’جمع تقسیم‘ میں حساس مناظر کی شوٹنگ کے دوران کافی مشکلات آئیں، تنقید کا بھی خوف تھا، مدیحہ رضوی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
اداکارہ مدیحہ رضوی نے بتایا کہ ڈراما ’جمع تقسیم‘ میں حساس مناظر کی شوٹنگ کے دوران ٹیم کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں تنقید کا بھی خوف تھا۔
ہم ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈراما سیریل ’جمع تقسیم‘ میں ایک نہایت حساس موضوع کو اجاگر کیا گیا ہے کہ بعض اوقات گھر کے اندر بھی بچیوں کو اپنے قریبی رشتہ داروں کی جانب سے ہراسانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ سدرہ نامی کم عمر لڑکی کو اس کا کزن ذیشان تنگ کرتا ہے، تاہم اسی دوران ان کا چچا موقع پر پہنچ کر سدرہ کو ذیشان سے بچا لیتا ہے۔
مدیحہ رضوی نے حال ہی میں ملیحہ رحمٰن کے ’یوٹیوب پروگرام‘ میں گفتگو کے دوران اس ڈرامے کے مناظر اور موضوع پر تفصیل سے بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ناظرین کو اگرچہ یہ نہیں بتایا گیا کہ سدرہ کے ساتھ اصل میں کیا ہوا ہے، لیکن منظر کشی اس قدر مؤثر تھی کہ ناظرین خود سمجھ گئے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے اور کس حد تک ہوا ہے۔
اداکارہ کے مطابق ڈرامے نے پیمرا قوانین کے مطابق رہتے ہوئے یہ پیغام کامیابی سے پہنچایا کہ معاملہ سنگین ہونے سے پہلے ہی گھروالے موقع پر پہنچ گئے۔
’جمع تقسیم‘ میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ ذیشان کو اس کی حرکتوں کی وجہ سے ہاسٹل بھیج دیا جاتا ہے، جہاں وہ دوسرے لڑکوں کی جانب سے تنگ کیے جانے کا شکار بنتا ہے۔
اس حوالے سے مدیحہ رضوی نے بتایا کہ ہاسٹل کا منظر شوٹ کرنا بہت مشکل تھا، کیونکہ ٹیم کو یہ دکھانا تھا کہ ذیشان کو لڑکے تنگ کر رہے ہیں، مگر یہ بھی خیال رکھنا تھا کہ کتنا دکھایا جائے اور کتنا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ ڈرامے میں بہت کم دکھایا گیا، مگر ناظرین تک بخوبی پیغام پہنچ گیا کہ ذیشان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
اداکارہ نے مزید بتایا کہ جن دو اقساط میں ان واقعات کو پیش کیا گیا، اس دوران ڈرامے کے سیٹ پر سنجیدہ ماحول پیدا ہوگیا تھا، جیسے یہ سب کچھ ہمارے اپنے گھر یا بچوں کے درمیان ہورہا ہو۔
مدیحہ رضوی کے مطابق ڈرامے کے ہدایت کار علی حسن ابتدا میں یہ سین شوٹ نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ بچوں سے متعلق ایسے مناظر دکھانے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے، تاہم بعد میں اس موضوع کو دکھانا ناگزیر سمجھا گیا۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم سب کو یہ ڈر بھی تھا کہ جب ڈراما نشر ہوگا تو تنقید کا سامنا نہ کرنا پڑے، تاہم ہم ہر قسم کے ردعمل کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مدیحہ رضوی تھا کہ
پڑھیں:
ٹی ایل پی سربراہ سعد رضوی کا سراغ مل گیا، جلد گرفتاری متوقع
ذرائع کے مطابق قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے یہ معلومات آزاد جموں و کشمیر کی انتظامیہ کیساتھ شیئر کر دی ہیں اور ان سے ٹی ایل پی رہنماؤں کی گرفتاری میں تعاون مانگا گیا ہے۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹی ایل پی کے حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ ان کے سربراہ پہلے ہی حراست میں ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ پنجاب حکام نے کہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد رضوی اور ان کے بھائی انس رضوی کا سراغ لگا لیا ہے۔ حکام کے مطابق دونوں مفرور رہنما مریدکے میں ہونیوالے کریک ڈاؤن کے بعد آزاد جموں و کشمیر فرار ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے یہ معلومات آزاد جموں و کشمیر کی انتظامیہ کیساتھ شیئر کر دی ہیں اور ان سے ٹی ایل پی رہنماؤں کی گرفتاری میں تعاون مانگا گیا ہے۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹی ایل پی کے حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ ان کے سربراہ پہلے ہی حراست میں ہیں۔ اہلکار کے مطابق کریک ڈاؤن کے بعد پنجاب پولیس اور دیگر اداروں کے سینئر افسران پر مشتمل کئی ٹیمیں سعد رضوی اور ان کے بھائی کا سراغ لگانے کیلئے تعینات کی گئی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ سعد رضوی اور ان کے بھائی کو پہلی بار مریدکے میں احتجاجی کیمپ سے پیدل جاتے اور پھر موٹر سائیکل پر فرار ہوتے دیکھا گیا۔ اس وقت قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے درمیان ایک ہنگامی پیغام جاری کیا گیا کہ ایک موٹر سائیکل سوار کیساتھ ٹی ایل پی کے سربراہ اور ان کا بھائی قریبی گلیوں کی طرف جا رہے ہیں۔ تاہم تینوں مشتبہ افراد قانون نافذ کرنیوالے اہلکاروں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوگئے۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے زخمی ہونے سے متعلق طرح طرح کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔اعلیٰ پولیس افسر نے بتایا کہ خصوصی ٹیموں نے بالآخر ٹی ایل پی رہنماؤں کی آخری لوکیشن آزاد جموں و کشمیر میں ٹریس کی، جس کے بعد ان کی گرفتاری کیلئے علاقائی حکومت سے مدد طلب کی گئی ہے۔
دوسری جانب، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے بھی سعد رضوی کے نام پر چلنے والے تقریبا 95 بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگا لیا ہے۔ اہلکار کے مطابق ان میں سے 15 اکاؤ نٹس سود پر مبنی تھے اور ایف آئی اے ان بینکوں سے مزید تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ان اکاؤ نٹس کے لین دین کا جائزہ لیا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق مذہبی تنظیم کیخلاف وسیع کریک ڈاؤن کے ایک حصے کے طور پر پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں ٹی ایل پی کے زیرانتظام 61 مدارس کی نشاندہی بھی کرلی ہے۔
ان مدارس کے مستقبل سے متعلق معاملہ اہلِ سنت علماء اور صوبائی حکام کے درمیان ہونیوالی ملاقات میں بھی زیر بحث آیا، جہاں اس بارے میں تجاویز پیش کی گئیں، تاہم مدارس کے مستقبل کے بارے میں حتمی فیصلہ ابھی نہیں کیا گیا۔ دریں اثنا، ملتان کی ضلعی انتظامیہ نے پنجاب حکومت کے احکامات کے مطابق ٹی ایل پی کے 10 مدارس سیل کر دیئے اور متعدد کو محکمہ اوقاف کے حوالے کر دیا۔ یہ مدارس ملتان، شجاع آباد اور بستی ملوک میں واقع ہیں۔