پاکستان میں غربت اور اس کا حل
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
محسن باقری
عالمی بینک نے پاکستان میں غربت کی رپورٹ شائع کی ہے اس کے مطابق رپورٹ میں جہاں شماریاتی اعداد وشمار 25 برس کے سرکاری گھریلو سرویز نئے اور مختلف ذرائع معلومات استعمال کیے جاتے ہیں اس کے مطابق قومی غربت کی شرح 2001-02 میں 64.
پاکستان میں قطع نظر (ن) لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی یا پی ڈی ایم کسی کا بھی دور حکمرانی ہو یا اس سے قبل، ہمیشہ حکمرانوں کی جانب سے شادیانے بجائے جاتے رہے کہ پاکستان معاشی طور سے مستحکم ہو رہا ہے اور آئندہ آنے والے برسوں میں تو خوشحالی کی نوید ہی نوید ہے۔ کبھی پاکستان کے سمندر میں پٹرول کے نئے کنوؤں کی دریافت کی نوید کبھی کسی ملک کے ساتھ تجارتی معاہدوں کی نوید، رہی سہی کسر موجودہ حکمرانوں نے پوری کر دی جو ہر کچھ عرصے بعد اسی بات پر خوشی کے شادیانے بجاتے رہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ ٹی وی چینلوں پر متواتر اس بات کا انکشاف کیا جاتا رہا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح کم ہو گئی جبکہ عام آدمی حیران اور پریشان ہو جاتا تھا کہ یہ کس ملک کی باتیں اور کن حکمرانوں کے چرچے ہو رہے ہیں۔ ہر دوسرے دن روزمرہ استعمال کی چیزیں چاہے وہ آٹا دال چاول ہو یا سبزیاں پھل یا روز مرہ کے استعمال کی گھریلو اشیا، ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ کے مِصداق حقیقی قیمتوں اور مہنگائی کا گراف اوپر ہی جاتا رہا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چشم کشا حقائق پر مبنی ان رپورٹس کے مطابق صورتحال تو بد سے بدتر کی طرف جاری ہے لیکن حکومتی اعلیٰ ترین عہدیدار نہ جانے کیوں اور کس کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں۔ عالمی بینک نے حقائق بیان کرنے کے ساتھ معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کچھ تجاویز بھی دی ہیں وہ اپنی جگہ پر اہمیت کی حامل صحیح لیکن پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہونے کے ناتے کچھ علٰیحدہ پیراؤں میں سوچ بچار کرنا ہوگا اور اس کی بنیاد پر اپنے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسے حل کی طرف جانا ہوگا جو صرف ایک خیال ہی نہیں بلکہ علمی اور عملی پیرائے میں حقیقت پسندانہ بھی ہو اور پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم اور اپنے پیروں پر عزت نفس کے ساتھ نہ صرف کھڑا کر سکے بلکہ اقوام عالم کے لیے بھی ایک مثال بن کر ترقی کی شاہراہ پر ممتاز اہمیت کا حامل ہو۔ اس حوالے سے ابتدائی طور پر دو جہتوں میں ماہرین کی زیر نگرانی معاشی طور سے مستحکم ہونے کے لیے پیش قدمی کیے بغیر کوئی اور چارہ کار نہیں۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ امریکی محکمہ زراعت (USDA) کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں پاکستان گندم کی پیداوار میں آٹھویں نمبر پر، چاول کی پیداوار میں نویں نمبر پر کپاس اور گنے کی پیداوار میں نمایاں ہے، لیکن اس کے باوجود یہاں غربت، بے روزگاری، محتاجی، بھوک اور افلاس کے ڈیرے ہیں، اس کا سبب ہماری نالائقی، کرپشن اور بد انتظامی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟۔پاکستان کے پاس 79 ملین ہیکٹر زمین ہے اس میں سے تقریباً چوتھائی حصہ زیر استعمال ہے باقی بنجر پڑی ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان اپنے وسائل سے گندم چاول شکر اور اس کی مصنوعات، کاٹن اور اس کی مصنوعات اور دیگر اجناس میں بتدریج اپنی پیداوار بڑھا کر دنیا بھر میں نئی منڈیوں کی تلاش اور تجارت میں وسعت دیتا۔ عرب ممالک خصوصی طور سے سعودی عرب جیسے ملک کو ہدف بناتا جو گندم، جو اور مکئی کی ضروریات امریکا، آسٹریلیا، ارجنٹائین ہندوستان وغیرہ سے پوری کرتا رہا ہے، اسی طرح گوشت اور دیگر مصنوعات ہیں، متعلقہ وزارتوں سفارت خانوں کے کمرشل سیکشن اور تعینات عملہ کا اور کیا مصرف ہے؟۔
دسمبر 2023 کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں انفرادی انکم ٹیکس دینے والے افراد 37 لاکھ کے قریب تھے اگر اسے ہی شمار کیا جائے تو اس کے متوازی زکواۃ دینے والوں کی تعداد کا تخمینہ سوا سات کروڑ افراد ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی مارچ 2023ء میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زکوٰۃ کی مد میں 30 کھرب روپے وصولی کا تخمینہ لگایا گیا ہے، اس رقم سے خط غربت کے نیچے بسنے والے 10 کروڑ افراد کی مدد کی جا سکتی ہے۔ حکومت کے زیر انتظام زکوٰۃ کی مد میں 10 ارب روپے جمع کیے گئے، کہاں 10 ارب روپے اور کہاں 30 کھرب روپے۔ ماہ صیام کا آغاز ہونے سے پہلے بینکوں سے رقوم نکلوانا اس نظام پر عدم اعتماد کا واضح اظہار ہے۔ سود سے پاک معیشت اور نظام زکواۃ اس سب کے لیے درد دل رکھنے والے کچھ کر گزرنے کے لیے قربانی کا جذبہ رکھنے والے پر خلوص ماہرین اور ایسی ہی ٹیم کی ضرورت ہے لیکن اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ نا اہل لوگ ہم پر مسلط ہیں، نہ رہے بانس نہ بجے بانسری کے مصداق معاصر روزنامہ جنگ 8 مارچ 2025 کے مطابق صوبہ بلوچستان میں صوبائی محکمہ زکوٰۃ کو ہی ختم کر دیا گیا انہوں نے کہا کہ محکمہ زکوٰۃ بلوچستان سالانہ 30 کروڑ روپے مستحقین میں تقسیم کرتا ہے۔ اس رقم کی تقسیم کے لیے محکمے کے سالانہ 1 ارب 60 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ تقسیم کے لیے محکمہ زکوٰۃ کے پاس 80 گاڑیاں ہیں، گزشتہ 2 برس سے مستحقین میں زکوٰۃ کی رقم تقسیم نہیں کی گئی۔ اْن کا کہنا تھا کہ 30 کروڑ روپے کی رقم ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے غریبوں میں تقسیم کرائیں گے، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس میں سے بیش تر رقم کا کیا مصرف ہو گا۔
یہ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ جہاں بھی کوئی اچھی مثال قائم کی گئی اس کی پذیرائی تو دور کی بات ہے اسے سیاسی تعصبات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ صوبہ KP میں جماعت اسلامی کے سینئر وزیر اور وزیر خزانہ سراج الحق کے دور میں ایک ایکٹ کے تحت سودی بینکوں کی نئی برانچ کھولنے پر پابندی لگائی گئی تھی، 26 ہزار لوگوں نے سودی بینکاری چھوڑ کر خیبر بینک میں اسلامی بینکاری کی، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ تین سال میں KP قرض فری صوبہ بن گیا، تمام غیر ترقیاتی اخراجات اور بڑے بڑے فنکشنز کے ہوٹلوں میں انعقاد پر پابندی لگائی، کرپشن کو ختم کیا، اس بچت سے اتنا پیسہ ملا کہ میٹرک تک تمام طلبہ کو مفت کتابیں مہیا کی گئیں۔ کیا وجہ ہے کہ آج وہی صوبہ قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے؟۔
فارم 45 کو 47 کر دیں یا فارم 47 کو 45 یا ان سب کے حامل ہوں، سود کا خاتمہ اور نظام زکوٰۃ نہ ان کی ترجیحات میں ہیں اور نہ کوئی ’’اسٹڈی‘‘ یا منصوبہ۔ PDM 1 کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی سر براہی میں، پی ڈی ایم کے دور حکمرانی میں شرح سود 17 فی صد سے بڑھ کر 21 اور 22.7 فی صد ہو گئی تھی۔ دیگر جہتیں مثلاً صنعت، درآمدات و برآمدات اور دوسرے معاشی پیراؤں کی اہمیت اپنی جگہ پر لیکن سود جیسی لعنت اور اللہ کی ناراضی کو مول لیتے ہوئے اسلام کی نام لیوا مملکت اور اس کے باشندے کیسے پھل پھول سکتے ہیں، اسلامی نظام کی برکات نہ صرف معاشی طور سے مملکت کو مستحکم اور باشندوں کو آسودہ کر سکتی ہے بلکہ دہشت گردی اور بے اطمینانی کا خاتمہ کر کے معاشرہ کو امن و آشتی کا گہوارہ بنا سکتی ہیں، شاید من حیث القوم ہمیں یقین نہیں جب کہ قرآن کریم تو ہمیں ان ہی باتوں کا یقین دلاتا ہے۔
سیف اللہ
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان میں کہ پاکستان کے مطابق نے والے اور اس کی گئی کے لیے
پڑھیں:
تاریخی اضافے کے بعد سونا سستا، فی تولہ قیمت میں نمایاں کمی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں سونے کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے بعد بالآخر بڑی کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جس نے خریداروں اور سرمایہ کاروں دونوں کو حیران کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں کمی کے اثرات مقامی مارکیٹوں پر بھی واضح طور پر نظر آئے۔ آل پاکستان صرافہ بازار ایسوسی ایشن کے مطابق فی تولہ سونا 10 ہزار 600 روپے سستا ہو کر 4 لاکھ 46 ہزار 300 روپے پر آگیا ہے، جب کہ 10 گرام سونے کی قیمت میں 9 ہزار 88 روپے کمی کے بعد نئی قیمت 3 لاکھ 82 ہزار 630 روپے ہو گئی ہے۔
بین الاقوامی منڈی میں بھی سونا 106 ڈالر سستا ہوا، جس کے بعد فی اونس سونا 4 ہزار 252 ڈالر پر ٹریڈ ہونے لگا۔ ماہرین کے مطابق عالمی سطح پر ڈالر کی قدر میں بہتری اور سرمایہ کاروں کی جانب سے سونا فروخت کرنے کے رجحان میں اضافے کے باعث یہ بڑی کمی سامنے آئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر عالمی مالیاتی منڈیوں میں یہ رجحان برقرار رہا تو آئندہ دنوں میں سونے کی قیمتوں میں مزید کمی کا امکان ہے۔