محکمہ اطلاعات کے چار فلمی منصوبے مکمل، جلد عوام کے سامنے پیش کیے جائیں گے
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
محکمہ اطلاعات سندھ نے چار فلمی منصوبے مکمل کرلیے ہیں جنہیں حتمی شکل دے کر جلد عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ان منصوبوں میں تین دستاویزی فلمیں اور ایک فیچر فلم شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کی زیرِ صدارت محکمہ اطلاعات کے کنٹینٹ اینڈ پروڈکشن بورڈ کے اجلاس میں کیا گیا، جس میں صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے خصوصی شرکت کی۔ اجلاس میں بورڈ کے اراکین قاضی اسد عابد، اداکارہ ژالے سرحدی، سیکریٹری اطلاعات ندیم الرحمان میمن، ڈی جی اطلاعات معز پیرزادہ اور دیگر افسران بھی شریک ہوئے۔
اجلاس کے دوران بریفنگ میں بتایا گیا کہ محکمہ اطلاعات کے تحت مکمل ہونے والے فلمی منصوبے سندھ کی ثقافت، تاریخ اور سماجی اقدار کو اجاگر کرتے ہیں۔ اجلاس میں ان فلموں کے مواد، فنی معیار، اور سماجی و ثقافتی اثرات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
بورڈ نے نئی دستاویزی اور فیچر فلموں کے آئندہ مراحل، ان کی مارکیٹنگ، نمائش، اور عوامی رسائی سے متعلق امور پر بھی غور کیا۔
اس موقع پر وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ سندھ حکومت ثقافت، تاریخ اور عوامی جدوجہد کو اجاگر کرنے کے لیے جدید میڈیا اور فلم سازی کو مؤثر ذریعہ سمجھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبے نہ صرف صوبے کے مثبت تشخص کو نمایاں کریں گے بلکہ نوجوان فلم سازوں اور اداکاروں کو اپنی تخلیقی صلاحیتیں دکھانے کا موقع بھی فراہم کریں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ حکومت فنونِ لطیفہ، فلم اور میڈیا کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دے رہی ہے تاکہ صوبے کے ثقافتی ورثے کو عالمی سطح پر روشناس کرایا جا سکے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مکمل ہونے والے منصوبوں کو جلد نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا، جبکہ آئندہ فلمی منصوبوں کے لیے تجاویز بھی بورڈ کے سامنے رکھی جائیں گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: محکمہ اطلاعات اجلاس میں
پڑھیں:
کے ڈی اے میں 11 ارب روپے سے زائد کے ٹھیکے بغیر ٹینڈر دینے کا انکشاف، انکوائری کا حکم
کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) میں 11 ارب 33 کروڑ روپے مالیت کے منصوبے بغیر ٹینڈر اور قواعد کے دیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے فوری تحقیقات کا حکم جاری کردیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، کے ڈی اے نے اربوں روپے کے کنسلٹنسی ٹھیکے بغیر اشتہار، بڈنگ یا قانونی طریقۂ کار کے دیے۔ اس انکشاف کے بعد وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے معاملے کو “انتہائی سنگین” قرار دیتے ہوئے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ اور وزیر منصوبہ بندی و ترقی جام خان شورو کو مشترکہ طور پر انکوائری کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔
چیف منسٹر سیکریٹریٹ سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات ایم/ایس عاطف نذر پرائیویٹ لمیٹڈ نامی کمپنی کو 11 ارب روپے سے زائد کے منصوبے بغیر اشتہار اور باضابطہ ٹینڈرنگ کے دیے جانے کے معاملے پر کی جائیں گی۔
یہ کارروائی سندھ کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے درج کی گئی شکایت پر شروع کی گئی ہے، جس میں کے ڈی اے پر سنگین مالی بے ضابطگیوں اور انتظامی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
شکایت کے مطابق، کے ڈی اے نے ابتدا میں مذکورہ کمپنی کوسرجانی ٹاؤن کے ایف ایل-4، ایف-5 اور سیکٹر 7-بی میں ایک منصوبہ ٹینڈر کے ذریعے دیا تھا، تاہم بعد ازاں بغیر کسی اشتہار یا بولی کے اسی کمپنی کو کئی بڑے منصوبے بھی دے دیے گئے۔
رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ ادارے نے ایس پی پی آر اے اورپلاننگ کمیشن کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ہی کنسلٹنٹ پر انحصار کیا، جس سے مالی نقصان کا خدشہ پیدا ہوا۔
مزید بتایا گیا کہ کریم آباد انڈر پاس کی ابتدائی لاگت 70 کروڑ روپے مقرر تھی، جو بعد میں بڑھ کر 1.35 ارب اور پھر 3.81 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ منصوبے کو پرانے CSR 2012 ریٹس پر ٹینڈر کیا گیا، لیکن بعد میں غیرقانونی طور پر CSR 2024 ریٹس نافذ کر دیے گئے، حالانکہ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ بورڈ نے پرانے ٹینڈرز منسوخ کر کے نئے جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ منصوبے کے ڈیزائن میں سنگین تکنیکی خامیاں پائی گئیں — دیواروں میں پانی کا رساؤ شروع ہوچکا ہے — اس کے باوجود کے ڈی اے نے اسی کمپنی کو مزید منصوبے دیے، جن میں منور چورنگی انڈر پاس اسکیم بھی شامل ہے۔
دستاویزات کے مطابق، کے ڈی اے نے مذکورہ کمپنی کوان ہاؤس کنسلٹنٹ” کا درجہ دے رکھا ہے، جس کے تحت اسے براہ راست پی سی-ون تیار کرنے اور جمع کرانے کی اجازت ہے۔
سندھ کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن نے اپنی درخواست میں الزام عائد کیا ہے کہ کمپنی کے بیشتر منصوبے، جن میں اسپتال، اسکول اور سرکاری عمارتیں شامل ہیں، یا تو نامکمل ہیں یا غیر معیاری ثابت ہوئے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے واضح کیا ہے کہ تمام الزامات کی جانچ قانون، قواعد اور شفافیت کے تقاضوں کے مطابق کی جائے گی تاکہ ذمہ داران کا تعین ہو سکے اور مستقبل میں ایسے معاملات کی روک تھام کی جا سکے۔