نواز شریف پہلے 70 ہزار جعلی ووٹوں کا جواب دیں، اگر اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف تھا تو اقتدار میں کیوں آئے؟ حافظ نعیم
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
جماعتِ اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو سب سے پہلے یہ بتانا ہوگا کہ وہ مبینہ طور پر 70 ہزار جعلی ووٹوں کی بنیاد پر کیسے جیتے اور انہیں اسمبلی تک کس نے پہنچایا۔
منصورہ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت فارم 47 پر کھڑی ہے، اس لیے نواز شریف کو حقائق پر مبنی گفتگو کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر واقعی اسٹیبلشمنٹ سے ان کے اختلافات تھے تو پھر وہ ایک بار پھر اقتدار میں کیوں آئے اور اسی کے ساتھ مل کر جمہوریت کو نقصان کیوں پہنچایا؟
حافظ نعیم نے مزید کہا کہ ن لیگ کی قیادت حالات کے مطابق کبھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے لگاتی ہے اور مفاہمت ہو جائے تو اسی کے حق میں نعرے بلند کرتی ہے۔ لہٰذا یہ بھی واضح کیا جائے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کا آخر کیا بنا۔
انہوں نے اپنے تین روزہ اجتماع عام کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ’بدل دو نظام‘ تحریک کے سلسلے میں ملک کے تمام بڑے شہروں کے امیران کا اجلاس بلا کر آئندہ حکمتِ عملی طے کر لی گئی ہے۔ ان کے مطابق ستائیسویں آئینی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے پر حملہ ہے، جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
انتخابی نظام پر بات کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ کبھی آر ٹی ایس اور کبھی فارم 47 یا 47 کے ذریعے حکومتیں بنائی جاتی ہیں۔ بیوروکریسی آج بھی نوآبادیاتی دور کی طرح عوام پر حکمرانی کر رہی ہے، جبکہ انتظامی اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے سے مسلسل گریز کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ خاندانی سیاسی جماعتیں اپنے ہی کارکنوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں، اسی لیے ایسے قوانین منظور کیے جاتے ہیں جو عوام دشمن ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق موجودہ فارم 47 والی پارلیمنٹ نے جو بلدیاتی قانون پاس کیا ہے وہ ’’کالا قانون‘‘ ہے، اور جماعت اسلامی اس کے خلاف عدالتوں اور سڑکوں دونوں پر جائے گی۔
حافظ نعیم نے کہا کہ مقامی حکومتوں کے اختیارات بحال کرنے کا مکمل لائحہ عمل تیار ہے اور سات اور آٹھ دسمبر کو پنجاب بھر میں اس قانون کے خلاف احتجاج ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں تعلیم، پولیسنگ اور بنیادی سروسز مقامی حکومتوں کے پاس ہوتی ہیں، مگر پاکستان میں ان اختیارات پر قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پنجاب میں مبینہ ماورائے عدالت قتل اور منشیات کے بڑھتے ہوئے کاروبار پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈرگ مافیا کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے اور تعلیمی اداروں تک منشیات کھلے عام پہنچ رہی ہیں۔ خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک کو آزادانہ فیصلہ کرنا ہوگا، امریکی دباؤ یا کسی رہنما کی چاپلوسی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
تعلیمی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 88 فیصد آبادی اعلیٰ تعلیم سے محروم ہے جبکہ تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی بھی تشویش ناک حد تک خراب ہے۔
انہوں نے سندھ حکومت کو کراچی میں بدترین بدعنوانی کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ صوبے میں ڈاکو راج برقرار ہے۔ بلوچستان میں پانی اور بجلی کے بحران کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی وہاں بھی اپنی تحریک جاری رکھے ہوئے ہے۔
آخر میں حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ جماعت اسلامی امن، شہری سہولیات، بلدیاتی حقوق اور آئینی حکمرانی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور اگر ضرورت پڑی تو بڑے دھرنے اور اسمبلیوں کے گھیراؤ سمیت ہر جمہوری راستہ اختیار کیا جائے گا تاکہ ’بدل دو نظام‘ کی تحریک حقیقی تبدیلی لاسکے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ ہوئے انہوں نے کرتے ہوئے ان انہوں نے کہ حافظ نعیم
پڑھیں:
ستائیسویں ترمیم کی منظوری جبری اور جعلی تھی، فضل الرحمٰن
پریس کانفرنس کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ اجلاس میں ستائیسویں آئینی ترمیم اور بعض ایسے قوانین جو پارلیمنٹ سے پاس کیے گئے، پر غور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی نے ستائیسویں آئنی ترمیم کو کلیتاً مسترد کردیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ستائیسویں ترمیم کی منظوری جبری اور جعلی تھی، ترمیم لانے والی قوتوں کی عزت نہیں بڑھی۔ پارٹی کی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ اجلاس میں ستائیسویں آئینی ترمیم اور بعض ایسے قوانین جو پارلیمنٹ سے پاس کیے گئے، پر غور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی نے ستائیسویں آئنی ترمیم کو کلیتاً مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ہمارے اراکین نے اس ترمیم کی مخالفت کی۔ مجلس شوریٰ نے اپنی جماعت کے پارلیمنٹیرینز کے اس فیصلے کی توثیق کردی۔ مولانا فضل الرحمن نے بتایا کہ 26ویں ترمیم کے حوالے سے ہم پی ٹی آئی کو ہر پیشرفت سے آگاہ کرتے رہے۔ پی ٹی آئی کی تجاویز پر ہم حکومت کو مجبور بھی کرتے رہے۔ وہ ترمیم باہمی مشاورت کے عمل سے گزری تھی۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ترمیم پارلیمنٹ میں قدرے متفقہ طور پر منظور ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ 27ویں ترمیم کے دوران ان کا فرض تھا کہ وہ اپوزیشن سے مشاورت کرتے۔ کم ازکم جے یو آئی سے مشاورت کرتے۔ انہوں نے ایک فریق کو نظر انداز کیا۔ یہ دوتہائی اکثریت جبری اور جعلی تھی۔ یہ سب کچھ پارلیمنٹ اور جمہورہت کے منافی ہوا۔ جو قوتیں اس ترمیم کو لانے پر مصر تھیں ان کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ عوام میں حکومت کی مقبولیت بڑی تیزی سے گری۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 26 ویں ترمیم میں حکومت جن چیزوں سے دستبردار ہوئی، آج پارلیمنٹیرینز کا ہاتھ مروڑ کر انہیں پاس کیا۔ ترمیم لاکر ایسی پیچیدگیاں پیدا کی گئیں کہ خود عدالت کو بھی سمجھ نہیں آرہا۔ اصولی طور پر جے یو آئی آئینی عدالت کے حق میں تھی۔ جب آئین بن رہا تھا، اس وقت بھی پارٹیوں کا موقف مختلف تھا۔