اسرائیل کیوں حماس کو شکست نہیں دے سکتا؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
اپنی ایک رپورٹ میں امریکی جریدے کا کہنا تھا کہ بندوق کے زور پر کسی نظریے کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ حملوں میں جس قدر شدت آئے گی، اتنا ہی فلسطینی عوام کا نظریہ اور جدوجہد جاری رکھنے کا عقیدہ مضبوط ہوتا چلا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی جریدے نیشنل انٹرسٹ نے فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" کی دو سالہ جدوجہد کو ان الفاظ میں بیان کیا کہ غزہ کے کھنڈرات سے حماس کے ہزاروں فوجی ابھر رہے ہیں۔ حماس اب بھی باقی ہے اور محض فوجی کارروائیوں سے اس گروہ کو تباہ نہیں کیا جا سکتا۔
فلسطینی معاشرے میں حماس کی گہری جڑیں ہیں
واضح رہے کہ اسرائیلی اہلکار بارہا دعویٰ کر چکے ہیں کہ وہ حماس کو شکست دے سکتے ہیں، لیکن زمینی حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ حماس، محض ایک عسکری گروہ نہیں، بلکہ ایک سیاسی اور نظریاتی تحریک ہے جو فلسطینی معاشرے میں گہری جڑیں رکھتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسی تحریکوں کے ڈھانچے کو تباہ کیا جا سکتا ہے، ان کے رہنماؤں کو قتل کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے نظریے اور عقیدے کو ہمیشہ کے لئے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر جب یہ عقیدہ وطن کی محبت اور اپنی زمین کے تحفظ کے لئے فلسطینیوں کی عشروں پر محیط جدوجہد سے متصل ہو۔ نیشنل انٹرسٹ نے زور دے کر کہا کہ مکمل فتح کا صیہونی دعویٰ شروع دن سے ہی محض ایک سراب تھا۔
اس جریدے نے مزید کہا کہ غزہ میں اسرائیل کی جانب سے بڑی تعداد میں عام شہریوں کے قتل اور تباہی پھیلانے کے باوجود، حماس کے قیام کی بنیادی وجوہات اب بھی موجود ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک یہ حالات برقرار ہیں اور فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کیا جاتا، حماس کی جدوجہد جاری رے گی۔ اس امریکی جریدے نے زور دے کر کہا کہ بندوق کے زور پر کسی نظریے کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ حملوں میں جس قدر شدت آئے گی، اتنا ہی فلسطینی عوام کا نظریہ اور جدوجہد جاری رکھنے کا عقیدہ مضبوط ہوتا چلا جائے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نہیں کیا جا سکتا
پڑھیں:
جنگ بندی اور ٹرمپ کی ضمانتوں کے باوجود اسرائیلی جارحیت میں فلسطینی صحافی شہید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ سٹی:غزہ کے جنوبی علاقے میں اسرائیلی ڈرون حملے میں فلسطینی فوٹو جرنلسٹ محمود وادی شہید ہو گئے حالانکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ثالثی کردہ جنگ بندی معاہدے کے تحت علاقے میں امن قائم تھا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق وادی خان یونس کے مرکزی علاقے میں مارے گئے جو اسرائیل کے زیر کنٹرول زون میں شامل نہیں تھا، غزہ حکومت کے میڈیا دفتر کی جانب سے اس واقعے پر ابھی تک کوئی سرکاری بیان جاری نہیں ہوا۔
فلسطینی فوٹو جرنلسٹ کے والد عصام وادی نے بیٹے کی شہادت کو خیمے پر آنے والا زلزلہ قرار دیتے ہوئے اسے اسرائیلی قابض افواج کی جرم اور دھوکہ دہی کہا۔
شہید صحافی کے ساتھی محمد ابو عبید نے بتایا کہ محمود وادی انسانی خدمات اور محتاجوں کی مدد کے لیے مشہور تھے، وہ اپنے بیٹے کی پرورش کے منصوبوں کے بارے میں بات کر رہا تھا ۔
اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی میڈیا اداروں نے بارہا اسرائیل سے فلسطینی صحافیوں پر حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا مگر تل ابیب نے ان اپیلوں کو نظر انداز کیا۔
واضح رہےکہ غزہ میں اکتوبر 2023 سے اب تک ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد 257 ہو گئی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جنگ بندی کے بعد اسرائیلی حملوں میں کم از کم 367 فلسطینی ہلاک اور 900 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ حماس نے معاہدے کی مکمل پاسداری کی یقین دہانی کرائی ہے اور امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر عملدرآمد کے لیے دباؤ ڈالے۔