Islam Times:
2025-10-14@04:06:04 GMT

آپ پوری دنیا سے نہیں لڑ سکتے!

اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT

آپ پوری دنیا سے نہیں لڑ سکتے!

اسلام ٹائمز: وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ؛ "وہ پوری دنیا سے نہیں لڑ سکتے۔" عالمی برادری امریکہ اور صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف متحد ہے اور یہ وہ چیز ہے، جسے ٹرمپ چھپا نہیں سکے۔ آج ٹرمپ خود پوری دنیا کے ساتھ جنگ ​​میں مصروف ہے۔ یورپ، ایشیاء اور لاطینی امریکہ میں وہ سابقہ ​​امریکی حکومتوں کے مقابلے میں جنگ کی زیادہ قیمت ادا کر رہا ہے۔ ٹیرف کی جنگ اپنے آپ میں ایک مکمل جنگ ہے۔ بہرحال امریکہ لالچ اور زیادتی کی وجہ سے پوری دنیا کے ساتھ جنگ ​​کے گڑھے میں گر چکا ہے۔ تحریر: محمد کاظم انبارلوئی

فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیلیوں سے کہا: "آپ پوری دنیا سے نہیں لڑ سکتے۔" ٹرمپ کے سامعین بظاہر مقبوضہ علاقوں میں مقیم دہشت گرد ہیں، لیکن درحقیقت وہ اپنے الفاظ کا مرکزی مخاطب خود ہی ہے۔ ان کے اس اعتراف کے تجزیئے سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت میں امریکہ کا مقام عالمی امن و سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ٹرمپ کے اعتراف سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ فلسطین دنیا کا نمبر ایک مسئلہ ہے۔ حماس نے طوفان الاقصیٰ  کے ساتھ عالمی خبروں میں فلسطین کی مظلومیت کو سرفہرست رکھا، یہی وجہ ہے کہ غاصب اسرائیل کے جنگی جرائم کی رپورٹنگ کرنے والے درجنوں صحافیوں اور نامہ نگاروں کو صیہونیوں نے شہید کیا۔

پینٹاگون وار روم نے نتیجہ اخذ کیا کہ غزہ میں نیٹو اور صیہونی دہشت گرد فوج کو کسی ایسے گوریلا گروپ کا سامنا ہے، جس نے بیت المقدس کی آزادی اور قبضے کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں قربان کی ہوں۔ وہ مغربی ایشیاء میں مزاحمتی محاذ کا بھی سامنا کر رہے ہیں بلکہ پوری دنیا کے خلاف اعلان جنگ کرچکے ہیں اور دنیا ان کی نسل کشی اور جنگی جرائم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ آخرکار، انہوں نے دنیا کے پانچ براعظموں کی گلیوں میں لاکھوں لوگوں کی یہ آوازیں سنی ہیں کہ نسل کشی ختم کرو، جنگی جرائم کا ارتکاب قبضے کے بحران کے مسئلہ  کا حل نہیں۔ ٹرمپ کا جنگ بندی کا منصوبہ دنیا میں صیہونیوں اور امریکیوں کی طرف سے اعلان جنگ کا عملی خاتمہ تھا۔

امریکی اور صیہونیوں نے ایک دہائی قبل چھ عالمی طاقتوں کو ایٹمی سرگرمیوں کے حوالے سے میز پر بٹھانے میں کامیابی حاصل کی تھی، ایران کو عالمی امن کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا تھا اور مسلسل یہ بڑا جھوٹ دہرایا تھا کہ ایران ایٹم بم بنانا چاہتا ہے۔ لیکن یہ سب سے اہم بات جس کا پتہ چلا کہ صرف وہ پوری دنیا نہیں ہیں۔ وہ صرف چھ لوگ ہیں بلکہ چار لوگ ہیں۔ دو عالمی طاقتیں آپس میں ہم آہنگ اور مشترک زبان نہیں رکھتیں۔ امریکہ کی طرف سے جے سی پی او اے کو پھاڑنے کے بعد، یہ پتہ چلا کہ وہ چار لوگ حقیقت میں ایک شخص ہیں۔ امریکہ تین شریر یورپی ممالک کو اپنی غنڈہ گردی میں شراکت دار بنانا چاہتا ہے۔ انہوں نے ایرانی قوم سے ترقی کا ایک دہائی کا موقع چھین لیا۔ معلوم ہوا کہ ایران نے دنیا کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا تھا۔ کیونکہ؛

1۔ دنیا امریکہ اور تین بڑے یورپی ممالک نہیں ہیں۔ 2۔ چین اور روس کے امریکہ کے ساتھ ناقابل حل تضادات اور اختلافات ہیں۔ 3۔ امریکیوں اور صیہونیوں کا مسئلہ ایرانی ہی نہیں ہے۔ انہوں نے ایرانی قوم کی آزادی، غیرت اور وقار کو نشانہ پر لیا ہے اور وہ اپنے سادہ لوح تصور میں ملک کے خاتمے، حکومت کی تبدیلی اور ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں۔ 4۔ ایران کی بہادر قیادت اور قربانی دینے والی قوم منطق کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔ "مزاحمت کی قیمت ہتھیار ڈالنے سے کم ہے۔" اس حکمت عملی کا نتیجہ امریکہ اور صیہونیوں کی ذلت آمیز شکست تھی۔

 طوفان الاقصیٰ کے بعد نیتن یاہو نے تین مقاصد کا اعلان کیا:
1۔ ہم غزہ پر قبضہ کریں گے اور مقبوضہ علاقوں کا اپنے ساتھ  الحاق کر لیں گے۔
2۔ ہم حماس کو تباہ کر دیں گے۔
3۔ ہم اپنے قیدیوں کو رہا کریں گے۔
صہیونیوں نے 2 سال 3 دن، کل 735 دن جنگ میں وہ غزہ پر قبضے میں ناکام رہے۔ اب وہ ذلت کے مارے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ حماس جنگ بندی کی میز پر بیٹھی ہے، پہلے سے زیادہ مضبوط، اچھے جذبے کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ اسرائیلی ایک بھی قیدی کو رہا نہیں کرا سکے۔

یہ شکست صیہونی غاصبوں کی تاریخ میں حیران کن، بے مثال اور ذلت آمیز ہے۔ صیہونی دہشت گردی کی مشین رک گئی ہے۔ موت، جرم اور قتل و غارت کے ہاتھوں نے چلنا چھوڑ دیا ہے۔ اس تاریخی جنگ کی راکھ سے، ایک خستہ حال فوج، زیادہ ہلاکتیں اور خودکشیوں کے خوفناک شرح نیتن یاہو کے نصیب میں آئی ہیں۔ غزہ جنگ کی سیاسی، اقتصادی اور عسکری لاگت کا ابھی حساب لگایا جا رہا ہے اور امریکی محکمہ خزانہ کی طرف سے بھی اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو کی سیاسی زندگی ختم ہوچکی ہے، کیونکہ ایک جنگی مجرم امن کے دور کو نہیں چلا سکتا۔

وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ؛ "وہ پوری دنیا سے نہیں لڑ سکتے۔" عالمی برادری امریکہ اور صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف متحد ہے اور یہ وہ چیز ہے، جسے ٹرمپ چھپا نہیں سکے۔ آج ٹرمپ خود  پوری دنیا کے ساتھ جنگ ​​میں مصروف ہے۔ یورپ، ایشیاء اور لاطینی امریکہ میں وہ سابقہ ​​امریکی حکومتوں کے مقابلے میں جنگ کی زیادہ قیمت ادا کر رہا ہے۔ ٹیرف کی جنگ اپنے آپ میں ایک مکمل جنگ ہے۔ بہرحال امریکہ لالچ اور زیادتی کی وجہ سے پوری دنیا کے ساتھ جنگ ​​کے گڑھے میں گر چکا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پوری دنیا کے ساتھ جنگ اور صیہونی امریکہ اور کے خلاف رہا ہے جنگ کی ہے اور

پڑھیں:

کس سے کہاں غلطی ہو رہی ہے؟

حالیہ دورکے بچے ماضی میں پیدا ہونے والے بچوں سے بے انتہا مختلف اور الگ معلوم ہوتے ہیں۔ اسّی اور نوّے کی دہائی میں مولود ہوئے افراد جو ابھی اپنی جوانی کے دن گزار رہے ہیں یا پھر بڑھاپے کی جانب رواں دواں ہیں جب چھوٹے ہوا کرتے تھے تو بااحساس تھے اور شکرگزاری کا عنصر بھی اُن کی طبیعت میں نمایاں طور پر موجود تھا، اس کے برعکس موجودہ زمانے میں بچوں کے حوالے سے یہ دونوں خصوصیات بالکل ناپید ہوچکی ہیں۔

جب ہم اپنی کم عمری کے دن گزار رہے تھے، تب ہمارے لیے دنیا ایک حسین وادی کی حیثیت رکھتی تھی جب کہ اُن دنوں بچوں کو ایسی آسائشوں سے بھرپور زندگی میسر بھی نہیں تھی، جیسی زمانہ حال میں ہے لیکن پھر بھی ہم اُس تھوڑے میں بہت خوش و نہال تھے۔

ہمارا ہر دن یومِ عید کی مانند تھا اور دن کا ہر پہر خوشگواریت سے بھرپور بس شام کا وقت باقی وقتوں سے تھوڑا زیادہ پُرلطف سمجھا جاتا تھا،کیونکہ دوپہرکی دھوپ ڈھلنے کے بعد ہم اپنے گھروں سے باہر موج مستی کی نیت سے نکل پڑتے تھے یا گھر کی چھت پر چڑھ کر خوب دھماچوکڑی کیا کرتے تھے، اُداسی کس بلا کا نام ہے ہمیں اس کی کوئی خبر نہیں تھی۔

ماڈرن ایج کے بچے دنیا جہان کی نعمتیں و آسائشیں پاکر بھی خوش نظر آتے ہیں نہ مطمئن، سونے پر سہاگا ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال نے اُن کے اندر موجود ہر انسانی جذبے کو معدم کرکے رکھ دیا ہے۔

اپنے گھر کی چار دیواری اُن کی کُل کائنات ہے، کھلی فضا میں سانس لینا، نیچر سے دوستی کرنا اور آؤٹ ڈورکھیلوں کا حصہ بننا اُن کے فلسفہ زندگی میں بلاوجہ کی تھکاوٹ اور خود کو ہلکان کرنے کے ذرایع کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اپنی من چاہی ہر شے تک رسائی رکھتے ہوئے بھی نجانے اضطراب ان کی طبیعت کا بنیادی جُز کیوں بن کر رہ گیا ہے۔

ملینیئلز کہلائے جانے والے اسّی اور نوّے کی دہائی کے بچے مشترکہ خاندانی نظام کا حصہ ہوا کرتے تھے جہاں گھر میں بڑے، بزرگوں کی موجودگی اُن کی طبیعت میں ٹھہراؤ، نفاست اور بردباری کا باعث بنتی تھی۔

اس امر میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جو بچے اپنے دادا، دادی اور نانا، نانی کے زیرِ سایہ پروان چڑھتے ہیں اور دوسری جانب جن بچوں کو یہ نعمت سرے سے حاصل ہی نہیں ہوتی ہے ان دونوں طرح کے بچوں کی شخصیت میں واضح فرق پایا جاتا ہے جسے ہر ذی شعور انسان باآسانی محسوس کر سکتا ہے۔

جنریشن ذی کے نام سے پہچانی جانے والی اس نئی نسل میں کسی انسان کو اُس کی عمر، رشتے اور رتبے کی مناسبت سے عزت و احترام دینے کی تمیز ہمیں شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جب ہم بچے ہوا کرتے تھے تو خود سے عمر میں بڑے افراد سے اختلافِ رائے رکھتے ہوئے بھی اُن سے بحث کرنا یا ایسی کسی حرکت کی جرات کرنا ہمارے لیے ناممکنات میں سے تھا۔

آج کے دور میں تو یہاں بچوں کو اپنے بڑوں کی کوئی بات ناگوار گزری وہاں دوسرے ہی لمحے اُن کی زبان سے پہلے لحاظ چلا جاتا ہے پھر طبیعت میں موجود مروت بھی چھومنتر ہو جاتی ہے۔

اپنی زندگی میں حاصل ہوئی نعمتوں، آسائشوں اور والدین کی جانب سے اولاد کی زیست کو پرسکون بنانے کی غرض سے دی جانے والی قربانیوں کو اپنا حق سمجھنے میں بھی اس نئے دورکے بچوں کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

دنیا میں ترقی کی رفتار ہر پل تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے، آج دنیا میں تعلیم کا معیار ماضی کے مقابلے میں کافی بلند ہے، بچہ بچہ اپنے اندر دنیا بھرکی معلومات سموئے ہوئے ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مجموعی طور پر جدید دنیا کے جدید بچوں میں سینس آف گریٹیٹیوڈ نہ ہونے کے برابر ہے۔

سوشل میڈیا کی پیداوار یہ بچے طبیعت کے اعتبار سے بلکل اینٹی سوشل ہیں، چار لوگوں سے ملنا اور اپنی زبان سے چند الفاظ سے زیادہ کااستعمال انھیں کوفت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ایک کمرہ، اُس کمرے میں موجود کاؤچ یا بستر پر اُن کاسستی سے بھرا وجود اور ہاتھوں میں موبائل یاکوئی دوسرا الیکٹرانک گیجٹ اس کے بعد اُن کی بلاسے پوری دنیا بھاڑ میں جائے اُن کو اس کی قطعی پروا نہیں ہوتی ہے، یہاں تک کہ اپنے گھر میں برپاہونے والے طوفانوں سے بھی وہ بے خبر ہی رہتے ہیں۔

یہ سب دیکھ کر میرا دل بیحد کُڑھتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ آخر کس سے کہاں غلطی ہو رہی ہے جو سوچ کے اعتبار سے زمانہ حال کے بچے اپنے بڑوں سے دور سے دور تر ہوتے جا رہے ہیں۔

ہمیں اس روز بروز بگڑتے ہوئے مسئلے کوسنجیدگی سے لینے کی اشد ضرورت ہے، اگر آج ہم بچوں کو اُن کے اس حال پر چھوڑ کر یہ تسلیم کر لیں گے کہ اُن کے رویوں میں رونما ہونی والی تبدیلی کی وجہ محض بدلتا ہوا وقت ہے اور ہاتھ پرہاتھ دھرکر بیٹھ جائیں تو کل جب ہمیں سدھار کی ساری راہیں مقفل ملیں گی، تب پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے، عباس عراقچی
  • ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، “اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے”، عباس عراقچی
  • پاکستان تیسری عالمی جنگ لڑ رہا ہے
  • یمن کے تمام ہتھیار حماس کے اختیار میں ہیں، انصار الله
  • پوری قوم اپنے محافظوں کے ساتھ فخر سے کھڑی ہے؛سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز
  • رانا ثناء اللہ کی تمام سیاسی جماعتوں کو میثاق پاکستان کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنے کی دعوت
  • کس سے کہاں غلطی ہو رہی ہے؟
  • ٹیکن چیمپئن ارسلان ایش: سب کہتے تھے تم جاپانیوں اور کوریئنز کو نہیں ہرا سکتے
  • کل کی پریس کانفرنس کا جواب نہیں دے سکتے، ہمارے لیے استعمال الفاظ سے نقصانات ہوں گے، سلمان اکرم راجا