Express News:
2025-10-25@01:06:53 GMT

آئی ایم ایف مذاکرات کے معیشت پر اثرات

اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT

گزشتہ دنوں اسلام آباد میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات ہوئے تھے۔ میز کے ایک طرف پاکستان اور دوسری طرف وہ ادارہ بیٹھا تھا جسے دنیا آئی ایم ایف کہتی ہے یعنی دنیا کا وہ خزانچی جوکہ کمزور معیشتوں کو ڈالر دکھاتا ہے اور اصلاحات کے دعوے لیتا ہے۔ ان کو اپنی شرائط میں باندھتا ہے۔ آئی ایم ایف کے مذاکرات ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اعداد و شمار کی روشنی میں نہیں بلکہ اپنی مرضی کے مطابق ہو رہے تھے۔

اس وقت کے معاشی حالات اور اعداد و شمار جوکہ سیلاب میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ 50 لاکھ آبادی سے زائد سیلاب متاثرین ہیں، لیکن حال کے بجائے مستقبل کا سوال تھا کہ پاکستان مستقبل کی معیشت کن اصولوں پر کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ مالیاتی ادارے کے وفد نے ایک مسکراہٹ بکھیری اور کہا پاکستان استحکام کی راہ پر ہے، لیکن اس فقرے کے پیچھے بہت ہی ہولناک شرائط بھی تھیں یعنی ٹیکس بڑھانا ہوگا، توانائی کی قیمت درست کرنی ہوگی۔

گویا اصلاحات کی ندی میں اتر جائیں بغیر لائف جیکٹ کے۔ ڈالر کو قدرتی لہروں کے حوالے کر دو، ان کی محبوب کرنسی ہر حد، شرط اور پابندی سے پاک کردی جائے۔

مزدور کی مزدوری، کسان کے قرض، شہریوں پر قرض کا بوجھ مہنگائی کے بڑھتے رہنے پر دھیان نہیں دیا گیا کہ جب ڈالر کو آزاد چھوڑ دیں گے تو ایسی صورت میں ڈالر کو پَر لگ جائیں گے تو مہنگائی بھی مزید بڑھ جائے گی۔ ایک طرف بجلی، گیس کے بل ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اگر ڈالر کو مارکیٹ کے حوالے کر دیا گیا تو اس سے پہلے بھی بارہا تجربے ہوتے رہے، پہلے آئی ایم ایف کا مطالبہ ہوتا تھا کہ روپے کی قدر 10 فی صد یا 12 فی صد گرا دی جائے یعنی ڈالر کی قیمت کو بڑھا دیا جائے ان دنوں یہ تاویل دی جاتی تھی کہ برآمدات میں اضافہ ہوگا۔

کسان سوچتا ہے کہ کھاد مہنگی ہوتی جا رہی ہے، پٹرول مہنگا ہو رہا ہے، بیج کی خبر نہیں اصلی ہے یا نقلی، پھر بھی مہنگا ترین۔ بجلی کے بل کے سلسلے میں عام شہری مزدور کسان دفتر کا بابو سب کے سامنے ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ بجلی کے بل کیسے بھروں۔ لیکن ترقی پذیر ممالک کے افق پر بھی اسی قسم کے منظرنامے ہیں، جو بھی عالمی مالیاتی ادارے کا اسیر بن جاتا ہے، اس ملک کی کہانی پاکستان سے ملتی جلتی بن کر رہ جاتی ہے۔ تیسری دنیا یا ترقی پذیر ممالک میں ہر جگہ غربت ہے، ترقی کا نشان کم ہے قرض زیادہ، قرض اتارنے کی صلاحیت کم ہے۔

مشہور و معروف ماہرین معاشیات کا یہی خیال ہے کہ اصلاحات جب ہی کامیاب ہوتی ہیں جب غریبوں کو رعایت دی جائے نہ اعداد و شمار کو مدنظر رکھ کر۔ اس قسم کے معاہدے اصلاحات صرف انسانوں کے لیے ہوں نہ کہ اعداد و شمار کے کرتب دکھانے کے لیے، غربت مٹانے کے لیے ہوں۔ بھوک ختم کرنے کے لیے ہوں، ترقی کے سفر پرگامزن ہونے کے لیے ہوں نہ کہ آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لیے۔ اگر سرکاری بدانتظامی، کرپشن، بجلی چوری، ذخیرہ اندوزی، اقربا پروری اور بہت سی برائیوں کا قلع قمع نہ کر پائے تو تمام اصلاحات کے نتیجے میں بے روزگاری آئے گی، غربت میں اضافہ ہوگا۔

حالیہ مذاکرات پر آئی ایم ایف پاکستان کی تعریف کرتا ہے کہ پاکستان کا پروگرام میکرو استحکام کے قیام اور مارکیٹ اعتماد بحال کرنے کی راہ پر ہے۔ حالیہ سیلاب کے تناظر میں پاکستان کو اصلاح دی گئی ہے کہ اپنے ذرائع سے حالات سے نمٹ لے اور آیندہ کے لیے بھی نمٹنے کے لیے اقدامات کرے۔

اتنے بڑے پیمانے پر سیلاب کے آنے کے بعد معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جس سے نمٹنے کے لیے بڑی رقم درکار ہوگی جوکہ بلاسود اور بلا شرط ملنی چاہیے، لیکن اس وقت پاکستان کو جو رقم ملنے کی راہ ہموار ہوئی ہے وہ جولائی 2024 میں طے ہونے والے 7 ارب ڈالر کی سہولت سے متعلق ہے جس پر بھی سود ادا کیا جائے گا، اس رقم میں سے 1.

2 ارب ڈالر کی قسط کی وصولی کے لیے اسٹاف لیول کا معاہدہ طے ہوا ہے اور مختلف شرائط کے تحت ہی یہ قرض ملے گا، اس کا مطلب ہے کہ قرض کے بار میں مزید اضافہ ہوگا۔

پاکستان کا شہری پہلے ہی ساڑھے تین لاکھ کے قرض تلے دبا ہوا ہے جو مختلف حکومتوں نے یہ رقوم حاصل کی تھیں، مختلف حکومتوں نے اپنے دور میں جو بھی رقم بطور قرض حاصل کیں، اب اس پر سود اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ بجٹ کی بڑی رقم کو ہڑپ کیے چلا جا رہا ہے جس کے نقصانات ظاہر ہو رہے ہیں صرف اتنی سہولت ملے گی کہ پاکستان کو اپنی ضرورت کے کچھ امور طے کرنے میں آسانی پیدا ہو جائے گی۔

جب کہ جس قسم کے اصلاحی پروگرام کا ہدف دیا گیا ہے اگر اس ہدف کا رخ اشرافیہ کی طرف موڑ دیا جائے تو غریب عوام پر بوجھ میں قدرے کمی آ سکتی ہے۔ مثلاً ٹیکس کی رقوم میں اضافہ، اس مد کے تحت اگر ہدف صرف اشرافیہ کو بنایا جائے تو اس سلسلے میں خاصی رقوم اکٹھی کی جا سکتی ہیں۔ ڈالر ریٹ بڑھنے سے امپورٹ بل پر خاصا دباؤ آئے گا جس کے لیے ضروری ہے کہ تمام تر غیر ضروری اور اشیائے تعیش پر جزوی یا کسی گروپ یا کسی قسم کی اشیا کی امپورٹ پر کلی پابندی عائد کر دی جائے لیکن اس سلسلے میں یہ قباحت پیدا ہو سکتی ہے کہ بعض اقدامات آئی ایم ایف کو ناگوار بھی گزر سکتے ہیں کیونکہ ابھی تک تمام معاملات طے ہونے کے بعد بھی آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری ابھی باقی ہے۔ بہت سی شرائط ایسی ہیں جن سے عوام پر ہی دباؤ کے بڑھنے کے امکانات ہیں۔

ان تمام باتوں کے باوجود یہ مجبوری ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کی جائے ساتھ ہی حکومت کو غریبوں پر دباؤ یا یہ کہ ایسے اقدامات جس سے مزید افراد غربت کی سطح سے نیچے چلے جائیں۔

حکومت کو اپنے طور پر کئی فلاحی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہوگی۔ کوشش یہ کرنا کہ عوام پر ٹیکس کا بوجھ بڑھنے کے بجائے اشرافیہ کی جانب رخ کیا جائے۔ فیکٹری کارخانے جوکہ بند ہو رہے ہیں ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے کارخانے مزید کھل جائیں اور بند ہونے کا سلسلہ ختم ہو جائے۔ بعض اوقات غیر ملکی سرمایہ کاری اس لیے نہیں ہو پاتی کہ اس پر سرکاری سرخ فیتا سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے لہٰذا ان افراد پر کچھ پابندی ہونی چاہیے جوکہ کارخانوں کے قیام میں رکاوٹ کا سبب بن جاتے ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: آئی ایم ایف کے لیے ہوں اضافہ ہو ڈالر کو

پڑھیں:

پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات کا ترکیہ میں آج دوسرا دور، سرحدی گزرگاہیں بدستور بند

اسلام آباد:

پاکستان نے کہا ہے کہ دوحہ جنگ بندی معاہدے کے بعد سے افغان سرزمین سے کوئی بڑا دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوا ہے۔ اسلام آباد اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور استنبول میں آج ہوگا۔دفتر خارجہ نے اس پیش رفت کو مثبت نتیجہ قرار دیا ہے۔

 ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اس وقت بند ہے اور سیکیورٹی صورتحال کے جائزے تک بند ہی رہے گی۔ دفتر خارجہ کے نئے تعینات ہونے والے ترجمان طاہر اندرابی نے اپنی پہلی ہفتہ وار میڈیا بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ہفتے کے اوائل میں دوحہ میں طے پانے والی جنگ بندی نے بڑے پیمانے پر اپنے آپ کو برقرار رکھا ہے۔

 طاہر اندرابی نے کہا گزشتہ دو تین دنوں میں پاکستان میں افغان سرزمین سے کوئی بڑا دہشت گردانہ حملہ نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا درحقیقت دوحہ مذاکرات نتیجہ خیز رہے ہیں۔ ہم چاہیں گے کہ یہ رجحان استنبول اور بعد از استنبول بھی جاری رہے۔ ترجمان نے کہا کہ افغان فریق سے پاکستان کی اہم توقع بدستور برقرار ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔

 طاہر اندرابی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسلام آباد نے مقصد اور ارادے کے اخلاص کے ساتھ اس عمل سے رجوع کیا۔ بات چیت کا مقصد ایک تصدیق شدہ اور تجرباتی طریقہ کار قائم کرنا تھا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کابل میں طالبان کی حکومت پاکستان کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے۔

 انہوں نے تصدیق کی کہ دوحہ معاہدہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں وفود کی سطح پر ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں ہوا جس میں سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے اور سرحد پر امن کی بحالی پر توجہ دی گئی۔

 آج 25اکتوبر کو استنبول میں ترکیہ کی میزبانی میں اگلے اجلاس کے دوران مجوزہ نگرانی کے فریم ورک کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ نہیں معلوم کہ نمائندہ خصوصی محمد صادق دوحہ مذاکرات میں کیوں شریک نہیں ہوئے۔ باضابطہ معاہدے کے وجود کو متنازع بنانے والے افغان حکام کے حالیہ بیانات کے بارے میں سوالات کے جواب میں طاہر اندرابی نے کہا پاکستان اصطلاحات کو اہمیت نہیں دیتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم طالبان کی طرف سے منسوب کردہ ناموں کو زیادہ توجہ نہیں دیتے، چاہے یہ اتفاق ہو یا جنگ بندی ہو یا معاہدہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ٹھوس دستاویز کو حتمی شکل دی گئی جو قابل تعریف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان افغان دھمکیوں اور سرحد پار سے حملوں کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ اسلام آباد کی سلامتی اور اس کے شہریوں کی زندگیوں کو تجارتی سہولتوں پر ترجیح دی جائے۔ ترجمان دفترِ خارجہ طاہر اندرابی نے کہا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اس وقت بند ہے اور سکیورٹی صورتحال کے جائزے تک بند ہی رہے گی۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے منسلک سرحدی پوائنٹس پر پاکستان کے خلاف مسلح حملے کیے گئے۔ ان حملوں میں پاکستانی مارے گئے۔ ہمارے لیے پاکستانیوں کی جانیں کسی بھی تجارت سے زیادہ اہم ہیں۔

 طاہر اندرابی نے اگرچہ اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ استنبول مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت کون کرے گا تاہم انہوں نے کہا کہا کہ ایک نمائندہ پاکستانی وفد اجلاس میں شرکت کرے گا۔ترجمان دفتر خارجہ نے طالبان کے دریائے کنڑ پر ڈیم بنانے کے منصوبے کے بارے میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس معاملے کا جائزہ لے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی دریا بین الاقوامی قانون کے تحت چلتے ہیں۔ اس طرح کے معاملات میں پاکستان ایک بالائی اور زیریں دونوں طرح کا علاقہ ہے اور ہم اس کے مطابق اس معاملے کی پیروی کریں گے۔

اندرابی نے کہا کہ پاکستان اب بھی افغانستان میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے۔ کابل میں طالبان کی حکومت کے لیے ہمارا پیغام واضح ہے، سرحد پار سے حملوں کو روکیں، ٹی ٹی پی اور دیگر مسلح گروپوں کے دہشت گردوں کو کنٹرول کریں اور انہیں پکڑیں تو ہمارے تعلقات دوبارہ پٹری پر آسکتے ہیں۔ ہم ان سے کوئی چاند نہیں مانگ رہے ہم ان سے اپنے وعدوں پر عمل کرنے کا کہہ رہے ہیں۔

دفترِ خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا پولینڈ کے وزیرِ خارجہ پاکستان پہنچے، جہاں پاکستان اور پولینڈ کے درمیان دو یادداشتوں پردستخط کیے گئے۔ پاکستان فلسطینی عوام کے منصفانہ کاز کی بھرپور حمایت جاری رکھے گا۔ ترجمان نے بتایا کہ عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کے خلاف ایک اور مشاورتی رائے دی ہے۔

جنوری 2024 سے اب تک یہ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف کا چوتھا فیصلہ ہے۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کے رواں ہفتے تین اہم سفارتی رابطے ہوئے۔ان میں امارات، سعودی عرب اور مراکش کے وزرائے خارجہ سے علیحدہ علیحدہ گفتگو شامل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان کل ترکی میں سلامتی مذاکرات ہوں گے،  دفتر خارجہ
  • پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات کا ترکیہ میں آج دوسرا دور، سرحدی گزرگاہیں بدستور بند
  • پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور کل ہو گا
  • نوزائیدہ بچوں کے لیے فارمولا دودھ معیشت پر بوجھ، وزیر مملکت کا بریسٹ فیڈنگ پر زور
  • پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات کا اگلا مرحلہ کل ترکیہ میں ہوگا — ترجمان دفتر خارجہ
  • پاکستان، افغانستان اور مستقبل کے امکانات
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف کا ’روشن معیشت بجلی پیکیج‘، صنعت و زراعت کے لیے 3 سالہ رعایتی منصوبے کا اعلان
  • دوحا مذاکرات کا مستقبل
  • پاکستان طالبان رجیم سے مذاکرات ضرور کرے مگر بارڈر پر بھی نظر رکھے، اعزاز احمد چوہدری