بھارت افغان پروپیگنڈا، چمن کے پرانے اجتماع کی ویڈیو کو موجودہ حالات سے جوڑنے کی کوشش ناکام
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
اسلام آباد:
پاکستان کی وزارت اطلاعات و نشریات نے افغان طالبان حکومت اور بھارت سے منسلک سوشل میڈیا نیٹ ورکس کی جانب سے پاکستان کے خلاف جاری منظم جھوٹی پروپیگنڈا مہم بے نقاب کردی۔
وزارت اطلاعات کے مطابق بھارتی اور افغان طالبان سے جڑے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پاکستان کے خلاف گمراہ کن مواد پھیلانے میں مصروف ہیں، ان اکاؤنٹس نے چمن اجتماع کی پرانی ویڈیوز کو نیا ظاہر کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔
وزارت اطلاعات نے بتایا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز دسمبر 2022 میں چمن کے ایک اجتماع کی ہیں، جنہیں موجودہ حالات سے جوڑ کر جھوٹے بیانیے، من گھڑت خبریں اور جعلی تصاویر کے ذریعے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزارت اطلاعات نے کہا کہ یہ مہم افغان طالبان رجیم کی منظم اور مذموم کوششوں کا حصہ ہے، جس کا مقصد پاکستان کے مؤقف کو کمزور اور عوامی تاثر کو مسخ کرنا ہے۔
ترجمان کے مطابق پرانی ویڈیوز کو نیا ظاہر کرنا اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا افغان طالبان کے منفی عزائم اور پاکستان مخالف ایجنڈے کی واضح عکاسی کرتا ہے۔
وزارت اطلاعات نے واضح کیا کہ بھارت افغان پروپیگنڈا مشین کا سب سے بڑا سہولت کار ہے، جو پاکستان دشمن بیانیے کو تقویت دینے کے لیے افغان ذرائع کا سہارا لے رہا ہے۔
پاکستان نے دوٹوک مؤقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ جھوٹے پروپیگنڈا سے حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے ہیں اور ریاست پاکستان ہر سازش کا منہ توڑ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: وزارت اطلاعات افغان طالبان
پڑھیں:
سوشل میڈیا اور پاکستانی معاشرہ
اکیسویں صدی کا انسان اپنی جیب میں ایک ایسی دنیا لیے پھرتا ہے جسے ہم ’’سوشل میڈیا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ دنیا روشنی بھی دیتی ہے اور سایہ بھی ڈالتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس کے اثرات نہ صرف ثقافتی سطح پر محسوس کیے گئے ہیں بلکہ خاندانی نظام، مذہبی اقدار اور ریاستی ساکھ پر بھی براہِ راست اثر انداز ہورہے ہیں۔
خاندانی نظام کا بکھرتا ہوا نقشہ
پاکستانی معاشرہ ہمیشہ خاندان کے مضبوط رشتوں اور مشترکہ اقدار پر کھڑا رہا ہے۔ مگر اب منظرنامہ بدل رہا ہے۔ ایک ہی کمرے میں بیٹھے افراد اپنی اپنی اسکرینوں میں گم ہیں۔ نوجوان نسل، جو کل تک والدین کی آنکھوں سے دنیا دیکھتی تھی، آج ’’فالورز‘‘ اور ’’لائیکس‘‘ کے پیمانے سے حقیقت کو پرکھ رہی ہے۔
ٹک ٹاک اور انسٹاگرام کے مختصر ویڈیوز نے وقت کی سنجیدگی کو مذاق بنادیا ہے۔ لمحاتی شہرت کے لالچ نے تعلیم، اخلاق اور سنجیدگی کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ یہ ایسا دکھاوا ہے جس میں حقیقت کا سایہ دھندلا جاتا ہے۔
مذہبی و اخلاقی اقدار کا زوال
یہ چمکتی اسکرینیں گھروں سے حیا اور شائستگی کی روشنی چرا رہی ہیں۔ وہ نوجوان جو کبھی اساتذہ اور بزرگوں سے رہنمائی لیتے تھے، اب انسٹاگرام انفلوئنسرز کو اپنا رہنما مانتے ہیں۔ مذہبی اصول اور اخلاقی قدریں تیزی سے زوال پذیر ہیں، اور فوری تفریح کا نشہ نئی نسل کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔
افواہوں کا ہتھیار اور ریاستی سلامتی
مئی 2025 کی جنگ نے یہ راز کھولا کہ سوشل میڈیا محض تفریح نہیں بلکہ بارود کا وہ ڈھیر ہے جس پر معاشرہ ہے۔ جھوٹی خبریں اور گمراہ کن ویڈیوز نے عوامی اضطراب کو بڑھایا اور دنیا میں پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچایا۔ یہ دور وہ ہے جہاں بندوق سے زیادہ خطرناک چیز ’’کی بورڈ‘‘ ہے۔
ذہنی صحت کا اندھیرا
تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان کے 62 فیصد نوجوان سوشل میڈیا کے باعث ذہنی دباؤ، اضطراب اور احساسِ کمتری کا شکار ہیں۔ لائیکس اور کمنٹس کی وقتی خوشی جلد ختم ہوکر بوجھ میں بدل جاتی ہے۔ دوستیوں کی گہرائی کم ہوگئی ہے، اور تنہائی ایک مستقل ہمسفر بن چکی ہے۔ یہ ایسا جنگل ہے جہاں ہر درخت ہرا بھرا دکھائی دیتا ہے مگر جڑیں کھوکھلی ہورہی ہیں۔
عالمی منظرنامہ اور تقابلی جائزہ
یہ بحران عالمی ہے، اور مختلف ممالک نے اپنے اپنے انداز میں اس کا سامنا کیا ہے۔
عرب دنیا
سعودی عرب میں فحش اور مذہب سے متصادم مواد پر فوری پابندی لگائی جاتی ہے، خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔
UAE کے سائبر کرائم قوانین ریاستی بیانیے اور اخلاقی سرحدوں کی سخت حفاظت کرتے ہیں۔
قطر و کویت نے بھی مذہبی اور ثقافتی اقدار کو اولین ترجیح دی ہے۔
ان اقدامات نے سوشل میڈیا کو مکمل ختم نہیں کیا لیکن اسے اخلاقی حدود میں رکھنے میں کامیابی ضرور دی ہے۔
امریکا
امریکا نے سوشل میڈیا کو زیادہ تر آزادی دی ہوئی ہے، مگر وہاں جھوٹی خبروں، ڈیٹا پرائیویسی اور الیکشن میں مداخلت جیسے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ Meta اور X (Twitter) جیسی کمپنیوں کو بارہا کانگریس کے سامنے جواب دہ ہونا پڑا ہے۔ امریکا کا جھکاؤ اظہارِ رائے کی آزادی پر ہے، مگر یہی آزادی بے لگامی بھی پیدا کرتی ہے۔
برطانیہ
برطانیہ نے 2023 میں Online Safety Act نافذ کیا، جس کے تحت پلیٹ فارمز کو بچوں کو نقصان دہ مواد سے بچانے اور نفرت انگیز یا دہشت گردانہ مواد روکنے کا پابند بنایا گیا۔ یہ قانون مغربی دنیا کے سخت ترین قوانین میں شمار ہوتا ہے۔
یورپ
یورپی یونین نے Digital Services Act (DSA) اور General Data Protection Regulation (GDPR) نافذ کیے۔
DSA جھوٹی خبروں، نقصان دہ مواد اور پلیٹ فارمز کی شفافیت پر زور دیتا ہے۔
GDPR صارف کے ڈیٹا کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، جس سے پرائیویسی کی خلاف ورزی تقریباً ناممکن ہو گئی ہے۔
پاکستان کےلیے عالمی ماڈلز سے سبق
پاکستان اگر عرب دنیا کی اخلاقی سرحدوں کے تحفظ کی سختی اور یورپ کی ڈیٹا پروٹیکشن و شفافیت کو ملا کر پالیسی اپنائے تو متوازن نظام تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ نہ مکمل آزادی کارآمد ہے نہ مکمل پابندی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ:
تعلیمی ادارے نوجوانوں کی فکری تربیت کریں۔
ریاست واضح قوانین بنائے اور سختی سے نافذ کرے۔
خاندان اپنی نگرانی اور رشتوں کی حرارت دوبارہ زندہ کرے۔
سوشل میڈیا ایک ایسی آگ ہے جو چراغ بھی بن سکتی ہے اور الاؤ بھی۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم نے بروقت قدم نہ اٹھایا تو آنے والی تاریخ یہی لکھے گی کہ ’’ایک نسل نے اپنی جڑوں کو خود ہی کاٹ ڈالا تھا‘‘۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔