اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے کے اضمام کا فیصلہ عالمی سطح پر بھی مسترد
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
اسرائیلی پارلیمنٹ نیسٹ نے ووٹوں کی اکثریت سے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا جس پر عالمی سطح پر شدید تنقیدیں اُٹھ رہی ہیں اور فیصلے کو مسترد کیا جارہا ہے۔
رپورٹس کے مطابق اس کے ساتھ ایک اور بل بھی منظور ہوا ہے جو کہ مقبوضۃ مشرقی یروشلم کے قریب واقع بستی مالے ادومیم کو بھی اسرائیلی خودمختاری کے تحت لانے کا ہے۔
اہم واضح رہے کہ قانون سازی ابھی حتمی نہیں ہوئی ہے، یہ بل ابھی خارجہ امور دفاعی کمیٹی سے بھی منظور ہونا ہے۔
اس فیصلے پر کئی عرب ملکوں، ترکی اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے اس اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔ اُردن نے کہا ہے کہ یہ عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور دوری ریاستی حل کے امکان کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
دوسری جانب قطر اور سعودی عرب نے بھی اسے فلسطینی عوام کے تاریخی اور قانونی حقوق پر حملہ قرار دیا ہے۔ ترکیے نے اعلان کیا کہ یہ بل کُلی طور پر کالعدم ہے اور بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔
عالمی عدالت انصاف نے بھی کہا ہے کہ اسرائیل کا مقبوضہ علاقوں پر قبضہ اور بستیوں کا قیام بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام غزہ امن معاہدے سمیت جاری امن عمل کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اگر یہ ضم کا عمل آگے بڑھتا ہے تو فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضہ اور شہری کنٹرول مزید بڑھ جائے گا جس کا مطلب ہے مستقبل میں فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔
اسرائیلی حکومت کے اندر اس پر اتفاق نہیں ہے — مثلاً Benjamin Netanyahu کی جماعت (لیکود) نے اس بل کی حمایت نہیں کی، مگر اُن کی حکومت کے بعض اتحادی جماعتوں نے ووٹ دیا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بڑھتا ہوا ظلم اور خاموش تماشائی عالمی طاقتیں
اسلام ٹائمز: عالمی سفارتی قوانین اور اخلاقیات سے عاری امریکہ نے ایران کیساتھ امن مذاکرات کے دوران بھی ایرانی سرزمین پر حملہ کیا، جس کا جواب ایران نے نہ صرف اسرائیل کیساتھ 12روزہ جنگ میں دیا، بلکہ قطر میں امریکی تنصیبات کو نشانہ بھی بنایا، مگر تلخ حقیقت ہے کہ آج کی مہذب دنیا میں کسی نے بھی اسرائیل اور امریکہ کے جارحانہ اقدامات کو روکنے کیلئے طاقت کے استعمال کا نہ صرف عندیا نہیں دیا، بلکہ مذمت تک نہیں کی۔ تحریر: سید منیر حسین گیلانی
کرہ ارض پر انسان ارتقائی منازل طے کرتا ہوا حیوانی زندگی سے نکل کر مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے انسانوں کیساتھ رہنے والی مدنی زندگی میں داخل ہوا تو اس نے معاشرے کو پُرامن بنانے کا عہد کیا، لیکن جوں جوں انسان عقل و بصیرت اور علم کی منزل طے کرتا ہوا آگے بڑھا تو طاقت کے نشے اور دوسروں کو طاقت سے زیر کرنے کی خواہش نے اسے پرانی روش کو اختیار کرنے پر مجبور کر لیا، بقائے باہمی اور امن کی بجائے قتل و غارت، دوسروں کے حقوق غصب کرنا، املاک کو نقصان پہنچانا، وسائل پر قبضہ کرنا اور ظلم و استبداد کا ناجائز راستہ اختیار کرنا، اس کی عادت بن گئی۔ ہماری زندگی میں آج کے دور سے پہلے ویسے تو کئی جنگیں لڑی گئیں، لیکن دو بڑی جنگیں عالمی جنگ اول اور دوئم لڑی گئیں، جن میں لاکھوں انسانوں کو قتل اور جلا وطن کیا گیا۔ یہ بھی انسانی تاریخ کا سیاہ کن باب ہے۔ لیکن اس کے آگے دیکھیں تو امریکہ جیسی بڑی طاقت اور اسرائیل جیسی شیطانی حیوانی ناجائز صیہونی حکومت نے بھی وہی راستہ اختیار کیا کہ دنیا میں امن قائم نہ ہوسکے۔
افسوسناک بات اور ظلم یہ ہے کہ دنیا کے آج کے مہذب معاشروں میں یہ سکت نظر نہیں آرہی کہ وہ کسی جارح کی جارحیت کو روک سکے یا اس کیخلاف محاذ بنا کر مقابلہ کرنے کی کوشش کرے۔ ابھی چند ماہ پہلے اسرائیل نے ایران پر حملہ کرکے اس کی اہم حکومتی، سیاسی، سماجی اور سائنسی شخصیات کو شہید کیا اور امن ایٹمی اثاثوں کو نقصان پہنچایا۔ لیکن کسی نے بھی جارحیت کے مقابلے کی جرات کی اور نہ ہی کوئی ایران کیساتھ کھل کر کھڑا ہوا، بلکہ عالمی سفارتی قوانین اور اخلاقیات سے عاری امریکہ نے ایران کیساتھ امن مذاکرات کے دوران بھی ایرانی سرزمین پر حملہ کیا، جس کا جواب ایران نے نہ صرف اسرائیل کیساتھ 12روزہ جنگ میں دیا، بلکہ قطر میں امریکی تنصیبات کو نشانہ بھی بنایا، مگر تلخ حقیقت ہے کہ آج کی مہذب دنیا میں کسی نے بھی اسرائیل اور امریکہ کے جارحانہ اقدامات کو روکنے کیلئے طاقت کے استعمال کا نہ صرف عندیا نہیں دیا، بلکہ مذمت تک نہیں کی۔
کچھ ہی عرصے بعد اسرائیل نے امریکہ کے اتحادی دوست قطر پر بھی حماس کی قیادت کو قتل کرنے کی غرض سے فلسطین کی مزاحمتی تحریک کے بیرون ملک دفتر کو نشانہ بنایا گیا۔ جس کے نتیجے میں قطری شہری اور حماس کے مہمانوں کو شہید کیا گیا، جبکہ اس سے پہلے نومنتخب ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہنیہ کو نشانہ بنا کر شہید کیا گیا۔ غزہ میں حماس اور اسرائیل کی لڑائی میں جس بربریت کا مظاہرہ یہودی صیہونی حکومت نے کیا، نہ صرف قابل مذمت، بلکہ اس معاشرے کے چہرے پر شرمندگی کا بدنما داغ بھی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران تقریروں میں امن کا مسیحا بننے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے۔ پھر صدر منتخب ہونے کے بعد سے اب تک ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ رکوانے کا بار بار تذکرہ کرتے اور امن کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتے اور توقع رکھتے ہیں کہ امن کا نوبل ایوارڈ اسے دیا جائے اور اس کے بار بار تذکرے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
میرا تو خیال ہے کہ اسرائیلی سرپرستی اور 80 ہزار کے قریب فلسطینیوں کے قتل عام کی سرپرستی پر امریکی صدر کو اگر کوئی منافقت اور ظلم و بربریت کا ایوارڈ ہو تو اسے دیا جائے، امن ایوارڈ کا تو یہ کوئی حق دار نہیں، حالانکہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور اسرائیلی دہشت گرد نیتن یاہو کی خواہش یہی ہے۔ امریکی صدر نے خصوصاً غزہ میں سیز فائر کی کوشش کی تھی، اس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بدنیتی پر مبنی اسرائیلی سرپرستی واضح طور پر نظر آرہی تھی۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ، ہاشم صفی الدین اور ان کے ساتھیوں کو بھی شہید کیا گیا۔ انصار اللہ یمن پر بھی حملے کئے گئے۔ اتنے بڑے مظالم سے عالمی طاقتوں اور اداروں کی خاموشی سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں رہنے والے انسانوں کے زبانیں گنگ ہوچکی ہیں، بڑے ممالک کے فوجی بھی کسی اندھیرے میں گم ہوچکے ہیں، کوئی بھی ملک بے تحاشا وسائل رکھنے کے باجود کوئی ایسا اقدام اٹھانے کو تیار نہیں، جس سے امریکہ اور اس کے پالتو اسرائیل کے مظالم کو روکا جا سکے۔
ابھی چند دن پہلے لبنان کے بارڈر پر امن کے نام سے سیز فائر کے باوجود حزب اللہ لبنان کے کمانڈر ہیثم علی طباطبائی کی شہادت اسرائیلی بربریت اور امریکی سرپرستی کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص جماعت یا گروہ نہیں، اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے بازو کو مروڑ کر توڑ سکے۔ ان واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ نیتن یاہو اور امریکی صدر خطے کو پرامن نہیں رہنے دیں گے اور گاہے بگاہے مختلف ممالک کے اندر تخریبی عناصر کی سرپرستی کرکے انتشار پیدا کریں گے۔ کاش! امت مسلمہ میں کوئی ایک فرد بھی ٹرمپ اور نتن یاہو کو للکارتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کا پیش خیمہ بنے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو صرف مشرق وسطی ہی نہیں پوری دنیا میں تیسری جنگ عظیم کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لبنان کی قیادت، فلسطینی بے گھر، نادار لوگ ظلم سے نبرد آزما ہوں گے اور اپنے ساتھیوں کی شہادت کا بدلہ بھی لیں گے۔