وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہاہے کہ سیاسی بنیاد پر کسی جماعت پر پابندی کی قانون آئین و اجازت نہیں دیتا۔ راناثناء اللہ نے کہاکہ جن افراد پر مقدمات درج ہیں وہ عدالت میں ان کا سامنا کریں۔انہوںنے کہاکہ جو بات 2021ء میں درست تھی وہی ریفرنس اس حکومت نے دائر کیا ہے، یہی چیزیں جب 2021ء میں ہوئیں تو اس وقت حکومت نے پابندی لگائی۔مشیروزیراعظم نے کہاکہ وزیر اعلیٰ کے پی گھومتے پھرتے آئے تو دیر ہو گئی اس لیے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ ہو سکی، وزیر اعلیٰ کے پی وقت پر جائیں تو ملاقات ہو جائے گی۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

قیدیوں کی سیاسی گفتگو پر پابندی آمرانہ سوچ کی عکاسی ہے، پی ٹی آئی

 پاکستان تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے قیدیوں کی سیاسی گفتگو پر پابندی سے متعلق رول 265 کی بحالی پر شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے ایک ایسے قانون کو دوبارہ زندہ کیا ہے جو غلامی اور آمرانہ دور کی علامت تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عدالتی فیصلہ مسترد کرتے ہیں، 9 مئی کیسز کے فیصلے پر پی ٹی آئی رہنماؤں کا ردعمل

پی ٹی آئی کے اعلامیے کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پنجاب حکومت کی درخواست پر رول 265 کو بحال کر دیا، جو قیدیوں کو سیاسی گفتگو سے روکتا ہے۔ پارٹی ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عمران خان جیسے قومی رہنما کی آواز دبانے اور ان کے سیاسی اظہار کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ مارچ 2025 میں عدالت نے واضح طور پر حکم دیا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقاتیوں کی فہرست کے مطابق منگل اور جمعرات کو ملاقاتیں کرائی جائیں، تاہم اڈیالہ جیل انتظامیہ عدالتی فیصلوں کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی عمران خان سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کروں گا، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی

پارٹی کے مطابق آج بھی عدالت نے ملاقات کی اجازت دی مگر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی، بیرسٹر سلمان اکرم راجہ اور جنید اکبر کو جیل کے دروازے پر روک دیا گیا اور ملاقات نہیں ہونے دی گئی۔

پی ٹی آئی نے سوال اٹھایا کہ اگر عدالت اپنے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکتی اور جیل انتظامیہ کھلم کھلا عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرے تو انصاف کا مقصد کیا رہ جاتا ہے؟

’پابندی عمران خان کی آواز کو مکمل دبانے کی سازش ہے‘

ترجمان کا کہنا تھا کہ ایک طرف عدالتی فیصلوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے، دوسری جانب سیاسی قیدیوں کے لیے ایک آمرانہ قانون بحال کر کے اُن کے منہ پر تالے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے، جو عمران خان کو مکمل طور پر خاموش کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’میرے ڈولے چیک کرو‘، بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں وکلا سے کیا گفتگو کرتے ہیں؟

اعلامیے میں کہا گیا کہ عمران خان پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے قائد ہیں، اُن کی سیاست پر بات کرنا کوئی جرم نہیں بلکہ ہر شہری کا حق ہے۔ ایسے قوانین اور فیصلے جو سیاسی رہنماؤں کی زبان بندی کے لیے استعمال ہوں، وہ جمہوریت نہیں بلکہ فسطائیت کی بدترین شکل ہیں۔

پی ٹی آئی نے مؤقف اپنایا کہ عمران خان کی آواز قید نہیں کی جا سکتی، اُن کے نظریے کو کسی ظالمانہ فیصلے یا آمرانہ قانون سے دبایا نہیں جا سکتا۔ ترجمان نے کہا کہ عمران خان بولیں گے اور انشاءاللہ پورا پاکستان اُن کے ساتھ بولے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اڈیالہ جیل پابندی پی ٹی آئی سیاسی رہنما عمران خان میڈیا ٹاک

متعلقہ مضامین

  • تحریک لبیک پر پابندی
  • رانا ثنااللہ: تحریک لبیک نے وعدے پورے نہیں کیے، املاک کو نقصان پہنچایا ، پابندی کا فیصلہ شواہد کی بنیاد پر کیا گیا
  • تحریک لبیک کو شیڈول ون کے تحت کالعدم قرار دیا گیا ہے ۔شیڈول ون کیا ہے
  • کسی سیاسی جماعت پر پابندی کا طریقہ کار کیا ہے؟
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے قیدیوں کی سیاسی گفتگو پر پابندی بحال کر دی
  • قیدیوں کی سیاسی گفتگو پر پابندی آمرانہ سوچ کی عکاسی ہے، پی ٹی آئی
  • وفاقی حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی پر پابندی کا فیصلہ متوقع: عظمیٰ بخاری
  • شہباز شریف سے خیبرپی کے ارکان پارلیمنٹ ‘ رہنمائوں کی ملاقات سیاسی صورتحال پر گفتگو
  • سیاسی اختلافات کی آڑ میں پنجاب حکومت عوام کے بنیادی حقوق سلب کر رہی ہے، وزیراعلیٰ کے پی کے سہیل آفریدی