واشنگٹن ( نیوزڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ روسی صدر سے ملاقات کر نامناسب نہیں لگا، اس لئے ملاقات منسوخ کردی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اوول آفس میں نیٹو سیکرٹری جنرل کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج بہت بڑا دن ہے، آج روس کی 2 بڑی تیل کمپنیوں پر پابندیاں لگائیں اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم آئندہ کیا کرنے جارہے ہیں۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ روس یوکرین جنگ بائیڈن دورمیں شروع ہوئی جسے روکنے کی کوشش کررہا ہوں، امید ہے پابندیاں پیوٹن کو معقول رویہ اختیار کرنے پر مجبور کریں گی، جب بھی پیوٹن سے بات ہوئی ہے اچھی ہوتی ہے مگر کسی نتیجے تک نہیں پہنچتی۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امید ہے پابندیاں پیوٹن کو معقول رویہ اختیار کرنے پر مجبور کریں گی، یوکرین کو روس میں لانگ رینج میزائل کی اجازت کی خبرغلط ہے، یوکرین امریکا کے نہیں یورپی میزائل روس کے خلاف استعمال کررہا ہے، روس یوکرین جنگ میں ہر ہفتے ہزاروں اموات ہو رہی ہیں۔

امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ چین اور کوریا کے دورے کے دورن چینی صدر سے ملاقات طے ہے، اُمید ہے پابندیاں روسی صدر کو سوچنے پر مجبور کر دیں گی، بائیڈن امریکا کی تاریخ کے بدترین صدر تھے، امریکا میں غیر قانونی داخل ہونے والوں پر بجٹ خرچ نہیں کر سکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ روس یوکرین جنگ بائیڈن کے دور میں شروع ہوئی جسے روکنے کی کوشش کر رہا ہوں، امریکا زیلنسکی کیلئے ٹوما ہاک میزائل نہیں چلائے گا، بھارت نے روس سے تیل نہ خریدنے کی یقین دہانی کرائی ہے، ہماری دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے شٹ ڈاؤن نہیں ہونا چاہئے۔

نیو سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ روس پر مزید پابندیوں کا مقصد صدر پیوٹن پر جنگ بندی کیلئے دباؤ ڈالنا ہے، اس وقت روس یوکرین مذاکرات کی میز پر نہیں۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: روس یوکرین یوکرین جنگ کہا کہ کہ روس

پڑھیں:

عالمی فوجداری عدالت: امن معاہدے کے باوجود پیوٹن کے وارنٹ گرفتاری ختم نہیں ہونگے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹرز کے مطابق جنگی جرائم میں مطلوب روسی صدر اور ان کے ساتھ دیگر پانچ روسی حکام کے وارنٹ گرفتاری امن معاہدے کے باوجود اپنی جگہ قائم رہیں گے۔

عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹرز کی طرف سے یہ بات جمعہ کے روز کہی گئی ہے۔ فوجداری عدالت کے ڈپٹی پراسیکیوٹر سینیگال سے تعلق رکھنے والی میم مینڈیائے نیانگ اور فجی سے تعلق رکھنے والی نزاہت شمیم خانیہ نے یہ بات اپنے بیان میں کہی ہے۔

یہ دونوں ڈپٹی پراسیکیوٹرز بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر کی جگہ پر تحقیقات و تفتیش کے امور انجام دے رہی ہیں۔ چیف پراسیکیوٹر ان دنوں رخصت پر ہیں۔

ان پراسیکیوٹرز کے بقول بین الاقوامی فوجداری عدالت کے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری ختم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد منظور کیا جانا ضروری ہو گی۔ تب جا کر وارنٹ گرفتاری معطل ہو سکیں گے۔

یاد رہے بین الاقوامی فوجداری عدالت نے روس کے صدر ولادی میر پوتین اور دیگر پانچ اعلیٰ روسی حکام کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں وارنٹ گرفتاری یوکرین پر روسی جنگی یلغار کی وجہ سے جاری کر رکھے ہیں۔ یوکرین جنگ فروری 2022 سے جاری ہے۔ جسے ماہ فروری 2026 میں چار سال مکمل ہو جائیں گے۔

روسی صدر پوتین اور روس کی چائلڈ رائٹس کمشنر لووا بیلووا پر الزام ہے کہ ان دونوں نے غیر قانونی طور پر سینکڑوں بچوں کو یوکرین سے ڈی پورٹ کیا تھا۔

دوسری جانب روس کی طرف سے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا جاتا ہے نیز جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی بھی تردید کی جاتی ہے۔

روس کے جن دیگر اعلیٰ ذمہ داروں کو جنگی جرائم کی بنیاد پر وارنٹ گرفتاری کا سامنا ہے ان میں روس کے سابق وزیر دفاع سرگئی شائق روسی جرنیل ولیری گراسیموف بھی شامل ییں۔ ان پر الزام ہے کہ وہ جنگ کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث رہے ہیں اور معصوم سویلینز کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔

اس سلسلے میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دو ڈپٹی پراسیکوٹرز کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ایسا امن معاہدہ ہوتا ہے۔ جس کے تحت سلامتی کونسل میں معاملہ جاتا ہے اور سلامتی کونسل بین الاقوامی فوجداری عدالت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وارنٹ گرفتاری ختم کر دیے جائیں تو صرف اس صورت میں وارنٹ واپس ہو سکتے ہیں۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر نزاہت شمیم خان نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی بنیادی دستاویز اور دائرہ کار کا ذکر کرتے ہوئے کہا لیکن جہاں تک بین الاقوامی فوجداری عدالت کا تعلق ہے یہ اپنے طور پر ایسا نہیں کرے گی بلکہ انصاف کی بالادستی کے لیے ہر اقدام اور آخری حد تک جائے گی۔

یاد رہے ماہ نومبر کے دوران امریکی تیار کردہ امن منصوبہ پیش کیا گیا ہے۔

یوکرین اور یورپی ملکوں نے اس امریکی امن منصوبے کو روس کے سامنے جھک جانے والی دستاویز کے طور پر شک بھری نگاہ سے دیکھا ہے۔ کیونکہ اس امن معاہدے میں روسی مطالبات تسلیم کیے جانے کے علاوہ جنگ میں ملوث تمام فریقوں کو ہر طرح کے جرائم سے عام معافی بھی مل سکے گی۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیانگ کے مطابق ہم نے سلامتی کونسل کے جس راستے کا ذکر کیا ہے اس کے علاوہ ہم اپنے قانون کے پابند ہیں، قانون کے سامنے جو ان میں سے کچھ سیاسی انتظامات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

دوسری جانب یوکرین نے بھی عام معافی دینے کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ نیدرلینڈز میں یوکرینی سفیر اینڈری کوسٹن، جو اس سے قبل پراسیکیوٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے عام معافی کے خیال کو مکمل مسترد کیا ہے۔

خیال رہے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے 125 ملک رکن ہیں۔ جبکہ امریکہ سمیت کئی اہم طاقتیں اس فوجداری عدالت کی رکن ہیں نہ اسے تسلیم کرتی ہیں۔ بلکہ اس پر بالعموم تنقید کرتی اور پابندیاں لگاتی ہیں۔

ویب ڈیسک مرزا ندیم بیگ

متعلقہ مضامین

  • یوکرین جنگ، امریکی نمائندے کا امن معاہدے کے قریب پہنچنے کا دعویٰ، روس کا تبدیلیوں پر زور
  • غزہ میں جنگ بندی کیلئے مذاکرات نازک موڑ پر ہیں: قطری وزیراعظم
  • اسرائیل قبضہ ختم کرے تو اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کرنے کیلئے تیار ہیں، خلیل الحیہ
  • امریکی صدر ٹرمپ کی نئی سیکیورٹی اسٹریٹیجی جاری، یورپ کو نشانے پر لے لیا
  • غزہ جنگ بندی کے مذاکرات نازک مرحلے میں داخل، قطر کا انتباہ
  • عالمی فوجداری عدالت: امن معاہدے کے باوجود پیوٹن کے وارنٹ گرفتاری ختم نہیں ہونگے
  • فیفا ورلڈ کپ 2026 کا اعلان کردیا گیا
  • یوکرین کے علاقے دونباس پر قبضہ کرکے رہیں گے: روسی صدر کی دھمکی
  • امریکا کی سفری پابندی 19سے بڑھاکر 30 سے زائد ملکوں پر لگانے کی تیاری
  • پیوٹن 2 روزہ دورے پر بھارت پہنچ گئے، دو طرفہ تعلقات کی نئی سمت کیا ہوگی؟