اے سی سی اے نے اے آئی کے اخلاقی چیلنجز پر رپورٹ جاری کردی
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(کامرس رپورٹر)سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے کراچی میں “پاکستان میں تکافل کا مستقبل” کے عنوان پر ایک گول میز مباحثے کا اہتمام کیا۔ یہ تقریب ایس ای سی پی کے ‘انشورڈ پاکستان’ کے پانچ سالہ اسٹریٹجک پلان کا حصہ تھی۔ آدھے دن کے اجلاس میں شریعہ ایڈوائزرز، بین الاقوامی انشورنس بروکرز (AON and Guy Carpenter) اور انشورنس صنعت کے نمائندے شریک ہوئے۔ اجلاس کا مقصد تکافل کے شعبے کی ترقی کو فروغ دینا تھا۔یہ اقدام، کمشنر جناب مجتبیٰ احمد لودھی کی رہنمائی میں ایس ای سی پی کے انشورنس ڈویڑن کی جانب سے شروع کیا گیا۔ اس کا مقصد تکافل صنعت کا مارکیٹ شیئر بڑھانا، شریعہ کے مطابق مالی شمولیت کو فروغ دینا، اور ملکی معیشت و ریگولیٹری اصلاحات میں بہتری لانا تھا۔اپنے خطاب میں کمشنر انشورنس جناب مجتبیٰ احمد لودھی نے شرکاء کی بھرپور شمولیت کو سراہا اور تکافل کے فروغ میں مشترکہ ذمہ داری کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ایس ای سی پی ایک آسان اور معاون ریگولیٹری ماحول فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے اور مستقبل کے لائحہ عمل پر عمل درآمد کے لیے صنعت کو مکمل تعاون فراہم کرے گا۔ایس ای سی پی کے شریعہ ایڈوائزری بورڈ کے رکن جناب مفتی احسان وقار نے حالیہ آئینی اصلاحات کی روشنی میں شریعت کے مطابق انشورنس کی طرف منتقلی کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے صنعت کے اہم چیلنجوں کا خاکہ پیش کیا اور ایس ای سی پی اور مارکیٹ کے شرکاء دونوں پر زور دیا کہ وہ اس منتقلی کے لیے واضح رہنما اصول تیار کرنے میں مل کر کام کریں۔ایس ای سی پی کی ٹیم نے تکافل شعبے کے اہم چیلنجز اور اس کی اسٹریٹجک ترجیحات پر روشنی ڈالی، ساتھ ہی مالیاتی صنعت میں اسلامی مالیات کے فروغ کے لیے کی جانے والی وسیع کوششوں کا بھی ذکر کیا۔ انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے نمائندوں نے ممکنہ مسائل کی نشاندہی کی، جن میں ری تکافل کی محدود دستیابی، روایتی انشورنس مصنوعات کی تبدیلی، اور ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ریگولیٹر اور حکومت کی معاونت کی ضرورت شامل تھی۔بین الاقوامی انشورنس بروکرز کے نمائندوں نے عالمی ری انشورنس اور ری تکافل کے رجحانات پر قیمتی رائے پیش کیں۔ انہوں نے پاکستان کے تکافل شعبے کے لیے چیلنجز اور مواقع پر روشنی ڈالی تاکہ اسے بین الاقوامی بہترین طریقہ کار کے مطابق ڈھالا جا سکے۔گول میز اجلاس ایک کھلی گفتگو کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، جس میں شرکاء نے آئندہ کے لائحہ عمل پر اپنی رائیپیش کیں۔ گفتگو کا مرکز ری تکافل کی محدود استعداد کے مسائل کا حل، جدت کو فروغ دینا، صنعت کی صلاحیتوں کو مضبوط کرنا، اور مارکیٹ میں بہتر تعاون کو آگے بڑھانا تھا۔ صنعت کے نمائندوں نے ایس ای سی پی کے فعال کردار کو سراہا اور تکافل صنعت کی مشترکہ ترقی کے عزم کا اظہار کیا، تاکہ “مکمل بیمہ شدہ پاکستان” کے وڑن کو حقیقت بنایا جا سکے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایس ای سی پی کے
پڑھیں:
پاکستان بھر میں جنوری سے نومبر 2025 تک صنفی بنیاد پر خواتین پر تشدد کے واقعات کی رپورٹ جاری
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) ساحل میڈیا ٹیم انفرادی طور پر نے جنوری سے نومبر 2025 تک صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات کی رپورٹ جاری کردی ہے، جس کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات 2024 میں (5253) رپورٹ ہوئے جبکہ 2025 میں (6543) رپورٹ ہوئے۔ یعنی پچھلے سال کی رپورٹ سے 25 فیصد کیسز بڑھے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ساحل کی جانب سے 2024 سے صنفی بنیاد پر تشدد کی معلومات اکٹھا کی جا رہی ہیں، جس کا مقصد محفوظ اور زیادہ مساوی کمیونٹیز کو یقینی بنانا ہے۔2025 کی رپورٹ اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں کے 81 قومی اخبارات سے جمع کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔
ریڑھی چھین لی ، بچوں کا سکول چھوٹ گیا ، کون ہے میری بد حالی کا ذمہ دار ؟ پیرافورس کی کارروائی سے متاثرہ شخص کی دہائی
رپورٹ میں بتایا گیا کہکیسز کی کل تعداد 6543 ہے جس میں قتل 1414، اغوا 1144، تشدد 1060، خودکشی 649 اور عصمت دری کے 585 کیسز رپورٹ ہوئے۔کُل کیسز میں سے 32فیصد میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں میں اپنے تھے جبکہ 17فیصد غیر تھے اور 12فیصد بدسلوکی کرنے والے شوہر تھے جبکہ 21فیصد کیسز میں زیادتی کرنے والے نامعلوم تھے۔
صنفی بنیاد پر تشدد کے زیادہ تر واقعات ذاتی جگہوں پر پیش آئے ، جن میں متاثرہ اپنے گھر میں تھی ، جس کے (60فیصد کیسز) ہیں اور بدسلوکی کرنے والے کی جگہ پر (13فیصد کیسز) بنتے ہیں۔کل کیسز میں سے 78فیصد پنجاب اور 14فیصد کیس سندھ سے رپورٹ ہوئے۔ باقی کیسز دوسرے صوبوں سے رپورٹ ہوئے جن میں 6فیصد کیسز کے پی سے، 2فیصد کیسز بلوچستان اور باقی جموں کشمیر، اسلام آباد اور گلگلت بلتستان سے ہوئے۔
ویڈیو: شہری نے اپنے سر پر مستقل ہیلمٹ پہن لیا، دانت صاف کرتے، نہاتے، سوتے اور کھانا کھاتے وقت بھی نہیں اتارتا
تمام رپورٹ شدہ کیسز میں سے 77فیصد کیسز پولیس کے پاس رجسٹرڈ ہوئے، 21فیصد کیسز میں رجسٹریشن کا ذکر نہیں کیا گیا اور 1% کیسز پولیس کے پاس غیر رجسٹرڈ تھے جبکہ 2 کیسز میں پولیس نے کیس درج کرنے سے انکار کیا۔
مزید :