data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تہران: ایرانی وزارتِ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ 2015 میں طے پانے والے ایٹمی معاہدے کی تمام شقیں ہفتے کے روز ختم ہو چکی ہیں، جس کے بعد ایران اب اس معاہدے کا پابند نہیں رہا،  ایران اب بھی سفارت کاری اور مذاکرات کے عمل کے لیے پرعزم ہے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ  ایران نے ہمیشہ عالمی ذمہ داریوں کا احترام کیا لیکن اب چونکہ معاہدے کی مدت پوری ہو چکی ہے، اس لیے ایران اپنے قومی مفادات کے مطابق فیصلے کرے گا۔

یاد رہے کہ 2015 میں طے پانے والے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن (JCPOA) معاہدے میں ایران، امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین شامل تھے، اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے اور یورینیم افزودگی کی سطح میں کمی پر رضامندی ظاہر کی تھی جبکہ اس کے بدلے ایران پر عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں ختم کر دی گئی تھیں۔

واضح رہےکہ یہ معاہدہ اس وقت عالمی سطح پر ایک بڑی سفارتی کامیابی قرار دیا گیا تھا، 2018 میں اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا، جس کے بعد ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی۔

ایرانی حکام نے زور دیا ہے کہ اگر مغربی ممالک تعمیری رویہ اپنائیں تو ایران سفارتی عمل جاری رکھنے کے لیے تیار ہے تاکہ خطے میں استحکام اور عالمی اعتماد کو بحال کیا جا سکے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے کو تیار ،مزید ممالک جلدشامل ہوں گے، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ

سعودی رہنماؤں کے ساتھ بہت اچھی گفتگو ہوئی،غزہ جنگ کے دوران ابراہیمی معاہدوں میں شریک ہونا ممکن نہیں تھا مگر اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں،مذاکرات دوبارہ شروع ہوسکتے ہیں
ایران کی طاقت کم ہوگئی ہے،خطے میں ایک نئی سفارتی صف بندی ابھر رہی ہے جس میں سعودیہ کی شمولیت امن اور استحکام کے نئے امکانات پیدا کرسکتی ہے،امریکی صدرکا فاکس کو انٹرویو

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی عرب بھی دیگر خلیجی ممالک کی طرح اسرائیل کے ساتھ ابراہیمی معاہدوں میں شمولیت کے لیے تیار ہے۔یہ انکشاف انھوں نے فاکس بزنس نیٹ ورک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ صدر ٹرمپ نے مزید بتایا کہ سعودی رہنماؤں کے ساتھ بہت اچھی گفتگو ہوئی ہے۔امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب کے لیے غزہ جنگ کے دوران ابراہیمی معاہدوں میں شریک ہونا ممکن نہیں تھا مگر اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔صدر ٹرمپ نے امید ظاہر کی کہ سعودی عرب کے ساتھ ابراہیمی معاہدے پر اب مذاکرات دوبارہ شروع ہوسکتے ہیں جو غزہ جنگ کی وجہ سے رک گئے تھے۔امریکی صدر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سعودی عرب کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا اُس وقت اس لیے بھی ممکن نہیں تھا کیوں کہ ایران مشرق وسطیٰ میں مؤثر طاقت رکھتا تھا۔صدر ٹرمپ نے جون میں اسرائیل اور امریکا کے ایران پر مشترکہ حملوں کا اشارہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ اب ایران کی طاقت کم ہوگئی۔انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید بتایا کہ ایران کی طاقت میں کمی کے بعد خطے میں ایک نئی سفارتی صف بندی ابھر رہی ہے جس میں سعودیہ کی شمولیت خطے میں امن اور استحکام کے نئے امکانات پیدا کرسکتی ہے۔خیال رہے کہ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب مشرق وسطیٰ میں بڑی تبدیلیوں خصوصاً اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کے حوالے سے کے بارے میں دوبارہ قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے پر تاحال سعودی عرب کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا جو ہمیشہ یہی مؤقف اختیار کرتا آیا ہے کہ 1967 کی سرحدوں پر خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر وہ کسی معاہدے کا حصہ نہیں بنے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ’تمام پابندیوں سے آزاد ہیں‘، ایرانی جوہری پروگرام پر 10 سالہ عالمی معاہدہ باضابطہ ختم
  • جوہری پروگرام کسی عالمی معاہدے کے پابند نہیں ہیں، ایران کا دوٹوک اعلان
  • تمام پابندیوں سے آزاد ہیں، ایرانی جوہری پروگرام پر 10 سالہ عالمی معاہدہ باضابطہ ختم
  • سلامتی کونسل کے نام خط
  • JCPOA ختم ہوگیا، 10 سال بعد ایران کو کیا ملا؟
  • ایران: جوہری معاہدہ ختم، اب کسی پابندی کے پابند نہیں
  • سعودی عرب ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے کو تیار ،مزید ممالک جلدشامل ہوں گے، ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ
  • استنبول میں ایرانی اپوزیشن کارکن فائرنگ سے ہلاک
  • ایران پاک افغان کشیدگی کم کرنے وسائل استعمال کریگا؛مسعود پزشکیان