Jasarat News:
2025-10-19@05:02:02 GMT

جسارت کا 17؍ اکتوبر 2025 کا اداریہ

اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جسارت میں شائع ہونے والا 17؍ اکتوبر 2025 کا اداریہ ہر امن پسند ملک کو بہت ہی غور و فکر کی دعوت دے رہا ہے۔ کہنے کو تو ہر اخبار کا اداریہ بظاہر کسی کالم نگار کی کالم نگارانہ ہنر مندی لگتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو سارا اخبار اور اس میں شائع ہونے والی خبریں ایک طرف اور کسی بھی مدیر کا تمام حالات واقعات کا نچوڑ، اداریہ ہی ہوتا ہے جو اس بات کی دعوت دے رہا ہوتا ہے کہ گزرتے لمحوں کی سنگینیوں کو سمجھا جائے اور ایسے اسباب فراہم کیے جائیں کہ اگر حالات خوشگوار ہوں تو ان کی خوشگواری میں اضافہ اور اگر حالات میں آگے چل کر سنگینیوں کا خدشہ ہو تو اس کو دور کرنے کے لیے نہایت سنجیدہ و دانشمندانہ اقدامات اٹھائے جائیں۔ اداریہ لکھتا ہے کہ: ’’افغانستان اور پاکستان کی مسلح افواج کے مابین کئی روز کی شدید کشیدہ صورت حال میں پاکستان کی جانب سے افغان دارالحکومت کابل پر حملے کے بعد فریقین میں جنگ بندی ہو گئی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق طالبان کی درخواست پر حکومت پاکستان اور افغان طالبان کے مابین باہمی رضا مندی سے بدھ کی شام چھے بجے سے آئندہ اڑتالیس گھنٹوں کے لیے عارضی جنگ بندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جنگ بندی کے اس عرصے کے دوران فریقین تعمیری بات چیت کے ذریعے اس پیچیدہ مگر قابل حل مسئلے کا مثبت حل تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں گے‘‘۔

گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو کشیدگی چل رہی ہے اور جس قسم کی جنگ جیسی صورتِ حال بنی ہوئی ہے اس کے لیے یہ بات بہت ہی ضروری ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان، جس طرح بھی ممکن ہو، کشیدہ صورتِ حال کو معمول پر لایا جائے اور دونوں برادر ممالک بجائے ایک دوسرے سے دور ہونے کے، ایک دوسرے کے قریب سے قریب تر آجائیں۔ دوریاں اور کشیدگیاں اپنی جگہ، دونوں جانب جو جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے، اس سے نہ تو پاکستان کا کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی افغانستان کے لیے ایسی صورتِ حال سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی افغان حکومت سے کوئی شکایت نہیں لیکن وہ شر پسند عناصر جو افغانستان کے اندر ایک اور افغانستان بنائے ہوئے ہیں اور انہوں نے افغانستان کے اندر اپنی تربیت گاہیں قائم کی ہوئی ہیں، ان کے ایجنڈے میں شاید یہ بات شامل ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان دیواروں پر دیواریں کھڑی کرتے چلے جائیں اور ایک دوسرے کے قریب آنے کے بجائے دور سے دور ہوتے چلے جائیں۔ ایسے عناصر کے بارے میں پاکستان نے افغان حکومت سے متعدد بار کہا ہے کہ وہ اپنی سر زمین سے ایسے گروہوں کا خاتمہ کرے جو پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

یہ بات کون نہیں جانتا کہ بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسیاں افغانستان میں ایسے عناصر کو ہر قسم کی امداد، ہتھیار، تربیت اور دولت فراہم کرتی رہتی ہیں جن کا انداز فکر پاکستان کے خلاف ہے اور وہ بار بار منظم اور ہتھیاروں سے لیس ہوکر کہیں بھی اور کسی بھی وقت بلا اشتعال پاکستان پر حملہ آور ہوکر پاکستان کے امن و سکون کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھی یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ جیسے ہی پاک افغان سرحدیں کشیدگی کا شکار ہوئیں اور پاکستان نے افغانستان میں شرپسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، افغان قیادت فوراً بھارت کی گود میں جا کر بیٹھ گئی۔ یہی وہ بات ہے جس کو جسارت کے آج کے اداریہ میں اٹھایا گیا ہے اور افغان حکومت کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ بھارت کو اپنا ہمدرد اور دوست کسی بھی صورت نہ سمجھے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو ملک مسلمانوں اور خاص طور سے پاکستان سے ہمیشہ مخاصمانہ طرز عمل رکھتا ہو، وہ افغانستان جیسے مسلم ملک کا دوست کیسے ہو سکتا ہے۔ جنگ ہی کیا، ہر قسم کے حالات کو مذاکرات ہی کے ذریعے بہتر کیا جا سکتا ہے۔ ہر جنگ کا خاتمہ آخر کار مذاکرات پر ہی اختتام پذیر ہوا کرتا ہے۔ 1965 یا 1971 کی جنگ ہو، ’’امن‘‘ مذاکرات ہی سے بحال ہوئے۔ حالیہ فلسطین کی جنگ کا اختتام بھی بہر کیف مذاکرات سے ہی ہوا اس لیے بجائے حالات کو تشدد کی جانب دھکیلا جائے، امن کے لیے بات چیت کا آغاز ہی ایسا راستہ ہے جس پر چل کر امن اور دوستی کی منزل کو سر کیا جا سکتا ہے۔

جہاں برادر ممالک کو اپنے فیصلہ از خود کرنا زیادہ بہتر ہے وہیں پاکستان کو بھی یہ بات سوچنی چاہیے کہ وہ بھی اپنے رویوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے۔ تالی بہر حال ایک ہاتھ سے تو بجائی نہیں جا سکتی۔ اگر افغانستان پاکستان سے کچھ الجھن محسوس کرتا ہے تو رائی اور پربت کے فرق کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، کوئی نہ کوئی قصور کا پہلو پاکستان کا بھی ضرور نکلے گا۔ اس لیے ہمیں دوسروں کی جانب انگلی کا اشارہ کرنے سے پہلے اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ تین انگلیاں خود ہماری جانب بھی اشارہ کر رہی ہوتی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں اس عارضی جنگ بندی کے دوران جو بھی معاہدہ ہو وہ اللہ کرے کہ مخلصانہ اور پائیدار ہو۔ ہر وہ معاہدہ جس میں اخلاص، سچائی اور معاہدے کی پاسداری کا سچا لحاظ ہوتا ہے وہاں ’’اشارے بازیاں‘‘ نہیں ہوا کرتیں بلکہ سب کی آنکھوں کے سامنے آنکھ مارنے کے بجائے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جاتی ہے۔ امید ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے دوران معاہدے پر دستخط کے دوران کوئی فریق بھی مکارانہ اشارے کرتا ہوا نہیں دیکھا جائے گا۔

حبیب الرحمن سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغان اور افغانستان افغانستان کے کے دوران کے لیے ہے اور یہ بات

پڑھیں:

پاکستان کے خلاف را، خاد گٹھ جوڑ

ریاض احمدچودھری

آج کل پاک افغان تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ ویسے تو یہ تعلقات کبھی بھی بہترین حالت میں نہیں رہے ۔ اس کی وجہ افغان معاملات میں بھارتی مداخلت اور پشت پناہی ہے۔ اپریل میں اسحاق ڈار کے دور کابل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان جمی برف تیزی سے پگھلنا شروع ہوئی جس کے بعد مئی میں اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا اور پاکستان ازبکستان کے درمیان براستہ افغانستان ٹرین چلانے کا اعلان بھی کیا گیا۔لیکن اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہیں، جو 11 اور 12 اکتوبر کو شدید فوجی کشیدگی کے بعد خراب تر ہو گئے۔ دونوں اطراف نقصان ہوا لیکن زیادہ نْقصان افغانستان کی طرف ہوا جنہوں نے پاکستان سے جنگ بندی کی درخواست کی جس کو قبول کیا گیا۔چند روزقبل افغان وزیرِخارجہ نے بھارت میں کھڑے ہو کر مسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف کی حمایت کر دی اور ایسا کرنے والا پہلا اسلامی ملک بن گیا تو دوسری طرف پاکستان نے اپنی اِس خواہش کا اظہار کر دیا کہ وہ افغانستان میں تمام فریقوں پر مشتمل ایک ہمہ جہت حکومت چاہتا ہے یعنی افغانستان کے اندر طالبان کی ساتھ ساتھ دوسرے فریقوں کو بھی حکومت میں شامل کیا جائے۔کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیاں حالات کی بہتری کا کوئی اِمکان ہے اور کیا دونوں ممالک بات چیت میں آنے والے تعطل کو دوبارہ شروع کر سکتے ہیں، یہ ایک سوال ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے مستقل کو طے کرے گا۔
حالیہ تصادم میں دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر بلا اشتعال حملوں الزام لگایا ہے۔ پاکستان نے اس فوجی تنازع کے دوران مبیّنہ طور پر خارجی تشکیلات کو پاکستان میں داخلے سے روکتے ہوئے حملہ پسپا کیا بلکہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر بھی حملے کیے۔ کابل کا یہ کہنا ہے کہ یہ حملے اْن کی خود مختاری اور سالمیت کے خلاف تھے۔اپریل اور مئی میں پاکستان نے بہت سے معاملات جیسا کہ بارڈر پر داخلے کے حوالے سے نرمی اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے مطالبات تسلیم کئے لیکن اس عرصے کے دوران پاکستان کا افغانستان سے صرف ایک ہی مطالبہ رہا کہ افغان طالبان حکومت افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں سے روکے، جس پر افغان حکومت نے اِتفاق بھی کیا۔
تاہم فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کی کاروائیوں میں افغان سرزمین کے استعمال کو روکا نہ جا سکا اور پاکستان میں ٹی ٹی پی حملوں میں درجنوں فوجی جوان، آفیسرز ، پولیس افسران اور عام شہری جامِ شہادت نوش کرتے رہے۔
پاکستان کی سکیورٹی فورسز کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ اس جنگ میں ہزاروں جوانوں اور افسران نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے تاکہ ملک میں امن قائم ہو سکے۔ یہ قربانیاں پاکستان کے اس غیر متزلزل عزم کی عکاس ہیں کہ کوئی بھی قوت، چاہے وہ اندرونی ہو یا بیرونی، ہمارے قومی اتحاد اور سلامتی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہونے والی بیشتر دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے بھارت اور افغانستان میں موجود دہشت گرد نیٹ ورکس کے ہاتھ ہیں۔ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کے لیے پراکسی جنگوں کے ذریعے ملک دشمن عناصر کو مالی، عسکری اور لاجسٹک مدد فراہم کرتی ہیں۔ بھارتی ایجنسی ”را” طویل عرصے سے پاکستان کے مختلف حصوں میں بدامنی پھیلانے کی سازشوں میں ملوث رہی ہے۔ بلوچستان سے لے کر خیبر پختونخوا تک بھارتی پراکسی نیٹ ورکس نے انتشار پھیلانے کی کوشش کی مگر پاکستانی عوام اور فورسز نے ان تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا۔
پاکستان عالمی برادری سے بارہا یہ مطالبہ کرتا آیا ہے کہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور پاکستان کے خلاف پراکسی جنگوں کا نوٹس لیا جائے۔ دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اسی وقت ممکن ہے جب بھارت اپنی جارحانہ پالیسیوں سے باز آئے اور خطے میں استحکام کے لیے تعمیری کردار ادا کرے۔ پاکستانی قوم اور افواج متحد ہو کر دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنا رہی ہیں۔ شہداء کی قربانیاں اس قوم کا سرمایہ? افتخار ہیں۔ میجر سبطین حیدر جیسے بہادر سپوتوں نے اپنی جان دے کر یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کی سلامتی ناقابلِ تسخیر ہے۔ آج پوری قوم اپنے شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عہد کی تجدید کرتی ہے کہ ہم اپنی دھرتی کے دفاع، امن اور ترقی کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارا ازلی مکار دشمن بھارت، جو شروع دن سے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری ختم کرنے کے درپے ہے اور اس مقصد کے لیئے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کرنے اور اسے سانحہ سقوطِ ڈھاکہ سے دوچار کرنے کے بعد اس ارضِ وطن پر اپنی پراکسیز کے ذریعے دہشت گردی پھیلانے اور حالیہ سیلاب کے دوران پاکستان پر آبی دہشت گردی کرنے کا بھی مرتکب ہو چکا ہے، اپنے گذشتہ مئی والے جنگی جنون میں پاکستان کی جری و بہادر مسلح افواج کے ہاتھوں عبرت ناک شکست سے دوچار ہوکر دنیا بھر میں ہزیمت اٹھا چکا ہے اور کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ وہ اب پاکستان کے خلاف آتشِ انتقام میں جل رہا ہے اور اس پر دوبارہ جنگ مسلط کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے جس کی اطلاعات عالمی میڈیا کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر موصول ہو رہی ہیں۔طالبان کی جانب سے پاکستان پر حملے کے الزام میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ کابل پر پاکستانی فورسز نے حملہ کیا ہے، تاہم اس کے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے گئے۔ حملے کے وقت افغان وزیرِ خارجہ بھارت میں موجود تھے۔پاکستان پر حملوں کے پس منظر میں بھارت کے کردار کو کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ رواں سال مئی میں ہونے والی پاکستان بھارت جنگ کے دوران افغان نائب وزیرِ داخلہ نے خفیہ دورہ بھارت کیا تھا۔ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان۔بھارت گٹھ جوڑ اب کسی پردے میں نہیں رہا۔ بھارت خطے میں امن تباہ کرنے اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ہر حد پار کر رہا ہے، اور اب وہ طالبان حکومت کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک، افغان تنازع
  • پاک فوج کی افغان صوبے پکتیکا میں کارروائی، گل بہادر گروپ کے کئی ٹھکانے تباہ، 70 خوارج ہلاک
  • ویمنز ورلڈکپ: پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان میچ میں اوورز کم کردیے گئے
  • پاکستان کے پہلے ہائپراسپیکٹرل سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے کی تیاریاں مکمل 
  • افغان مسئلہ کا حل
  • 16 اکتوبر تک 14 لاکھ 77 ہزار سے زائد افغانیوں کو واپس بھیجا جا چکا، وزیراعظم کو بریفنگ
  • موبی لنک بینک نے ’بیسٹ پلیس ٹو ورک 2025‘ کا ایوارڈ اپنے نام کرلیا
  • طالبان کی درخواست پر 15 اکتوبر کی شام 6 بجے سے 48 گھنٹوں کی جنگ بندی نافذ کی گئی، ترجمان دفتر خارجہ
  • پاکستان کے خلاف را، خاد گٹھ جوڑ