گنڈا پور کی وزارتِ اعلیٰ دو گھریلو خواتین کی لڑائی کی نذر ہوگئی: عظمیٰ بخاری
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
لاہور(نیوز رپورٹر) وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمٰی بخاری نے کہا ہے گنڈا پور کی وزارتِ اعلیٰ دو گھریلو خواتین کی لڑائی کی نذر ہوگئی، جبکہ خیبرپی کے کا نیا وزیر اعلیٰ پرچی نہیں بلکہ فرشی ہے جو سلام کر کر کے وزیر اعلیٰ بنا ہے۔ انہوں نے کہا عثمان بزدار کو بیگم کے کہنے پر لگایا گیا جبکہ گنڈا پور کو باجی کے کہنے پر ہٹایا گیا، جو اس جماعت کی سیاسی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کے پی میں جعلی الیکشن ہوا، ایک وزیراعلیٰ کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا اور دوسرا منتخب کرلیا گیا۔ سہیل آفریدی نے صرف بڑھکیں ماریں، صوبے کی ترقی پر کوئی بات نہیں کی۔عظمٰی بخاری نے واضح کیا پنجاب کے ہر ترقیاتی منصوبے میں جنوبی پنجاب کو برابر کا حصہ دیا جاتا ہے اور مریم نواز کے نزدیک نہ کوئی وسطی ہے نہ جنوبی پنجاب، بلکہ صرف ایک پنجاب ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا سروے تقریباً مکمل کر لیا ہے اور بہت جلد متاثرہ خاندانوں کو مالی امداد کی فراہمی کا عمل شروع کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جنوبی پنجاب میں بحالی کے کام تیزی سے جاری ہیں جبکہ صوبے میں ‘‘ستھرا پنجاب" فلیگ شپ پروگرام بھرپور انداز میں چل رہا ہے۔ بچوں کی صحت میں بہتری کے لیے جنوبی پنجاب میں میل پروگرام بھی مؤثر انداز میں جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جنوبی پنجاب میں اب تک 4014 افراد کے CNIC اور 78,769 جانور رجسٹر ہو چکے ہیں، جبکہ 787.
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: انہوں نے چکے ہیں کے قرضے کیے گئے کے لیے کے تحت نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
جنوبی پنجاب میں وبائی مرض سے قیمتی اونٹوں کی اموات
جنوبی پنجاب کے صحرا چولستان میں اونٹوں میں فلو اور بخار کی ایک تیزی سے پھیلنے والی بیماری سامنے آنے کے بعد حکام نے الرٹ جاری کر دیا ہے۔ محکمہ لائیوسٹاک پنجاب کے مطابق اب تک بیماری سے 10 اونٹ ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ایک ہزار سے زائد اونٹوں میں فلو جیسی علامات کی تصدیق ہوئی ہے۔
یہ واقعات رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد اور کوٹ سبزل کے چولستانی علاقوں میں رپورٹ ہوئے، جہاں مقامی چرواہوں نے اچانک بیماری پھیلنے کی شکایت کی۔ ان کے مطابق اونٹ پہلے زکام کا شکار ہوتے ہیں، پھر تیز بخار کے بعد بے ہوش ہو جاتے ہیں اور چند گھنٹوں میں موت واقع ہو جاتی ہے۔
مالکان کا کہنا ہے کہ لاکھوں روپے مالیت کے اونٹ ان کی آنکھوں کے سامنے مر رہے ہیں، جس سے ان کا واحد ذریعہ روزگار شدید متاثر ہوا ہے۔
حکام نے بتایا کہ پہلا کیس سامنے آتے ہی 14 ریپیڈ ریسپانس ٹیمیں اور 18 موبائل ڈسپینسریز متاثرہ علاقوں میں بھیج دی گئیں جہاں فوری طبی امداد، ادویات اور کلینیکل مینجمنٹ فراہم کی جا رہی ہے۔ اب تک 52 بائیولوجیکل نمونے حاصل کر کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز اور صوبائی تشخیصی لیبارٹری بھجوا دیے گئے ہیں۔ ٹیمیں صحرائی آبادیوں میں قائم 196 ٹوبوں اور کھوؤں کی نگرانی بھی کر رہی ہیں۔
محکمہ لائیوسٹاک کے مطابق مجموعی طور پر 11 ہزار 500 سے زائد اونٹوں کا معائنہ کیا گیا، جن میں سے 1139 میں بیماری کی علامات پائی گئیں اور انہیں موقع پر علاج فراہم کیا گیا۔ حکام نے بیماری کو فلو سے ملتی جلتی وبا قرار دیا ہے جو اونٹ کے نتھنوں میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح کی ایک وبا 2010 میں بھی چولستان میں سامنے آئی تھی۔
چولستان کا یہ وسیع ریگستان بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان کے اضلاع پر مشتمل ہے جہاں تقریباً دو لاکھ کے قریب آبادی مکمل طور پر مویشی بانی پر انحصار کرتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس خطے میں 20 لاکھ سے زائد مویشی پائے جاتے ہیں جن میں 28 ہزار اونٹ بھی شامل ہیں۔ مقامی لوگوں کے لیے اونٹ نہ صرف سفری ضرورت ہیں بلکہ تجارت اور روزگار کا اہم ذریعہ بھی ہیں۔
عام طور پر چولستان میں اونٹ خشک سالی، بھوک یا خارش جیسی بیماریوں سے کم ہی مرتے ہیں، لیکن حالیہ وبا نے تین دن میں ایک ہی یونین کونسل ٹھنڈی چالیس آر ڈی میں 10 سے زیادہ اموات ریکارڈ کی ہیں۔
مقامی باشندوں کے مطابق اس علاقے میں اونٹوں کی آبادی ایک ہزار سے زائد ہے اور مختلف مالکان کے کم از کم 20 اونٹ اب تک اس مہلک فلو کا شکار ہو چکے ہیں۔
جانوروں کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر بروقت کنٹرول نہ کیا گیا تو بیماری پورے چولستان میں پھیل سکتی ہے، جس سے مقامی کمیونٹی کو بڑے معاشی نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال پر مسلسل نگرانی جاری ہے اور متاثرہ جانوروں کو ضروری علاج و نگہداشت فراہم کی جا رہی ہے۔