data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مچھر وہ کیڑے ہیں جو ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کرتے ہیں۔ تاہم زمین کے دو خطے — براعظم انٹارکٹیکا اور یورپی ملک آئس لینڈ — ایسے تھے جہاں اب تک مچھر نہیں پائے گئے تھے۔ مگر اب تاریخ میں پہلی بار آئس لینڈ میں مچھروں کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت نے اس سرد ترین ملک کو بھی ان کیڑوں کے لیے قابلِ رہائش بنا دیا ہے۔

سائنسدانوں نے کچھ عرصہ قبل پیشگوئی کی تھی کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث آئس لینڈ میں مچھر جلد ظاہر ہوسکتے ہیں، تاہم ان کا خیال تھا کہ ملک کا سخت اور طویل سرد موسم ان کے زندہ رہنے کے لیے موزوں نہیں ہوگا۔ لیکن اب وہاں کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے یہ صورتحال بدل دی ہے۔ رپورٹس کے مطابق آئس لینڈ میں درجہ حرارت شمالی نصف کرے کے دیگر ممالک کی نسبت تقریباً چار گنا تیزی سے بڑھ رہا ہے، گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں، اور گرم پانیوں میں پائی جانے والی مچھلیوں کی نئی اقسام بھی وہاں دیکھی جا رہی ہیں۔

نیچرل سائنس انسٹیٹیوٹ آف آئس لینڈ کے ماہر میتھائس الفروسن نے مچھروں کی موجودگی کی تصدیق کی اور بتایا کہ انہوں نے خود آئس لینڈ کے علاقے Kiðafell میں مچھروں کی تین مختلف اقسام کو شناخت کیا ہے۔ یہ تمام اقسام عام طور پر سرد خطوں میں پائی جاتی ہیں اور بظاہر آئس لینڈ کے بدلتے موسم میں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

اب تک یہ واضح نہیں کہ یہ مچھر وہاں تک کیسے پہنچے، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ وہ ممکنہ طور پر بحری جہازوں یا کارگو کنٹینرز کے ذریعے آئس لینڈ پہنچے۔

ویب ڈیسک مقصود بھٹی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: آئس لینڈ

پڑھیں:

پاک افغان امن معاہدہ کتنا دیرپا ہے؟

یہ تو سب نے سن لیا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا۔ خواجہ آصف نے ملا یعقوب کو شکست فاش دی۔ قطر اور ترکیہ ضامن بنے۔ معاہدے کی شقوں پر عمل نہ ہونے کی صورت میں دونوں فریق سہ ماہی جائزہ لیں گے۔ یہ وعدہ کیا گیا کہ افغانستان سے اب دراندازی نہیں ہوگی، مہاجرین کے ساتھ بھی نرمی اختیار کی جائے گی۔

میڈیا کو بھی آگ بھڑکانے سے اجتناب کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اب تجارت کے راستے بھی کھل جائیں گے۔ اطراف کے عوام خوشحالی کا منہ دیکھیں گے۔ جنگ و جدل بند ہوگا اور دہشتگردی کو شکست دی جائے گی۔

معاہدے کی سب شقیں خوش آئند ہیں، لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ یہ معاہدہ کتنا دیرپا ہے؟ یا یہ جنگ بندی عارضی ثابت ہوگی؟ امن کی کیفیت کی ضمانت کب تک ہے؟ بم دھماکوں اور دہشتگردی کے واقعات میں وقفہ کب تک رہے گا؟ امن کی خواہش ایک ارفع خواہش ہے مگر کیا اس خواہش پر عمل پیرا ہونا ممکن ہے؟ کیا افغانستان میں دہائیوں سے جاری جنگی صورتِ حال کو بدلا جا سکتا ہے؟ کیا دہشتگردی کے تاجروں کو کوئی اور روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے؟ کیا جنگ کے گرد گھومتے افغانوں کا طرزِ زندگی اور طرزِ معاش تبدیل کیا جا سکتا ہے؟

پاکستان نے تقریباً 45 برس افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھایا۔ بے سر و سامان حال میں آنے والے ان مہاجرین کو اپنی مملکت میں سر چھپانے کی جگہ دی گئی۔ روس کے استبداد سے بچ کر یہاں آنے والے ان مفلوک الحال لوگوں کے لیے یہ ایک جواب تھا۔

ایران میں بھی مہاجرین گئے مگر وہاں انہیں شہروں میں داخلے کی ممانعت رہی۔ وہاں دور دراز ویرانوں میں کیمپ بنائے گئے اور پھر انہیں ان کیمپوں سے نکلنے نہیں دیا گیا۔ یہ مہاجرین آج بھی انہی کیمپوں میں رہتے ہیں مگر ایرانی طرزِ معاشرت، معیشت اور حکومت کا حصہ نہیں بن سکے۔

دوسری طرف پاکستان نے اپنے سارے دروازے افغان مہاجرین کے لیے کھول دیے۔ انہیں اپنے گھروں میں جگہ دی گئی۔ انہیں جائیداد خریدنے کی اجازت ملی۔ انہیں کاروباروں میں سہولت فراہم کی گئی۔ یہاں تک کہ اسلام آباد کے بہت سے علاقے ان کے ’زیرِقبضہ‘ رہے۔ ان علاقوں سے گزریں تو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کابل کے کسی بازار سے گزر رہے ہیں۔ ان کے رشتے ہمارے ساتھ بن گئے۔ ان کی نسلیں یہاں جوان ہوئیں، اور ان کے بچوں نے یہاں کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔

45 برس بہت طویل عرصہ ہوتا ہے۔ اس عرصے میں 2 نسلیں آگے بڑھ جاتی ہیں۔ بچہ پیدا ہو کر جوان اور درمیانی عمر کو پہنچ جاتا ہے، اور ایک اور نسل پیدا ہو کر جوان ہو چکی ہوتی ہے۔

اتنے برس کوئی جانور بھی ساتھ رہے تو مکمل وفادار بن جاتا ہے؛ کوئی اپنے محسنوں سے دغا نہیں کرتا۔ اتنے برس میں کمائے گئے احسانات کو ہلکا نہیں سمجھا جاتا۔ جس ملک میں 45 سال گزارے ہوں، اس ملک سے دغا نہیں کرنا چاہیے؛ وہاں کے احسانات اور وہاں کی حرمت کو تسلیم کرنا چاہیے۔

لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے تمام تر احسانات کے باوجود بعض طالبانوں نے ہم سے وفا نہیں کی۔ جہاں جہاں موقع ملا، اس دھرتی کو نقصان پہنچایا گیا۔ کبھی بم دھماکے کیے گئے، کبھی اغوا برائے تاوان میں ملوث پائے گئے، کبھی دہشتگردی میں ان کا نام سامنے آیا۔ کبھی جعفر ایکسپریس واقعے سے ان کے رابطے نکلے، کبھی اسکولوں پر حملوں میں ان کے نام آئے۔ تخریب کاری کے کئی واقعات ان کے نام ہوئے۔ ہماری مساجد اور مدرسوں میں بم نصب کیے گئے؛ ہمارے گھروں کو جلایا گیا۔

اس لیے اس معاہدے پر شک کی وجہ واضح ہے۔ وہ لوگ جو ہمارے احسانات کو بھول گئے، انہوں نے ہمارے بچوں کا قتل کیا، انہوں نے مساجد کو میدانِ کارزار بنایا، انہوں نے ہمارے بازاروں میں خوف پھیلایا اور ان کے ذریعے سرحد پار سے دہشتگرد آتے رہے۔ یہ سب وہی لوگ ہیں جنہیں ہمارا ممنون احسان ہونا چاہیے تھا، انہیں ہمارے ساتھ وفاداری دکھانی چاہیے تھی۔لیکن انہوں نے احسان فراموشی ہے کا مظاہرہ کیا بلکہ اگر اسے زیادہ سخت نہ سمجھا جائے تو  یہ نمک حرامی ہے۔

اس معاہدے کی ایک وجہ ہماری جوابی کارروائیاں بھی ہیں۔ پہلی بار ہم نے صرف مذمت نہیں کی بلکہ بدلہ بھی لیا۔ ہمیں سبق سکھایا گیا۔ دہائیوں سے پھیلی بے بسی کو پسِ پشت رکھا گیا اور سرحد پار بھی یہ پیغام دیا گیا کہ ہم دوستوں سے محبت کرتے ہیں مگر جو دوست کے روپ میں دشمن بنے، انہیں بھی پہچانتے ہیں۔ پہلی بار ہمارا ردِ عمل اتنا شدید تھا کہ مذاکراتی میز کے سوا افغانوں کے پاس اور کوئی چارہ نہ رہا۔ امن معاہدے پر دستخط کرنے کے سوا کچھ اور ممکن نہ تھا۔

موجودہ پاک افغان کشیدگی میں پہلی بار یہ بات واضح ہوئی کہ ہارڈ سٹیٹ کیا ہوتی ہے اور اس کی ضرورت کس بنا پر پیش آچکی ہے۔

ہارڈ سٹیٹ سے مراد یہ ہے کہ اگر ہمارے خلاف افغانستان سے دہشتگردی کے حملے ہوں تو ہم صرف تعزیت نہیں کریں گے، صرف ورثاء کے لیے انعامی رقم کا اعلان بھی نہیں کریں گے، بلکہ اس کا بدلہ بھی لیں گے اور آخری حد تک لینے کے حق میں ہوں گے۔ ہم نے صرف تعزیتیں نہیں کرنی بلکہ مجرموں کو کیفرِ کردار تک بھی پہنچانا ہے۔ ہم نے صرف مرنے والوں کے لیے دعائیں نہیں کرنی بلکہ زندہ بچ جانے والوں کی سلامتی کے لیے اقدام بھی کرنا ہے۔

بات اب صرف افغان سرحد تک محدود نہیں ہارڈ سٹیٹ نے ہر اس فرد اور ادارے کو قانون کے دائرے میں لانا ہے جو ان مجرموں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ چاہے اس کا تعلق میڈیا سے ہو، کاروباری شخصیات سے ہو، کوئی مذہبی انتہا پسند جماعت ہو، صوبائی حکومت ہو، یا سوشل میڈیا پر ملک کے خلاف صفحات چلانے والے افراد ہوں۔ اب ہارڈ سٹیٹ کسی نرمی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اور یہ فیصلہ ہر قسم کی سیاست، مفاہمت اور مصلحت سے بالاتر ہے۔ یہی بات حتمی اور اٹل ہے، اور اسی پر ہمارا محفوظ مستقبل منحصر ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان آئیڈل کے ججز پر تنقید توجہ حاصل کرنے کے لیے ہے‘، موسیقار ہارون شاہد کا حمیرا ارشد کو جواب
  • بھارتی صدر کا ہیلی کاپٹر لینڈ کرتے ہی ہیلی پیڈ زمین میں دھنس گیا، ویڈیو وائرل
  • آئس لینڈ میں پہلی مرتبہ مچھر دریافت
  • ’پاکستان آئیڈل میں ایسے جج بیٹھے ہیں جن کا موسیقی سے تعلق نہیں‘، حمیر ارشد کی فواد خان پر تنقید
  • جو قبر جہاں ہے وہیں رہے گی لیکن قبر پر چندہ اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے:عظمیٰ بخاری
  • جس طرح معرکہ حق جیتا ایسے ہی معرکہ ترقی جیتنا ہے، احسن اقبال
  • سارے اداروں کا بیڑہ غرق کردیاگیا،جہاں سنیارٹی ڈسٹرب ہوئی وہاں مسائل نے جنم لیا، کسی کوپسندیدہ اور کسی کو رشتہ دار اوپر لانا ہوتا ہے،جسٹس محسن اختر کیانی کے ریمارکس
  • ہوٹل کے کمرے میں جنات تھے، اداکارہ حرا سومرو نے دل دہلا دینے والا واقعہ سُنا دیا
  • پاک افغان امن معاہدہ کتنا دیرپا ہے؟