Jasarat News:
2025-10-15@23:41:17 GMT

خیبر پختون خوا میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی

اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251016-03-2
خیبر پختون خوا اسمبلی میں سہیل آفریدی بھاری اکثریت لے کر وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے ہیں اور انہوں نے گورنر کے پی کے سے وزارت اعلیٰ کا حلف بھی لے لیا ہے۔ اگرچہ وفاقی حکومت اسٹیبلشمنٹ نے سہیل آفریدی کے تقرر پر اپنے تحفظات اور خدشات یا الزام تراشی بھی کی کہ ان کا تقرر صوبہ میں دہشت گردی کی جنگ کو متاثر کرے گا۔ کچھ اس طرح کا تاثر بھی دیا گیا کہ وفاقی حکومت وزیر اعلیٰ کے تقرر کو طاقت کی بنیاد پر روکے گی۔ اس خدشے کو اس وقت تقویت ملی جب گورنر فیصل کریم کنڈی نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا استعفا قبول کرنے سے انکار کردیا اور اس پر تاخیری حربے اختیار کیے اور دوسری طرف ڈی جی آئی ایس پی آر کی پشاور میں ہونے والی پریس کانفرنس نے ماحول میں اور زیادہ شدت پیدا کر دی اور یہ تاثر ملا کہ نئے وزیر اعلیٰ کے تقرر کو کسی بھی سطح پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہو سکا اور پی ٹی آئی کے ارکان صوبائی اسمبلی سمیت سابق وزیر اعلیٰ نے مکمل حمایت کے ساتھ نہ صرف بانی پی ٹی آئی کا فیصلہ قبول کیا بلکہ سہیل آفریدی کو بھاری اکثریت سے وزیر اعلیٰ منتخب کیا ہے۔ اس انتخاب سے اس تاثر کی بھی نفی ہوئی کہ عمران خان کے اس فیصلے کے بعد پارٹی بری طرح تقسیم ہو گئی اور نئے وزیر اعلیٰ کو کسی بھی سطح پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ سابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے بھی کوئی ایسا تاثر نہیں چھوڑا جس سے یہ محسوس ہو کہ وہ بانی پی ٹی آئی کے فیصلے سے خوش نہیں یا نئے وزیر اعلیٰ کی حمایت نہیں کریں گے۔ یہ جو خدشہ تھا کہ پی ٹی آئی کے ارکان کو توڑا جائے گا، وہ بھی غلط ثابت ہوا اور پارٹی نئے وزیراعلیٰ کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔ بنیادی طور پر بانی پی ٹی آئی خیبر پختون خوا میں فوجی آپریشن کے سخت مخالف ہیں اور ان کا موقف ہے کہ دہشت گردی کا علاج فوجی آپریشن سے نہیں بلکہ مذاکرات اور بات چیت ہی سے ممکن ہو سکے گا۔ عمران خان تواتر کے ساتھ علیٰ امین گنڈاپور کو یہ کہتے رہے کہ وہ کسی بھی صورت صوبے میں فوجی آپریشن کی حمایت نہ کریں۔ لیکن لیکن علی امین گنڈا پور فوجی آپریشن کی مخالفت تو نہ کر سکے البتہ وہ اسے ایک ٹارگٹڈ آپریشن کا نام دیتے رہے جو بانی پی ٹی آئی کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ اسی طرح عمران خان کو اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ علی امین گنڈاپور کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہت زیادہ مضبوط ہیں وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سہیل آفریدی کا تقرر بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھا اور لوگ سمجھتے تھے وہ ناتجربہ کار ہیں اور اس اہم منصب کے لیے وہ اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔ ایک اہم بات یہ بھی محسوس کی گئی کہ نئے وزیر اعلیٰ کے تقرر سے پارٹی میں باہمی اختلافات کا خاتمہ ہوا اور تمام گروپوں نے کھل کر پارٹی کے فیصلے کے ساتھ خود کو کھڑا کیا۔ نومنتخب وزیر اعلیٰ کا تعلق مڈل کلاس طبقے سے ہے اور وہ پڑھے لکھے نوجوان ہیں اور پارٹی میں مزاحمت کی سیاست کے طور پر اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد ان کی پہلی تقریر میں دیکھا گیا جہاں انہوں نے کھل کر کہا کہ یہاں کسی قسم کے فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کی جائے گی اور اگر صوبائی حکومت یا صوبائی اسمبلی سے ہٹ کر فوجی آپریشن کیا گیا تو اس کی بھرپور مزاحمت ہمارا حق بنتا ہے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو ٹکرائو پیدا کر سکتا ہے۔ کیونکہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں یہ واضح کہا گیا ہے کہ کسی بھی سطح پر ٹی ٹی پی یا افغانستان سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے اور دہشت گردی سے طاقت سے نمٹاجائے گا۔ عمران خان نے ایک بار پھر ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر کہا ہے کہ فوجی آپریشن مسائل کا حل نہیں بلکہ اور زیادہ حالات کو خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ انہوں نے وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں افغانستان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں اور اسی کی مدد سے دہشت گردی کا علاج بھی تلاش کیا جائے۔ مسئلہ محض پی ٹی آئی کا نہیں ہے بلکہ صوبے میں فوجی آپریشن کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کی جماعت جے یو آئی، عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کے بھی تحفظات ہیں۔ اس لیے صوبے میں دہشت گردوں کے خلاف اگر فوجی آپریشن کرنا ہے تو اس فیصلے کو سیاسی طور پر تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ اصولی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو مل بیٹھ کر باہمی اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہمیں فوجی آپریشن یا مذاکرات میں سے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اسی طرح نو منتخب وزیر اعلیٰ کو بھی وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی سیاست اختیار کرنے کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ صوبے کے معاملات کو اتفاق رائے سے چلایا جائے۔ لیکن اس کی ذمے داری جہاں صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے وہیں ایک بڑی ذمے داری وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر بھی ہے کہ وہ صوبے میں زبردستی فیصلے کرنے کی کوشش سے گریز کریں اور جو بھی فیصلہ کیا جائے اس میں صوبائی حکومت کی حمایت شامل ہونی چاہیے۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر وفاقی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور صوبائی حکومت کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے تو پھر صوبے کے حالات بہتری کے بجائے اور زیادہ بگاڑ کی طرف جائیں گے اور اس کا ایک نتیجہ گورنر راج کی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔ گورنر راج بھی مسئلے کا حل نہیں ہوگا بلکہ اس سے ماحول اور زیادہ تلخ ہوگا جو پہلے سے جاری دہشت گردی میں اور اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لیے فوجی آپریشن پر جذبات کے بجائے ہوش کے ساتھ فیصلے کرنے ہوں گے تاکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ متاثر نہ ہو۔ صوبائی حکومت اور بانی پی ٹی آئی کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ افغانستان کے حالات پاکستان کے حق میں نہیں ہیں اور جس طرح سے افغانستان کا انحصار بھارت پر بڑھتا جا رہا ہے وہ پاکستان کے لیے یقینی طور پر خطرہ ہوگا۔ اسی طرح افغانستان کی حکومت نے پاکستان کے ساتھ ٹی ٹی پی کے مسئلے پر کوئی تعاون نہیں کیا اور افغان سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہو رہی ہے۔ اس لیے جو لوگ افغانستان یا ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتے ہیں ان کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اب تک افغانستان اور ٹی ٹی پی نے پاکستان کے تحفظات پر کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ اسی طرح وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو صوبائی حکومت کے خلاف بلا وجہ کا محاذ بنانے کی ضرورت نہیں ہے، اگر صوبائی اسمبلی نے سہیل آفریدی پر بطور وزیراعلیٰ اعتماد کیا ہے اس فیصلے کو قبول کیا جانا چاہیے اور یہی سیاست اور جمہوریت کے حق میں بہتر ہوگا۔ خیبر پختون خوا کی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر صوبے میں موجود تمام سیاسی جماعتوں سمیت سول سوسائٹی، قبائلی عمائدین اور میڈیا کے ساتھ ایک گول میز کانفرنس کرے اور اس میں یہ فیصلہ کیا جائے کہ ہمیں آپریشن یا مذاکرات میں سے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور اگر بات مذاکرات کی طرف جاتی ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا اور اس کی ناکامی کی صورت میں پھر اگلا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت صوبے میں دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ ہے اور خاص طور پر بھارت اور افغانستان کے باہمی گٹھ جوڑ نے صوبے کی سیکورٹی کو ہر سطح پر چیلنج کیا ہوا ہے۔ اگر ہم نے حالات پر قابو نہ پایا یا کوئی غیر معمولی اقدامات نہ کیے تو صورتحال اور زیادہ خراب ہو سکتی ہے۔ افغانستان اور ٹی ٹی پی سے جو بھی جنگ لڑنی ہے سب سے پہلے ہمیں صوبے کے داخلی معاملات کا جائزہ لے کر ایک موثر اور مضبوط مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں فوجی ا پریشن فوجی ا پریشن کی بانی پی ٹی ا ئی خیبر پختون خوا نئے وزیر اعلی صوبائی حکومت راستہ اختیار پی ٹی ا ئی کے سہیل ا فریدی اختیار کرنا کرنا چاہیے پاکستان کے اور زیادہ کیا جائے علی امین کی حمایت ٹی ٹی پی جائے گا نہیں کی کے ساتھ کے تقرر ہیں اور کے خلاف کسی بھی کے لیے

پڑھیں:

خیبر پی کے میں کس کو وزیر اعلیٰ بنانا ہے  مقتدرہ کا کوئی تعلق نہیں: علی محمد خان  

اسلام آباد(آئی این پی )پی ٹی آئی  رہنما علی محمد خان نے کہا ہے کہ خیبرپی کے میں کس کو وزیراعلیٰ بنانا ہے اس سے مقتدرہ کا کوئی تعلق نہیں، صوبے کی عوام نے مینڈیٹ پی ٹی آئی کو دیا، وزیراعلیٰ کا فیصلہ بھی وہی کریں گے۔ایک انٹرویو میں  انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ سے کہتا ہوں کہ فضل الرحمان اور عمران خان کے درمیان اتحاد ہونا چاہیئے اور غلط فہمیاں دور ہونی چاہئیں۔وزیراعلیٰ کے امیدوار کا سنجیدہ ہونا اہم نہیں ، اہم جماعت اور لیڈر عمران خان ہے، صوبے کا مینڈیٹ پی ٹی آئی کے پاس ہے، یہ ایک سوال ہے کہ ن لیگ کی حکومت ہے لیکن وزیراعظم شہبازشریف کیوں؟لہذا جماعتوں کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے کہ کس کو لے کر آنا ہے، علی امین بڑا وفادار آدمی ہے، لیکن عمران خان نے محسوس کیا کہ تبدیلی آنی چاہیئے۔خیبرپی کے میں کس کو وزیراعلیٰ بنانا ہے اس سے مقتدرہ کا کوئی تعلق نہیں، صوبے کی عوام نے مینڈیٹ پی ٹی آئی کو دیا ہے۔تمام ارکان آج  پیر کو سہیل آفریدی کو ووٹ دینے کیلئے متحد ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جمہوری تبدیلی
  • خیبر پختونخوا حکومت کا عمران خان سے وزیر اعلیٰ کی ملاقات کے لیے وفاق اور پنجاب کو مراسلہ
  • مظاہرین کیخلاف فوجی طرز کا آپریشن انتہائی شرمناک ہے‘تنظیم اسلامی
  • میں نے کبھی نہیں کہا حلف نہیں لوں گا، گورنر خیبر پختونخوا
  • نئےوزیراعلیٰ کے پی پرچی نہیں ، فرشی وزیرِ اعلیٰ ہیں: عظمیٰ بخاری
  • میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں، نو منتخب وزیر اعلیٰ کے پی
  • میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں، نو منتخب وزیر اعلیٰ کے پی
  • سہیل آفریدی نئے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا منتخب
  • خیبر پی کے میں کس کو وزیر اعلیٰ بنانا ہے  مقتدرہ کا کوئی تعلق نہیں: علی محمد خان