Juraat:
2025-10-14@02:41:56 GMT

بدمعاشی کلچر اور پولیس کلچر

اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT

بدمعاشی کلچر اور پولیس کلچر

میری بات/روہیل اکبر

کیا پولیس کے رویے اور آشیر باد سادہ لوح اور شریف شہریوں کو بدمعاش ،قاتل اور ڈاکو بناتی ہے ؟ اس کے لیے لاہور کی مثال سامنے رکھتے ہیں لاہور، وہ شہر جو کبھی محبتوں، تہذیب، علم و ادب اور رواداری کا مرکز سمجھا جاتا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ جرائم اور بدمعاشی کی ایک ایسی داستانوں کا گڑھ بن گیا جہاں طاقت، دولت اور اثر و رسوخ نے قانون کو اکثر پاؤں تلے روند ڈالا۔ انھی داستانوں میں ایک تازہ باب طیفی بٹ کے مبینہ پولیس مقابلے کی صورت میں بند ہوا ہے ایک ایسا واقعہ جس نے شہر کی پرانی یادوں کو تازہ کر دیا جب ”لاہوری بدمعاش” اپنی الگ پہچان رکھتے تھے۔طیفی بٹ، جس کا نام کئی سال سے لاہور کے مختلف علاقوں میں خوف اور اثرورسوخ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ پولیس کے مطابق ایک مبینہ مقابلے میں مارا گیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی پولیس مقابلہ تھا یا پھر کسی طاقتور مافیا سے جڑے حساب کتاب کا اختتام؟ لاہور کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں ”بدمعاشی” ہمیشہ کسی نہ کسی سیاسی یا سماجی طاقت کے سائے میں پنپتی رہی انیس سو پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ”شیرا بدمعاش”، ”چن بدمعاش” اور بعد ازاں ”پیرا بدمعاش” اور پھر ارشد امین چوہدری ،عاطف چوہدری جیسے نام شہر کے عام مکینوں کے لیے دہشت کا استعارہ تھے مگر یہ وہ زمانہ تھا جب بدمعاش بھی کسی ”اصول” کے تحت اپنی سرحدیں جانتے تھے ان کے پیچھے اکثر کوئی نہ کوئی سیاسی یا پولیس سرپرستی موجود ہوتی مگر شہر کی عام آبادی کو نسبتاً تحفظ میسر رہتاوقت گزرتا گیا اور لاہور کا ”بدمعاش کلچر” سیاسی و مالی مفادات کے تابع ہوتا چلا گیا۔ نوے کی دہائی میں یہ کلچر مافیاز کی شکل اختیار کر گیا۔ رئیل اسٹیٹ، منشیات، قبضہ گروپ اور لینڈ مافیا کے ساتھ جڑے عناصر نے ”بدمعاشی” کو ایک نفع بخش صنعت بنا دیا۔ طیفی بٹ اسی دور کی پیداوار تھا جس نے دولت، دبدبے اور تعلقات کے بل بوتے پر ایک ”لوکل پاور” کے طور پر خود کو منوایالیکن جب کسی کا دائرہ اختیار ریاستی حدوں سے تجاوز کرنے لگتا ہے تو انجام ہمیشہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ طیفی بٹ کا انجام بھی اسی ”روایتی لاہوری انجام” سے مختلف نہ ہواپولیس کے مطابق یہ ایک کامیاب کارروائی تھی مگر شہر کے کئی حلقوں میں چہ مگوئیاں ہیں کہ یہ صرف ”اسٹیبلشمنٹ کے توازن” کا حصہ تھا لاہور میں اس سے قبل بھی کئی نامور کردار اسی طرح ”مبینہ مقابلوں” میں مارے گئے مگر ان کی جگہ لینے والے کردار کبھی ختم نہیں ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا لاہور کے بدمعاش ختم ہو گئے؟ نہیں وہ صرف شکل بدل چکے ہیں۔ آج کے بدمعاش سفید پوش ہیںکسی ہاؤسنگ سوسائٹی، کسی کنٹریکٹر نیٹ ورک یا کسی سیاسی دفتر کے پردے کے پیچھے۔طیفی بٹ کا مرنا ایک کہانی کا اختتام ضرور ہے مگر لاہور کی بدمعاشی کی تاریخ کا یہ باب ابھی بند نہیں ہوا۔ریاست اگر واقعی اس کلچر کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے صرف بندوق نہیں بلکہ انصاف، روزگار اور برابری کے مواقع سے بھی میدان میں اترنا ہوگا ۔ورنہ ہر طیفی بٹ کے بعد ایک نیا نام پیدا ہو جائے گاجو ”پاور” کے اس کھیل کا اگلا مہرہ بنے گا۔ یہ صرف ایک کردار کا اختتام ہواہے لیکن کہانی تو ابھی باقی ہے۔ کیونکہ آج کے ”بدمعاش” وردی یا گن کے ساتھ نہیں آتے۔ وہ فائلوں، نوٹیفکیشنز، ٹھیکوں اور سیاست کے پردے میں چھپے بیٹھے ہیں۔ ریاست اگر واقعی امن چاہتی ہے تو اسے صرف گولی نہیں ،انصاف دینا ہوگا ورنہ کل کسی اور گلی سے ایک نیا ”طیفی بٹ” جنم لے گا اور لاہور کی کہانی پھر وہیں سے شروع ہوجائیگی ،جہاں ختم ہوئی تھی۔
اب کچھ قصہ پولیس کا وہ بھی لاہور پولیس کا جو صوبائی دارالحکومت میں ہے انکا رویہ اگر اتنا خوفناک ہے تو باقی صوبے کا کیا حال ہوگا۔ آئی جی صاحب جتنے میٹھے اور ہنس مکھ ہیں اسی طرح سی سی پی او بھی خوش مزاج ہیں اسی طرح فیصل کامران بھی نفیس ہے لیکن آپ کے نیچے تھانوں میں لگنے والے ایس ایچ او بالکل مختلف ہیں ۔تھانہ ہیر کے سب انسپکٹر ایس ایچ اوعزیر کے رویہ کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ جو آپ لوگوں کی نیک نامی کو بدنامی میں بدلنے پر تلا ہوا ہے۔ ایسا رویہ جو نہ صرف اخلاقیات سے عاری ہوکر پورے نظام پر سوالیہ نشان بن گیا ہے پولیس وہ ادارہ ہے جس سے عوام انصاف، تحفظ اور عزت کی توقع رکھتے ہیں مگر جب اسی ادارے کے دروازے پر عوام کی عزت پامال ہو تو بھلا کون اس دہلیز پر قدم رکھنے کی ہمت کرے گا؟تھانوں میں اخلاق، برداشت اور شائستگی کی جگہ اب رعب، بدتمیزی اور طاقت کا مظاہرہ نظر آتا ہے تھانہ ہیر میں تعینات موجودہ ایس ایچ او کا طرزِ عمل بھی کچھ ایسا ہی ہے ،کہا جاتا ہے کہ پولیس کا چہرہ اس کے تھانے کا ایس ایچ او ہوتا ہے۔ اگر وہی چہرہ درشت، مغرور اور عوام دشمن ہو جائے تو پورا محکمہ بدنام ہو جاتا ہے، افسوس اس بات کا ہے کہ ایسے افسران کی موجودگی میں وہ ایماندار اور دیانتدار پولیس اہلکار بھی بدنامی کا شکار ہو جاتے ہیں جو اپنی ڈیوٹی کو عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں کیونکہ ایک بدتمیز افسر پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر دیتا ہے اور عوام کے دلوں سے پولیس پر اعتماد کا آخری چراغ بھی بجھا دیتا ہے ۔کیا یہ وہ پولیس ہے جس کا خواب قائداعظم اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا؟کیا یہ وہ ادارہ ہے جس سے عوام اپنے بچوں کے تحفظ کی امید رکھتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر سوال صرف ہے کہ ایسے افسران کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟محکمہ پولیس کے اعلیٰ حکام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام دشمن رویہ رکھنے والا ایس ایچ او صرف ایک تھانہ نہیں پورے محکمہ کی بدنامی کا باعث بنتا ہے وقت آ گیا ہے کہ لاہور میں بدمعاش کلچر کے خاتمہ کی طرح تھانوں کا کلچر بھی بدل دیا جائے جہاں خوف نہیں احترام واپس لایا جائے کیونکہ عوام پولیس سے نہیں اس کے رویے سے ڈرتی ہے اگر پولیس واقعی ”عوام کی محافظ” ہے تو اسے اپنے چہرے پر لگے اس اخلاقی دھبے کو خود صاف کرنا ہوگا ورنہ یہ دھبہ آنے والی نسلوں کے اعتماد کو مٹا دے گا۔
٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ایس ایچ او پولیس کے لاہور کی طیفی بٹ

پڑھیں:

امیر بالاج قتل کیس میں ایک پیشرفت، طیفی بٹ کی ہلاکت کے بعد گوگی بٹ کی عبوری ضمانت خارج 

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن )سیشن کورٹ لاہور میں  امیر بالاج قتل کیس کی سماعت کے دوران بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے جب کہ عدالت نے عقیل عرف گوگی بٹ کی عبوری ضمانت خارج کردی۔

تفصیلات کے مطابق عدالت نے عدم پیروی کی بنیاد پر عبوری ضمانت خارج کی، تھانہ چوہنگ پولیس نے مقدمہ درج کررکھا ہے۔عدالت نے عقیل عرف گوگی بٹ کی آج تک عبوری ضمانت منظور کررکھی تھی جب کہ  عقیل عرف گوگی بٹ عدالت کے روبرو پیش نہ ہوا۔

یاد رہے کہ 2 روز قبل سی سی ڈی رحیم یار خان کے مبینہ پولیس مقابلے میں خواجہ تعریف گلشن عرف طیفی بٹ ہلاک ہوگیا تھا۔ذرائع نے کہا تھا کہ طیفی بٹ کو لاہور منتقل کیا جا رہا تھا، تھانہ کوٹ سبزل صادق آباد کے علاقے میں طیفی بٹ کو اس کے ساتھی پولیس سے چھڑا کر فرار ہوئے۔پولیس کے مطابق طیفی بٹ کو ساتھیوں سے چھڑوانے کی کوشش کی گئی، اس دوران طیفی بٹ اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا۔

نئے وزیراعلیٰ پختونخوا کا انتخاب آج ہوگا، 4 امیدوار میدان میں

مزید :

متعلقہ مضامین

  • 9مئی واقعات، فلک جاوید کا14روزہ جسمانی ریمانڈ
  • مریدکے: پولیس نے ٹی ایل پی لانگ مارچ کے خلاف آپریشن مکمل کر لیا؟
  • لاہور، ایوان عدل کے باہر وکلا کا ٹی ایل پی ورکرز پر تشدد کیخلاف احتجاج
  • امیر بالاج قتل کیس میں ایک پیشرفت، طیفی بٹ کی ہلاکت کے بعد گوگی بٹ کی عبوری ضمانت خارج 
  • ٹی ایل پی کارکنوں کا مریدکے و سادھوکے میں دھرنا، مرکزی شاہراہیں کھل گئیں
  • موٹروے ایم 2 اور ایم 3 کو ہر قسم کی ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا
  • ٹی ایل پی احتجاج کے نام پر انتشار چاہتی ہے، ڈی آئی جی آپریشنز لاہور
  • لاہور انڈر ورلڈ کا ڈان طیفی بٹ کون تھا؟
  • لاہور: پی ٹی آئی کی کارکن فلک جاوید 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل