ترکیہ جدید لڑاکا طیارے خریدنے کے لیے بے چین
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ (مانیٹر نگ ڈ یسک )ترکیہ نے اپنی فضائی طاقت کو مضبوط بنانے کے لیے یورپی اتحادیوں اور امریکا کو ایسے طریقے تجویز کیے ہیں جن کے ذریعے وہ جدید جنگی طیارے جلدی حاصل کر سکے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق نیٹو کا رکن ملک ترکیہ، جو اتحاد کی دوسری بڑی فوج رکھتا ہے، مغرب کے ساتھ حالیہ برسوں میں بہتر ہوتے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی فضائیہ کے لیے 40 یورو فائٹر ٹائفون طیارے حاصل کرنا چاہتا ہے (جس کے لیے جولائی میں ایک ابتدائی معاہدہ طے پایا تھا) اور بعد ازاں امریکی ساختہ ایف-35 طیارے بھی لینا چاہتا ہے، حالانکہ واشنگٹن کی پابندیاں اس وقت کسی معاہدے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔دوسری جانب، مشرقِ وسطیٰ کی سب سے جدید فوج رکھنے والے اسرائیل کے پاس امریکا کے فراہم کردہ سیکڑوں ایف-15، ایف-16 اور ایف-35 لڑاکا طیارے ہیں — کے ایران، شام، لبنان اور قطر پر حالیہ حملوں نے ترکیہ کو پچھلے سال سے تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں نے ترکیہ کی کمزوریاں بے نقاب کر دیں، جس کے باعث انقرہ نے اپنی فضائی صلاحیتوں میں تیزی سے اضافہ کرنے کی مہم شروع کی تاکہ ممکنہ خطرات کے مقابلے میں غیر محفوظ نہ رہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
میانمار میں فوج کی وحشیانہ کارروائی، رخائن کے اسپتال پر فضائی حملہ، 31 ہلاکتیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میانمار کی فوج نے اپنی ریاست رخائن کے شہر مروک او میں واقع اسپتال پر فضائی حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 31 افراد جاں بحق اور 68 زخمی ہوگئے۔
ریسکیو اہلکاروں کے مطابق زخمیوں میں اسپتال میں زیر علاج افراد شامل ہیں اور ہلاکتوں میں مزید اضافے کا بھی خدشہ ہے۔
میانمار کی فوج نے 28 دسمبر کو انتخابات کے آغاز کا اعلان کیا ہے، تاہم جمہوریت کے حامی اور باغی گروہ اس عمل کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 2021 میں میانمار میں فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرچکی ہے، اور تب سے ملک شدید خانہ جنگی کا شکار ہے۔
فوج کی جانب سے مختلف گروہوں کے خلاف فضائی کارروائیوں میں شہری ہلاکتیں معمول بن گئی ہیں، اور اسپتال پر یہ حملہ اس خوفناک رجحان کا تازہ ثبوت ہے۔ اس واقعے نے عالمی انسانی حقوق کی برادری میں تشویش بڑھا دی ہے۔