ڈی ایچ کیو اسپتال وانا شدید مالی بحران کا شکار، ملازمین 10 ماہ سے تنخواہوں سے محروم
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
جنوبی وزیرستان لوئر کا سب سے بڑا طبی مرکز، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال وانا، ایک سنگین مالی بحران میں مبتلا ہے۔ جدید عمارت، بہتر انفراسٹرکچر اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے کے باوجود، یہ اسپتال گزشتہ 10 ماہ سے فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث مکمل طور پر مفلوج ہوتا جا رہا ہے۔ اسپتال کے 33 کروڑ روپے کے واجبات تاحال ادا نہیں کیے گئے، جبکہ ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملہ کئی ماہ سے تنخواہوں کے بغیر کام کرنے پر مجبور ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سرکاری اسپتال لیڈی ریڈنگ کے روم چارجز 10 ہزار روپے مقرر، اصل ماجرا کیا ہے؟
ہیلتھ منیجر ڈی ایچ کیو وانا جان محمد نے بتایا کہ ہماری تنخواہیں گزشتہ 10 ماہ سے بند ہیں۔ عملہ شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے، مگر ہم مریضوں کی خدمت کے جذبے سے کام کر رہے ہیں۔ تاہم، یہ صورتحال زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتی۔
صحت کی سہولیات بہتر، مگر فنڈز کی بندش خطرہ بن گئیپبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (PPP) کے تحت 2022 میں اسپتال کا انتظام ایک غیر سرکاری تنظیم کے سپرد کیا گیا تھا، جس کے بعد سے علاج کی سہولیات میں نمایاں بہتری آئی۔ اسپتال میں روزانہ 800 سے 1 ہزار مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے اور سرجری، گائنی سمیت دیگر اہم شعبے مؤثر انداز میں کام کر رہے ہیں۔
تاہم، فنڈز کی بندش نے اس ترقی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ عملے کو خدشہ ہے کہ اگر بروقت ادائیگیاں نہ کی گئیں تو اسپتال کی خدمات مزید محدود ہو سکتی ہیں اور کئی اہم شعبے بند ہو سکتے ہیں، جس سے لاکھوں شہری متاثر ہوں گے۔
3 اسپتال متاثر، ہزاروں مریض مشکلات کا شکارصرف ڈی ایچ کیو وانا ہی نہیں، بلکہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت جنوبی وزیرستان لوئر میں چلنے والے تینوں بڑے اسپتال اس مالی بحران کا شکار ہیں۔ ان میں شیخ فاطمہ اسپتال شولام اور تحصیل توئی خلہ اسپتال شامل ہیں، جو بالترتیب ٹی سی پی کے زیر انتظام ہیں۔
ان اسپتالوں میں بہتری کے بعد مریضوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے، لیکن مالی عدم استحکام نے اس نظام کو غیر یقینی صورتحال میں دھکیل دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 8500 پر شناختی کارڈ نمبر بھیجیں اور صحت کارڈ پروگرام سے فائدہ اٹھائیں، ارشد قائم خانی
شہریوں کا کہنا ہے کہ یہاں علاج کی سہولتیں موجود ہیں، مگر جب عملے کو تنخواہیں نہیں ملتیں تو سروسز بھی متاثر ہوتی ہیں۔
حکومت سے فوری مداخلت کا مطالبہمقامی قبائلی عمائدین، سیاسی نمائندوں اور شہریوں نے چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا اور خیبرپختونخوا ہیلتھ فاؤنڈیشن سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے کہ اسپتالوں کے لیے فنڈز جاری کیے جائیں، عملے کو تنخواہیں ادا کی جائیں اور صحت کے اس اہم نظام کو تباہی سے بچایا جاسکے۔
ہیلتھ منیجر جان محمد کا کہنا ہے کہ ہم نے متعدد بار اعلیٰ حکام کو صورتِ حال سے آگاہ کیا، مگر ابھی تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو خدشہ ہے کہ قیمتی انسانی جانیں متاثر ہوں گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news جان محمد خیبرپختونخوا ڈسٹرکٹ اسپتال ڈی ایچ کیو اسپتال وانا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: خیبرپختونخوا ڈسٹرکٹ اسپتال ڈی ایچ کیو اسپتال وانا ڈی ایچ کیو ماہ سے
پڑھیں:
اگر ہم متاثر کُن نہ ہوتے تو ہمیں اتنا نشانہ نہ بنایا جاتا، سربراہ حزب الله لبنان
اپنے ایک خطاب میں شیخ نعیم قاسم کا کہنا تھا کہ لبنان کے خارجہ تعلقات، دفاعی اسٹریٹجی اور صلاحیتوں کی مضبوطی سے امریکہ و اسرائیل کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اسلام ٹائمز۔ لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" کے سیکرٹری جنرل "شیخ نعیم قاسم" نے کہا کہ اگر ہم متاثر کن نہ ہوتے تو ہمیں چاروں طرف سے نشانہ نہ بنایا جاتا۔ تاہم جلد ہی یہ تمام حملے ناکام ہوں گے اور ہمارا عزم مزید پختہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بعض جماعتیں، مقاومت کی مخالفت کرتی ہیں کیونکہ ہم حب الوطنی، عزت و آزادی پر مبنی تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں حالانکہ استعمار ایسا نہیں چاہتا۔ انہوں نے کہا کہ حزب الله نے ثابت کیا کہ وہ ملی سطح پر قطب کی حیثیت رکھتی ہے کہ جو دوسروں کو اپنے گرد اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاکہ سب لوگ وسیع مقاومت کا حصہ بن سکیں۔ انہوں نے پاپ لئیو کے دورہ لبنان پر حزب الله کے ردعمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کچھ شرپسند عناصر نے اصل موضوع پر توجہ دینے کی بجائے حزب الله کے موقف پر تنقید شروع کر دی۔ حزب الله کا تجربہ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ یہ گروہ نہ تو تنہائی کا شکار ہوا اور نہ ہی اپنی مرضی دوسروں پر مسلط کرتا ہے بلکہ ہم نے ہمیشہ تعاون کیا اور اپنا ماضی کا تجربہ پیش کیا۔ لبنان کے اندر سیاسی اختلافات فطری ہیں، لیکن یہ سیاسی اختلافات آئین اور قانون کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔
شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا کہ ہم سب کے ساتھ ملک کی بحالی اور اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے تعاون کریں گے۔ ہمارا عمل اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس امر کو ثابت کرنے کے لئے ہمیں نہ تو کسی گواہی کی ضرورت ہے اور نہ ہی وضاحت دینے کی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اب بھی اسرائیلی خواہشات کی تکمیل کے لئے بولتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ صیہونی جرائم کا جواز پیش کرتے ہیں۔ وہ اسرائیلی مطالبات کی بات کرتے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ میرے بھائی کیا تم اسرائیل کے وکیل ہو؟۔ کہ جو اسرائیل کی وکالت کرتے ہو، یا اس سے پیسے لیتے ہو۔ انہوں اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ اسرائیلی جارحیت کا مقصد حزب الله کو غیر مسلح کرنا نہیں، بلکہ بتدریج اپنے قبضے کو وسیع کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کے اندرونی معاملات میں امریکہ اور اسرائیل کو دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے۔ ہتھیاروں کا موضوع، خارجہ تعلقات، دفاعی اسٹریٹجی اور صلاحیتوں کی مضبوطی سے امریکہ و اسرائیل کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ موضوع بھی روشن ہے کہ امریکہ و صیہونی رژیم صرف ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے ہم اپنا اور اپنی سرزمین کا دفاع جاری رکھیں گے، نہ ہتھیار ڈالیں اور نہ ہی پیچھے ہٹیں گے۔ ہم اسرائیل، امریکہ اور ان کے حواریوں کو چنداں اہمیت نہیں دیتے۔