، حماس کا مطالبہ
ٹرمپ اور ثالث یقینی بنائیں کہ اسرائیل دوبارہ فوجی کارروائیاں شروع نہ کرے، حماس کا مطالبہ WhatsAppFacebookTwitter 0 13 October, 2025 سب نیوز
غزہ (سب نیوز)حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور غزہ جنگ بندی معاہدے کے ثالثوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسرائیل علاقے میں اپنی فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع نہ کرے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حماس کے ترجمان حازم قاسم نے بتایا کہ ہم امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں، جس میں انہوں نے واضح طور پر اس بات کی تصدیق کی کہ اسرائیل کی غزہ پٹی پر جنگ ختم ہو چکی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم تمام ثالثوں اور بین الاقوامی فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے رویے کی نگرانی جاری رکھیں اور یہ یقینی بنائیں کہ وہ ہمارے عوام کے خلاف اپنی جارحیت دوبارہ شروع نہ کرے۔
دوسری طرف اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی ایک ایسا موقع فراہم کرتی ہے، جسے غزہ کی پٹی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان تنازع ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔انہوں نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ میں تمام فریقوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور جنگ بندی کے تحت اپنے وعدوں کو پورا کریں تاکہ غزہ میں جاری خوفناک صورتحال کا خاتمہ کیا جا سکے۔
انتونیو گوتریس نے کہا کہ میں غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا پرجوش خیر مقدم کرتا ہوں، مجھے انتہائی راحت محسوس ہو رہی ہے کہ وہ شدید تکلیف سہنے کے بعد اپنی آزادی دوبارہ حاصل کر چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں تمام فریقوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور جنگ بندی کے تحت اپنے وعدوں کو پورا کریں تاکہ غزہ میں جاری اس بھیانک صورتحال کا خاتمہ کیا جا سکے۔سیکریٹری جنرل نے کہا کہ اقوامِ متحدہ غزہ میں تنازع کے خاتمے اور شہریوں کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے تمام کوششوں کی حمایت کر رہی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرصدر آصف زرداری سے ترکیہ اور آذربائیجان کے پارلیمانی سپیکرز کی ملاقات صدر آصف زرداری سے ترکیہ اور آذربائیجان کے پارلیمانی سپیکرز کی ملاقات پاک فوج نے برطانوی کیمبرین پیٹرول2025 میں گولڈ میڈل جیت لیا افغانستان کے حملے میں وطن کا دفاع کرتے شہید ہونیوالے 12جوانوں کی نماز جنازہ ادا،فیلڈ مارشل، وفاقی وزراکی شرکت خیبرپختونخوا کے وزیراعلی دو گھریلو خواتین کی لڑائی کی وجہ سے وزارت سے گئے، عظمی بخاری ن لیگ اور جے یو آئی نے کے پی اسمبلی میں نئے وزیراعلی کے انتخابی عمل کوغیرآئینی قراردیدیا پرائیویٹ حج سکیم کے تحت 4 دن باقی، 44 ہزارعازمین کی بکنگ مکملCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم