Juraat:
2025-11-28@19:46:27 GMT

بدمعاشی کلچر اور پولیس کلچر

اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT

بدمعاشی کلچر اور پولیس کلچر

میری بات/روہیل اکبر

کیا پولیس کے رویے اور آشیر باد سادہ لوح اور شریف شہریوں کو بدمعاش ،قاتل اور ڈاکو بناتی ہے ؟ اس کے لیے لاہور کی مثال سامنے رکھتے ہیں لاہور، وہ شہر جو کبھی محبتوں، تہذیب، علم و ادب اور رواداری کا مرکز سمجھا جاتا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ جرائم اور بدمعاشی کی ایک ایسی داستانوں کا گڑھ بن گیا جہاں طاقت، دولت اور اثر و رسوخ نے قانون کو اکثر پاؤں تلے روند ڈالا۔ انھی داستانوں میں ایک تازہ باب طیفی بٹ کے مبینہ پولیس مقابلے کی صورت میں بند ہوا ہے ایک ایسا واقعہ جس نے شہر کی پرانی یادوں کو تازہ کر دیا جب ”لاہوری بدمعاش” اپنی الگ پہچان رکھتے تھے۔طیفی بٹ، جس کا نام کئی سال سے لاہور کے مختلف علاقوں میں خوف اور اثرورسوخ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ پولیس کے مطابق ایک مبینہ مقابلے میں مارا گیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی پولیس مقابلہ تھا یا پھر کسی طاقتور مافیا سے جڑے حساب کتاب کا اختتام؟ لاہور کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ”بدمعاشی” ہمیشہ کسی نہ کسی سیاسی یا سماجی طاقت کے سائے میں پنپتی رہی انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ”شیرا بدمعاش”، ”چن بدمعاش” اور بعد ازاں ”پیرا بدمعاش” اور پھر ارشد امین چوہدری ،عاطف چوہدری جیسے نام شہر کے عام مکینوں کے لیے دہشت کا استعارہ تھے مگر یہ وہ زمانہ تھا جب بدمعاش بھی کسی ”اصول” کے تحت اپنی سرحدیں جانتے تھے ان کے پیچھے اکثر کوئی نہ کوئی سیاسی یا پولیس سرپرستی موجود ہوتی مگر شہر کی عام آبادی کو نسبتاً تحفظ میسر رہتاوقت گزرتا گیا اور لاہور کا ”بدمعاش کلچر” سیاسی و مالی مفادات کے تابع ہوتا چلا گیا۔ نوے کی دہائی میں یہ کلچر مافیاز کی شکل اختیار کر گیا۔ رئیل اسٹیٹ، منشیات، قبضہ گروپ اور لینڈ مافیا کے ساتھ جڑے عناصر نے ”بدمعاشی” کو ایک نفع بخش صنعت بنا دیا۔ طیفی بٹ اسی دور کی پیداوار تھا جس نے دولت، دبدبے اور تعلقات کے بل بوتے پر ایک ”لوکل پاور” کے طور پر خود کو منوایالیکن جب کسی کا دائرہ اختیار ریاستی حدوں سے تجاوز کرنے لگتا ہے تو انجام ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ طیفی بٹ کا انجام بھی اسی ”روایتی لاہوری انجام” سے مختلف نہ ہواپولیس کے مطابق یہ ایک کامیاب کارروائی تھی مگر شہر کے کئی حلقوں میں چہ مگوئیاں ہیں کہ یہ صرف ”اسٹیبلشمنٹ کے توازن” کا حصہ تھا لاہور میں اس سے قبل بھی کئی نامور کردار اسی طرح ”مبینہ مقابلوں” میں مارے گئے مگر ان کی جگہ لینے والے کردار کبھی ختم نہیں ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا لاہور کے بدمعاش ختم ہو گئے؟ نہیں وہ صرف شکل بدل چکے ہیں۔ آج کے بدمعاش سفید پوش ہیںکسی ہاؤسنگ سوسائٹی، کسی کنٹریکٹر نیٹ ورک یا کسی سیاسی دفتر کے پردے کے پیچھے۔طیفی بٹ کا مرنا ایک کہانی کا اختتام ضرور ہے مگر لاہور کی بدمعاشی کی تاریخ کا یہ باب ابھی بند نہیں ہوا۔ریاست اگر واقعی اس کلچر کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے صرف بندوق نہیں بلکہ انصاف، روزگار اور برابری کے مواقع سے بھی میدان میں اترنا ہوگا ۔ورنہ ہر طیفی بٹ کے بعد ایک نیا نام پیدا ہو جائے گاجو ”پاور” کے اس کھیل کا اگلا مہرہ بنے گا۔ یہ صرف ایک کردار کا اختتام ہواہے لیکن کہانی تو ابھی باقی ہے۔ کیونکہ آج کے ”بدمعاش” وردی یا گن کے ساتھ نہیں آتے۔ وہ فائلوں، نوٹیفکیشنز، ٹھیکوں اور سیاست کے پردے میں چھپے بیٹھے ہیں۔ ریاست اگر واقعی امن چاہتی ہے تو اسے صرف گولی نہیں ،انصاف دینا ہوگا ورنہ کل کسی اور گلی سے ایک نیا ”طیفی بٹ” جنم لے گا اور لاہور کی کہانی پھر وہیں سے شروع ہوجائیگی ،جہاں ختم ہوئی تھی۔
اب کچھ قصہ پولیس کا وہ بھی لاہور پولیس کا جو صوبائی دارالحکومت میں ہے انکا رویہ اگر اتنا خوفناک ہے تو باقی صوبے کا کیا حال ہوگا۔ آئی جی صاحب جتنے میٹھے اور ہنس مکھ ہیں اسی طرح سی سی پی او بھی خوش مزاج ہیں اسی طرح فیصل کامران بھی نفیس ہے لیکن آپ کے نیچے تھانوں میں لگنے والے ایس ایچ او بالکل مختلف ہیں ۔تھانہ ہیر کے سب انسپکٹر ایس ایچ اوعزیر کے رویہ کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ جو آپ لوگوں کی نیک نامی کو بدنامی میں بدلنے پر تلا ہوا ہے۔ ایسا رویہ جو نہ صرف اخلاقیات سے عاری ہوکر پورے نظام پر سوالیہ نشان بن گیا ہے پولیس وہ ادارہ ہے جس سے عوام انصاف، تحفظ اور عزت کی توقع رکھتے ہیں مگر جب اسی ادارے کے دروازے پر عوام کی عزت پامال ہو تو بھلا کون اس دہلیز پر قدم رکھنے کی ہمت کرے گا؟تھانوں میں اخلاق، برداشت اور شائستگی کی جگہ اب رعب، بدتمیزی اور طاقت کا مظاہرہ نظر آتا ہے تھانہ ہیر میں تعینات موجودہ ایس ایچ او کا طرزِ عمل بھی کچھ ایسا ہی ہے ،کہا جاتا ہے کہ پولیس کا چہرہ اس کے تھانے کا ایس ایچ او ہوتا ہے۔ اگر وہی چہرہ درشت، مغرور اور عوام دشمن ہو جائے تو پورا محکمہ بدنام ہو جاتا ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے افسران کی موجودگی میں وہ ایماندار اور دیانتدار پولیس اہلکار بھی بدنامی کا شکار ہو جاتے ہیں جو اپنی ڈیوٹی کو عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں کیونکہ ایک بدتمیز افسر پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر دیتا ہے اور عوام کے دلوں سے پولیس پر اعتماد کا آخری چراغ بھی بجھا دیتا ہے ۔کیا یہ وہ پولیس ہے جس کا خواب قائداعظم اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا؟کیا یہ وہ ادارہ ہے جس سے عوام اپنے بچوں کے تحفظ کی امید رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر سوال صرف ہے کہ ایسے افسران کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟محکمہ پولیس کے اعلیٰ حکام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام دشمن رویہ رکھنے والا ایس ایچ او صرف ایک تھانہ نہیں پورے محکمہ کی بدنامی کا باعث بنتا ہے وقت آ گیا ہے کہ لاہور میں بدمعاش کلچر کے خاتمہ کی طرح تھانوں کا کلچر بھی بدل دیا جائے جہاں خوف نہیں احترام واپس لایا جائے کیونکہ عوام پولیس سے نہیں اس کے رویے سے ڈرتی ہے اگر پولیس واقعی ”عوام کی محافظ” ہے تو اسے اپنے چہرے پر لگے اس اخلاقی دھبے کو خود صاف کرنا ہوگا ورنہ یہ دھبہ آنے والی نسلوں کے اعتماد کو مٹا دے گا۔
٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ایس ایچ او پولیس کے لاہور کی طیفی بٹ

پڑھیں:

لاہور، 5 ماڈل سڑکوں پر چنگچی رکشوں پر مکمل پابندی عائد

 

لاہور: ( نیوزڈیسک) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے سفر محفوظ اور آسان بنانے کے لیے پنجاب میں ٹریفک مینجمنٹ میں 60 سال بعد پہلی بار 20 بڑے اصلاحی اقدامات کا اعلان کر دیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب کی زیرصدارت ٹریفک کے جدید نظام کی منصوبہ بندی، روڈ سیفٹی اور نظم و نسق پر تفصیلی اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب میں کسی بھی گاڑی کا بار بار چالان ہوگا تو گاڑی نیلام ہوگی ، سرکاری گاڑی قانون سے بالاتر نہیں، قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی سرکاری گاڑیوں کو بھاری جرمانہ ہوگا۔

وزیراعلیٰ نے پنجاب میں ون وے کی خلاف ورزی ختم کرنے کے لیے 30 دن کی مہلت دے دی، یوٹرن کی ری ماڈلنگ سے سڑکیں محفوظ اور منظم بنانے کی ہدایت کی، حادثات میں جاں بحق افراد کے اہل خانہ کو دیت فوری طور پر فراہم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

فیصلہ کیا گیا کہ مناسب پارکنگ نہیں ہوگی تو میرج ہال بھی نہیں ہوگا،میرج ہال کو پارکنگ کا انتظام کرنا ہوگا، پنجاب میں کم عمر بچوں کی ڈرائیونگ ختم کرنے کے لیے سخت فیصلہ کن کریک ڈوان ہوگا، انڈر ایج ڈرائیونگ کی صورت میں گاڑی مالک کو 6ماہ تک قید بھی ہوسکتی ہے

وزیراعلیٰ نے پنجاب بھر میں بس کی چھت پر سواریاں ختم،کریک ڈاؤن کا حکم دے دیا اور لاہور کی پانچ ماڈل سڑکوں پر چنگ چی رکشوں پر مکمل پابندی عائد کر دی، لاہور میں ٹریفک کی صورتحال میں بہتری کے لیے 30 دن کی فیصلہ کن ڈیڈ لائن مقرر کر دی۔

اجلاس میں ہیلمٹ، چھتوں پر سواریاں بیٹھانے اوردیگرخلاف ورزیوں پرچالان کی رپورٹ پیش کی گئی۔

مریم نواز شریف نے کہا کہ دوسرے شہر جانے والی گاڑی کو تیز رفتاری سے جلد پہنچنے پر کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا، لاہورسمیت تمام شہروں میں ٹریفک کے معاملات کو بہتر کرنا پڑے گا،کوئی امتیاز نہ رکھاجائے، خلاف ورزی پر ہر شخص کو جرمانہ دینا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ ٹریفک پولیس کو آخری چانس دے رہی ہوں،اگلا موقع نہیں ملے گا، نہ کرسکے تو نیا ڈیپارٹمنٹ بنانا پڑے گا، ہر چیز ٹھیک کردی مگر ٹریفک کا برا حاصل ہے، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اورمسلسل بے ہنگم ٹریفک ریاستی رٹ کمزور ہونے کے مترادف ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بی جے پی کی کھلی بدمعاشی؛ بیوی بیٹی کیساتھ ویڈیو بنانے پر مسلم یوٹیوبر گرفتار
  • لاہور، 5 ماڈل سڑکوں پر چنگچی رکشوں پر مکمل پابندی عائد
  • لاہور: گھر والوں کی غیر موجودگی میں چوری کرنے والا گروہ گرفتار
  • ناصر باغ میں درختوں کی کٹائی, لاہور ہائیکورٹ نےرپورٹ طلب کر لی۔
  • لاہور کی پانچ ماڈل سڑکوں پر چنگ چی رکشوں پر مکمل پابندی عائد
  • لاہور ہائیکورٹ نے ناصر باغ میں درختوں کی کٹائی پر رپورٹ طلب کر لی
  • لاہور: غیرت کے نام پر بہن کے بال مونڈھنے والا بھائی، بھابھی اور 2 رشتے دار گرفتار
  • لاہور: ٹریکٹر ٹرالی کی ٹکر سے پولیس اہلکار شہید، ایک شدید زخمی
  • لاہور، ٹریکٹر ٹرالی کی ٹکر سے پولیس اہلکار شہید، ایک زخمی
  • لاہور، پولیس اہلکار اسلحے کے زور پر ڈکیتی کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار