’برطانیہ اور اتحادی ممالک کی میزائل حقیقت‘ خودمختاری یا انحصار؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
آج کی دنیا میں کسی ملک کی دفاعی خودمختاری کا اصل پیمانہ یہ ہے کہ وہ اپنے میزائل خود تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔ مگر دولتِ مشترکہ کے بیشتر ممالک بشمول برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ کے لیے یہ کہانی خود انحصاری سے زیادہ امریکا پر انحصار کی عکاس ہے۔
استعماری ورثہ، سرد جنگ کے اتحاد، اور امریکی دفاعی نظام کے ساتھ دہائیوں پر محیط انضمام نے ان ممالک کی اسٹریٹجک سوچ کو گہرے اثرات دیے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دولتِ مشترکہ میں ایک متنوع مگر منسلک نیٹ ورک وجود میں آیا، کچھ ممالک میزائل بناتے ہیں، کچھ اسمبل کرتے ہیں، اور کچھ محض خریدتے ہیں۔
مزید پڑھیں: شمالی کوریا کا جدید ہائپرسونک میزائل کا کامیاب تجربہ، کم جونگ اُن کی عدم موجودگی میں لانچ
برطانیہ: سمندروں کی بادشاہت سے امریکی ٹیکنالوجی کی مرہونِ منت قوت تکبرطانیہ دولتِ مشترکہ میں واحد ایٹمی طاقت ہے۔ 1952 میں پہلا ایٹمی تجربہ کرنے کے بعد سے اس نے اپنی نیوکلیئر حیثیت برقرار رکھی، مگر آج اس کی جوہری صلاحیت کا دار و مدار امریکی ساختہ میزائلوں پر ہے۔
ٹرائیڈنٹ II سب میرین لانچڈ بیلسٹک میزائل (Trident II SLBM) — برطانیہ کے پورے نیوکلیئر ڈیٹرنس کا مرکز، امریکی ساختہ ہیں اور ان کی دیکھ بھال بھی واشنگٹن کے ساتھ مشترکہ طور پر کی جاتی ہے۔ البتہ وارہیڈز برطانوی تیار کردہ ہیں، جو اس مشترکہ خودمختاری کی عجیب تصویر پیش کرتے ہیں۔
برطانیہ کے پاس قوت ہے، مگر وہ اپنے سب سے خفیہ دفاعی نظام میں بھی مکمل خودمختار نہیں۔ بحریہ کے پاس ٹاماہاک اور ہاروپن میزائل ہیں، جبکہ فضائیہ اسٹورم شیڈو کروز میزائل (فرانس کے ساتھ مشترکہ منصوبہ) چلاتی ہے۔ نیا فرانسیسی۔برطانوی منصوبہ FC/ASW ان بوڑھے میزائلوں کی جگہ لے گا۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو ٹام ہاک میزائل فراہم کرنے سے انکار کردیا
آسٹریلیا: بحرالکاہل کی ابھرتی ہوئی میزائل طاقتآسٹریلیا کی جغرافیائی تنہائی اس کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔ اسی لیے وہ تیزی سے اپنی دفاعی صلاحیت جدید کر رہا ہے، خاص طور پر AUKUS اتحاد (امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا) کے تحت۔
اس وقت آسٹریلیا کے پاس اپنی میزائل صنعت نہیں، مگر امریکی شراکت سے وہ اس خلا کو پُر کرنے میں مصروف ہے۔ اس کی بحریہ ہاروپن اور ناروے کے نیول اسٹرائیک میزائل (NSM) استعمال کرتی ہے، جن کی رینج 300 کلومیٹر تک ہے۔
آنے والے برسوں میں آسٹریلیا کو ٹاماہاک کروز میزائل اور ہائپرسونک ہتھیار ملنے والے ہیں۔ یہ پیشرفت آسٹریلیا کو ایک دور مار دفاعی قوت میں بدل دے گی جو بحرالکاہل میں طاقت کا نیا توازن قائم کر سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: شمالی کوریا کی فوجی پریڈ، نئے طاقتور ترین بین البراعظمی میزائل کی نمائش
آسٹریلیا اب دفاع سے آگے بڑھ کر ڈیٹرنس (Deterrence) کی زبان بولنا سیکھ رہا ہے اور یہ زبان میزائلوں میں لکھی جا رہی ہے۔
کینیڈا: خاموش مگر قابلِ اعتماد شراکت دارکینیڈا کی دفاعی پالیسی ہمیشہ تعاون پر مبنی رہی ہے، نہ کہ محاذ آرائی پر اسی لیے اس کی میزائل حکمتِ عملی بھی اجتماعی دفاع پر مرکوز ہے۔ کینیڈا کی سب سے بڑی طاقت NORAD اتحاد ہے، جو امریکا کے ساتھ مشترکہ فضائی و میزائل دفاعی نظام ہے۔
کینیڈا کے پاس خود ساختہ کروز یا بیلسٹک میزائل نہیں، بلکہ وہ امریکی میزائل استعمال کرتا ہے جیسے ہاروپن۔ صنعتی لحاظ سے، کینیڈا مکمل میزائل نہیں بناتا بلکہ نیٹو اور امریکی منصوبوں کے لیے پرزہ جات، سینسرز اور سافٹ ویئر فراہم کرتا ہے۔
کینیڈا کا اصول سادہ ہے کہ سلامتی انضمام کے ذریعے، خود انحصاری کے ذریعے نہیں۔
مزید پڑھیں: اسرائیلی فضائیہ کا یمن سے داغا گیا میزائل مار گرانے کا دعویٰ
نیوزی لینڈ: پرامن ملک، مگر خلائی طاقتنیوزی لینڈ کے پاس کوئی جارحانہ میزائل نظام نہیں مگر اس کے پاس راکٹ لانچ صلاحیت ہے۔ 2018 میں راکٹ لیب LC-1 اسپیس پورٹ سے ملکی ساختہ راکٹ کے ذریعے سیٹلائٹس خلا میں بھیجے گئے۔
یہ مظاہرہ ظاہر کرتا ہے کہ نیوزی لینڈ بین البراعظمی راکٹ ٹیکنالوجی کی بنیادی اہلیت رکھتا ہے، مگر اس نے اسے عسکری نہیں بلکہ سائنسی و تجارتی مقصد کے لیے استعمال کیا۔ نیوزی لینڈ کے لیے خلا تحقیق کا میدان ہے، ہتھیاروں کا نہیں۔
دولتِ مشترکہ کی مجموعی تصویردولتِ مشترکہ کے میزائل پروگراموں سے ایک واضح حقیقت سامنے آتی ہے۔ یہ ممالک تاریخی ورثے میں خودمختار ضرور ہیں، مگر عملی طور پر امریکی نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاک فوج نے ملکی سطح پر تیار کردہ فتح 4 کروز میزائل کا کامیاب تربیتی تجربہ کرلیا
برطانیہ کے پاس ایٹمی طاقت ہے مگر امریکی ٹیکنالوجی پر انحصار بھی۔ آسٹریلیا اتحاد کے سہارے نئی میزائل قوت بن رہا ہے۔ کینیڈا اجتماعی دفاع پر یقین رکھتا ہے۔ نیوزی لینڈ سائنس کو سلامتی پر فوقیت دیتا ہے۔
آج جب میزائل ٹیکنالوجی طاقت کی علامت بن چکی ہے، دولتِ مشترکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر ترقی یافتہ ملک خود مختاری کا خواہاں نہیں، کچھ اب بھی اپنے اتحادیوں کے اعتماد پر زندہ ہیں۔
بشکریہ: رشیا ٹوڈے، تحریر: دمتری کورنیف (عسکری ماہر اور ملٹری رشیا منصوبے کے بانی)
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آسٹریلیا برطانیہ دمتری کورنیف رشیا ٹوڈے عسکری ماہر کینیڈا ملٹری رشیا منصوبے کے بانی نیوزی لینڈ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آسٹریلیا برطانیہ دمتری کورنیف عسکری ماہر کینیڈا ملٹری رشیا منصوبے کے بانی نیوزی لینڈ مزید پڑھیں نیوزی لینڈ کے ساتھ کے پاس کے لیے
پڑھیں:
غزہ امن مشن میں متعدد ممالک شمولیت پر آمادہ، امریکی وزیر خارجہ کا انکشاف
روبیو نے اسرائیلی پارلیمنٹ کے اُس متنازع اقدام پر بھی تشویش ظاہر کی جس میں مغربی کنارے کے انضمام سے متعلق قانون سازی کی گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غزہ کی صورتحال میں بہتری کےلیے عالمی سطح پر کوششیں تیز ہو گئیں۔ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے انکشاف کیا ہے کہ کئی ممالک غزہ کے لیے مجوزہ بین الاقوامی امن فورس میں حصہ لینے پر آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس فورس کا مقصد جنگ زدہ علاقے میں امن و استحکام قائم کرنا اور انسانی امداد کی راہ ہموار کرنا ہے۔ روبیو نے اسرائیلی پارلیمنٹ کے اُس متنازع اقدام پر بھی تشویش ظاہر کی جس میں مغربی کنارے کے انضمام سے متعلق قانون سازی کی گئی ہے۔ ان کے مطابق یہ قدم غزہ امن معاہدے کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بن سکتا ہے اور خطے میں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔امریکی درخواست پر برطانوی فوج نے بھی امن منصوبے کی نگرانی میں کردار ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق ایک سینئر کمانڈر اور چند فوجیوں پر مشتمل ٹیم کو اسرائیل بھیج دیا گیا ہے، جو غزہ میں امن منصوبے کی پیش رفت کا جائزہ لے گی اور اس کی نگرانی کرے گی۔
دوسری جانب امریکی سینٹ کام کے سربراہ ایڈمرل بریڈ کوپر نے واضح کیا کہ غزہ امن مشن کے لیے روانہ ہونے والے 200 فوجیوں میں امریکی فوجی شامل نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس مشن میں براہِ راست مداخلت سے گریز کرے گا لیکن اتحادی ممالک کی مدد اور رابطے برقرار رکھے گا۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب غزہ میں جنگ بندی کے امکانات کم اور انسانی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ عالمی برادری اب ایک ایسے منصوبے کی تلاش میں ہے جو نہ صرف جنگ کو روکے بلکہ علاقے میں دیرپا امن کے قیام کے لیے بنیاد بھی فراہم کرے۔