data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251016-03-4
میاں منیر احمد
ووٹ پاکستان کے سیاسی نظام کی اصل طاقت ہے، یہ طاقت آئین نے دی ہے اور آئین پارلیمنٹ نے دوتہائی اکثریت سے پاس کیا، سیاسی نظام نے اسے تسلیم کیا ہے، یہ سیدھا سادا نظام ہے کہ جسے عوام چاہیں وہ حکمران ہوگا اور حکمران اس ملک میں اللہ کے نائب کے طور پر، خوف خدا کے حقیقی تصوّر کو ذہن میں، دل میں رکھ کر حق حکمرانی استعمال کرے گا۔ وہ شیطان کی طرف نہیں دیکھے گا، نہ اس کا پیروکار بنے گا، مگر کیا ہمیں اپنے ملک کے سیاسی نظام میں یہ صفت کہیں نظر آرہی ہے؟ یہ صفت اس لیے نظر نہیں آرہی کہ ہماری سیاست میں گھس بیٹھیے بہت ہیں، اور یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ابتداء تو ایوب خان نے کی پھر ایوب خان کا قافلہ رکا نہیں، آہستہ آہستہ اس کے چھاتا بردار دستے سیاسی جماعتوں میں اُترنا شروع ہوئے اور آج پورا معاشرہ ان کے ہاتھوں یرغمال ہے، ایسی صورت میں آئین کہاں کھڑا ہے اس کی اصل روح اب کیا سوچ رہی ہے؟ عوام بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ ملک کے سیاسی نظام میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟، آر ٹی ایس بیٹھنا، فارم سنتالیس یہ سب عوام کے جمہوری حق اور رائے کی توہین ہے اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ حق حکمرانی عوام کے پاس نہیں ہے ان کے مقدر میں کرسیاں لگانا، دری بچھانا اور راہنمائوں کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگنا یا پائیدان پر لٹکنا ہی رہ گیا ہے۔
ملک کی سیاسی جماعتوں کی حالت کچھ اس سے مختلف بھی نہیں ہے ابھی ابھی بارہ اکتوبر گزرا ہے، 12 اکتوبر کو اگر1999 سے جوڑا جائے تو اس روز نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا، تب ملک میں دو بڑی اپوزیشن تھیں ایک جماعت اسلامی اور دوسرا جی ڈی اے، بے نظیر بھٹو، نواب زادہ نصراللہ خان سمیت متعدد مذہبی جماعتیں بھی اس اتحاد میں شامل تھیں، عمران خان اور طاہر القادری بھی اس اتحاد کا حصہ رہے، دونوں اس لیے اتحاد سے نکل گئے کہ ان دونوں کو اقتدار مل جانے کے بعد جی ڈی اے نے وزیر اعظم بنانے کا وعدہ نہیں کیا تھا، ہر حکومت کیوں کامیاب رہتی ہے اور اپوزیشن کیوں کمزور رہتی ہے وجہ یہی ہے کہ اپوزیشن میں وزارت عظمیٰ کے عہدے کے امیدواروں کی لمبی قطار ہوتی ہے حالانکہ اگر کسی کو دانش مندانہ بات کہنی ہے تو ایک ہی بندہ کافی ہوتا ہے۔ جی صرف ایک ہی بندہ… اگر یہ دانش مندی کی بات کردے تو لاکھوں پر بھاری ہوتا ہے، ذرا سنیے وہ کیسے؟
ایک دُور دراز کے گاؤں میں ایک اعلیٰ پائے کے مقبول سیاست دان کا جلسہ تھا، اسے کئی سو کلو میٹر کا سفر کرکے وہاں پہنچنا تھا، بہر حال وہ پہنچا، جب اسٹیج پر چڑھا تو دیکھا کہ منتظمین پریشان اور پنڈال ویران، صرف ایک آدمی پنڈال میں موجود تھا، اس اکیلے شخص کو دیکھ کر سیاست دان مایوس بھی ہوا اور پریشان بھی، کہا کہ اگر یہاں ایک ہی آدمی تقریر سننے کے لیے آیا ہے تو پھر کیا تقریر کی جائے، یا نہ کی جائے، کچھ فیصلہ نہیں کر پارہا ہوں، یہ بات سن کر وہ آدمی بولا، اگر میرے پاس تیس جانور ہوں اور ان میں سے انتیس بھاگ جائیں تو کیا میں رہ جانے والے جانور کو چارہ نہ ڈالوں؟ سیاست دان نے جب یہ بات سنی تو ماتھے پر پسینہ چھوٹ گیا کہ اتنی گہری بات ایک عام آدمی نے کہہ دی، جواب سُن کر سیاست دان صاحب اسٹیج پر لگے ہوئے ڈائس پر پہنچے اور مائیک سنبھالا، سینہ پھلایا اور لمبی سانس بھری اور ہوگئے شروع، جو منہ میں آیا بولے جارہے ہیں، تاہم انہوں نے اتنا خیال رکھا کہ جاپان اور جرمنی کی سرحدوں کو آپس میں نہیں ملایا، یہ نہیں کہا کہ سال میں بارہ موسم ہوتے ہیں، پورے دو گھنٹے تک پر جوش تقریر کی، اور تقریر کے بعد اسٹیج سے نیچے اترا اور اس آدمی کے پاس گیا کہا کیسی تھی تقریر؟ اس آدمی نے جواب دیا اگر جانور بھاگ گئے ہیں اور کیا میں بچ جانے والے ایک جانور کو باقی تمام کا چارہ بھی ڈال دوں؟ کیا یہ مناسب ہوگا؟
بس یہی حال ہماری سیاست کا ہے، جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ عام انسان کی نبض سے کٹ جاتا ہے، اس کی سوچ سے کٹ جاتا ہے، اسے کوئی علم نہیں ہوتا ہے کہ ایک عام آدمی کے مسائل کیا ہیں؟ جب وہ اقتدار کے نشے میں فیصلہ کرتا ہے تو پھر اس ملک میں 8 اکتوبر 1958 بھی آتا ہے اور اس ملک میں 5 جولائی1977 بھی آتا ہے اور 12 اکتوبر 1999 بھی آتا ہے، پھر اقتدار سے محروم کی جانے جماعت، اس کا ہامی میڈیا، اس کی ہامی رائے عامہ سب لکیر پیٹتے ہیں، سیاسی جماعتوں میں ایسے فیصلے تب ہوتے ہیں جب ان میں ’’گھس بیٹھے‘‘ آ دھمکتے ہیں اور وہ فیصلوں پر حاوی ہوجاتے ہیں، گھس بیٹھیے سیاسی جماعتوں کی روایات سے نابلد ہوتے ہیں، لیکن پکڑے بھی جاتے مگر تب تک یہ بہت نقصان کر چکے ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں کون گھس بیٹھے ہیں ہمیں تو علم نہیں، یہ جانیں اور نواز شریف جانیں، ہمیں اس سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔ 12 اکتوبر کے حوالے سے سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ اگر جنرل جہانگیر کرامت، ہمت کرتے اور پرویز مشرف کا کورٹ مارشل کردیتے تو اس ملک میں ’’بارہ اکتوبر‘‘ کبھی نہ آتا، یہ کورٹ مارشل کیوں نہ ہوا! اس کی کہانی پھر کبھی سہی…
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سیاسی جماعتوں سیاسی نظام اس ملک میں سیاست دان ہوتے ہیں آتا ہے ہے اور
پڑھیں:
ہم آئینی اور سیاسی جنگ کریں گے اور جیتے گے، جنید اکبر
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما جنید اکبر نے کہا ہے کہ ہم آئینی اور سیاسی جنگ کریں گے اور جیتے گے، وزیر اعلیٰ نے استعفیٰ دیا ہے، گورنر کی استعفیٰ واپس کرنے کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے صوبائی صدر جنید اکبر نے پشاور ہائی کورٹ کے باہر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوگا، قانونی ٹیم تیار بیٹھی ہے، ہماری ساتھ مشاورت بھی ہوگئی، ہم آئینی راستہ اختیار کر رہے ہیں، آج ووٹنگ ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ آئینی اور سیاسی جنگ کریں گے اور جیتے گے، وزیر اعلیٰ نے استعفیٰ دیا ہے، گورنر کی جانب سے استعفیٰ واپس کرنے کی قانونی حیثیت نہیں ہے، وزیراعلی علی نے خود کہا ہے کہ استعفی دیا ہے، اپوزیشن کو کوئی اعتراض ہو تو وہ عدالت آسکتی ہے۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ وزیراعلی کے انتخاب آج ہوگا،
آئین بلکل واضع ہے، اگر گورنر وزہراعلی سے حلف نہیں لیتے تو اس کا آئین میں طریقہ کار ہے۔
پی ٹی آئی رہنما کے سینیٹر علی ظفر نے پشاور ہائیکورٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے کوئی درخواست دائر ہوتی تو خود اس میں پیش ہونگا، اس لیے ہائیکورٹ آئے ہیں، اپوزیشن اگر وزیراعلی کا الیکشن روکنا چاہتی ہے تو ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق وزیراعلی جب استعفیٰ دیتا ہے تو وہ مستعفی ہوجاتا ہے، آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ گورنر استعفیٰ منظور کرے گا تو وزیراعلی مستعفی ہوگا، وزیراعلی کا الیکشن آج ہوگا ایک آدھ گھنٹے میں وزیراعلی کا انتخاب ہو جائیگا۔
قبل ازیں صوبائی صدر پاکستان تحریک انصاف جنید اکبر موجودہ صورتحال پر قانونی مشاورت کے لیے لیگل ٹیم کے ساتھ ایڈووکیٹ جنرل کے دفتر پہنچے۔