ایف بی آر کے اختیارات محدود، ٹیکس معاملات میں نئی پالیسی نافذ
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط پر عمل کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اختیارات تبدیل کر دیئے ہیں۔ جس کے تحت ایف بی آر اب صرف ٹیکس وصول کرے گا، ٹیکس پالیسی نہیں بنائے گا۔تفصیلات کے مطابق آئی ایم ایف کی شرط کی تعمیل کرتے ہوئے حکومت نے وزارت خزانہ میں ٹیکس پالیسی آفس کو فعال کر دیا ہے۔ جس کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) اب صرف ٹیکس اکٹھا کرنے والا ادارہ ہوگا اور ٹیکس پالیسی نہیں بنائے گا، ٹیکس پالیسی بنانے کا اختیار نئے دفتر کے پاس ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر نجیب احمد میمن کو 2 سال کے لیے ٹیکس پالیسی آفس کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے جب کہ دیگر اہم تقرریوں کا مرحلہ بھی مکمل ہو گیا ہے۔ نعیم حسن کو ڈائریکٹر بزنس ٹیکسیشن، فدا محمد کو ڈائریکٹر انٹرنیشنل ٹیکسیشن، منیر احمد کو ڈائریکٹر ڈائریکٹ/ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن اور اعجاز حسین کو ڈائریکٹر پرسنل ٹیکسیشن تعینات کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹیکس پالیسی آفس آئندہ ہفتے سے کام شروع کر دے گا اور قواعد و ضوابط کی تیاری مکمل کر لی جائے گی۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ نیا دفتر انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے متعلق پالیسی تیار کرے گا جب کہ مالی سال 2027 کے لیے ٹیکس پالیسیوں کی تیاری کا عمل اگلے ہفتے شروع ہونے جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
سندھ بلڈنگ کا محکمہ عمارتی بے قاعدگیوں کا اڈہ بن گیا
محمودآباد کے رہائشی پلاٹ سی 399پر غیر قانونی تجارتی تعمیرات کی دھما چوکڑی جاری
رہائشی پلاٹوں پر کمرشل یونٹس ، ڈائریکٹر شاہد خشک پر ‘منافع بخش خاموشی’ کے الزامات
کراچی (اسٹاف رپورٹر)شہر کے گنجان آباد علاقے محمودآباد کے رہائشی پلاٹ سی 399 پر دکانیں اور کمرشل پورشن یونٹس کی غیر قانونی تعمیرات نے شہری انتظامیہ کے ناکام ہونے کی داستان رقم کر دی ہے ۔مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر شاہد خشک کی مبینہ چشم پوشی کے باعث یہ علاقہ تعمیراتی بے ضابطگیوں کا مرکز بن چکا ہے ۔جرأت سروے کے مطابق، محمودآباد نمبر 2 کے رہائشی زون میں واقع پلاٹ سی 399 بالمقابل ایچ بی ایل کنیکٹ سینٹر پر بغیر کسی قانونی اجازت یا منظوری کے متعدد دکانیں اور تجارتی یونٹس تعمیر کیے جا رہے ہیں، جس سے نہ صرف علاقے کی منصوبہ بندی بری طرح متاثر ہو رہی ہے بلکہ پانی، گیس اور بجلی کے بنیادی ڈھانچے پر بھی غیرضروری دباؤ پڑ رہا ہے ۔مقامی رہائشیوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے اس مسئلے پر متعدد بار سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو آگاہ کیا، حتیٰ کہ تحریری شکایات بھی جمع کروائیں،مگر ڈائریکٹر شاہد خشک سمیت کسی بھی افسر نے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی۔ یہی ‘منافع بخش خاموشی’ غیرقانونی تعمیرات کو فروغ دے رہی ہے ۔شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں رہائشی اور تجارتی زون کی واضح تقسیم موجود ہے ، اور رہائشی علاقوں میں کمرشل تعمیرات کی اجازت نہیں ہے ۔ ایسی غیر قانونی تعمیرات نہ صرف شہری منصوبہ بندی کو تباہ کرتی ہیں بلکہ حفاظتی خطرات بھی پیدا کرتی ہیں۔عوام کا مطالبہ ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل فوری طور پر اس معاملے میں مداخلت کریں،غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کریں، اور الزامات میں ملوث افسران کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے ایک ٹرانسپیرنٹ انکوائری کمیشن قائم کریں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا کراچی میں عمارتی قوانین کا احترام ہوگا، یا پھر ‘تعمیراتی مافیا’ اور سرکاری افسران کے گٹھ جوڑ سے شہر کی منصوبہ بندی تباہ ہوتی رہے گی؟