ڈھاکا کی عدالت نے جبری گمشدگی کے مقدمے میں 15 اعلیٰ فوجی افسران کو جیل بھیج دیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے بدھ کو 15 اعلیٰ فوجی افسران کو پولیس کی حراست میں دے دیا، ان پر سابقہ حکومت کا تختہ الٹنے کا موجب بننے والی 2024 کی بغاوت کے دوران جبری گمشدگیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بنگلہ دیش میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی ہے، اور پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں سینئر فوجی افسران کو ایک سول عدالت میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جبری گمشدگیوں کے مقدمے کا سامنا کرنے والوں میں 5 جرنیل بھی شامل ہیں، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے معزول وزیرِاعظم شیخ حسینہ کے دورِ حکومت میں ایک خفیہ حراستی مرکز چلایا۔
تمام ملزمان یا تو فوجی انٹیلی جنس سے وابستہ رہے ہیں یا بدنام زمانہ نیم فوجی فورس ریپڈ ایکشن بٹالین (آر اے بی) میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
وکیل صفائی سرور حسین نے بتایا کہ تمام افسران نے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
فوج کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ عدالتی کارروائی میں مکمل تعاون کرے گی، تاہم اس ماہ کے آغاز میں وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد سے حالات کشیدہ ہیں۔
عدالت کے چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے صحافیوں کو بتایا کہ ’انہوں نے ملکی قانون کے احترام اور عدالتی عمل سے تعاون کا عزم ظاہر کیا، اور ان کے رویّے سے بھی یہ بات عیاں تھی‘۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر تُرک نے 15 اکتوبر کو جاری بیان میں کہا کہ یہ عدالتی عمل احتساب کی سمت ایک اہم قدم ہے، یہ متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے لیے ایک معنی خیز لمحہ ہے۔
افسران کو ایک جیل وین کے ذریعے سخت سیکیورٹی میں عدالت لایا گیا، جہاں پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔
وکیل صفائی سرور حسین کے مطابق ’یہ افسران اپنی بے گناہی پر پُر اعتماد ہیں اور انہیں یقین ہے کہ وہ قانونی طریقہ کار کے ذریعے بری ہو جائیں گے‘۔
بنگلہ دیش ان دنوں بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والی سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد اور ان کی جماعت عوامی لیگ کے سابق رہنماؤں کے خلاف مقدمات چلا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق جولائی اور اگست 2024 کے دوران حکومت مخالف مظاہروں کو دبانے کی کارروائی میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تقریباً 1,400 افراد جاں بحق ہوئے۔
شیخ حسینہ کے دورِ اقتدار میں ریپڈ ایکشن بٹالین (آر اے بی) کے اہلکاروں نے متعدد ماورائے عدالت ہلاکتیں کیں، جس کے باعث امریکا نے 2021 میں اس ادارے پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
78 سالہ حسینہ واجد گزشتہ سال بھارت فرار ہو گئی تھیں، جہاں وہ عدالت کے ان احکامات کو نظر انداز کر رہی ہیں جن میں انہیں انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے میں پیش ہونے کا کہا گیا تھا۔
ان کا یہ مقدمہ غیر حاضری میں اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے، ریاستی طور پر مقرر کردہ دفاعی وکیل حتمی دلائل دے رہے ہیں، جب کہ استغاثہ نے حسینہ کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
عزیر بلوچ غیرقانونی اسلحہ کیس سے باعزت بری
پراسیکیوشن سہولت کاری کا الزام ثابت کرنے میں ناکام، عدالت نے شواہد نہ ہونے پر فیصلہ سنا دیا۔
کراچی کی جوڈیشل مجسٹریٹ غربی کی عدالت نے گینگ وار کے مبینہ سرغنہ عزیر جان بلوچ کو غیرقانونی اسلحہ کی برآمدگی اور سہولت کاری کے مقدمے سے با عزت بری کر دیا ہے۔
پراسیکیوشن کی جانب سے عدالت میں عزیر بلوچ پر سہولت کاری کے الزامات ثابت نہیں کیے جا سکے، جس پر عدالت نےشواہد کی عدم موجودگی کی بنیاد پر مقدمہ خارج کر دیا۔
سماعت کے دوران عزیر بلوچ کے وکیل حیدر فاروق جتوئی نے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں، اس لیے انہیں مقدمے سے بری کیا جائے۔
واضح رہے کہ2012 میں تھانہ سی آئی ڈی میں مقدمہ درج ہوا تھا، جس میںملزم عبدالغفار بگٹی نے بیان دیا تھا کہ عزیر بلوچ اور بابا لاڈلہ نے اسلحے کی ترسیل میں سہولت کاری کی۔ تاہم عدالت نے بیان کو ناکافی قرار دیتے ہوئے عزیر بلوچ کو مقدمے سے بری کر دیا۔