لاہور میں پیدا ہونے والی بھارت کی لیجنڈری اداکارہ 98 برس کی عمر میں چل بسیں
اشاعت کی تاریخ: 17th, November 2025 GMT
ماضی کی معروف ہیروئن اور سینیئر اداکارہ کامنی کوشل کی آخری رسومات ادا کردی گئیں جس میں اہل خانہ، فلمی ستاروں اور ان کے مداحوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
بھارتی فلم انڈسٹری میں سات دہائیوں سے راج کرنے والی اداکارہ کامنی کوشل گزشتہ روز جہان فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔ وہ فروری 1927 کو لاہور میں پیدا ہوئی تھیں۔
وہ عمر رسیدگی سے جڑی بیماریوں میں مبتلا تھیں۔ اہل خانہ نے ان کے انتقال کی تصدیق کی لیکن موت کی وجہ نہیں بتائی البتہ میڈیا اور مداحوں سے نجی رازداری کو برقرار رکھنے کی درخواست کی ہے۔
ان کے انتقال کی خبر نے نہ صرف ان کے اہلِ خانہ بلکہ دنیا بھر میں موجود ان کے چاہنے والوں کو گہرے صدمے میں ڈال دیا۔
اداکارہ کامنی کوشل کو بالی وڈ کے سنہرے دور کی علامت سمجھا جاتا تھا اور ان کی فنکارانہ خدمات سات دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط تھیں۔
کامنی کوشل نے اپنی زندگی میں کئی مشکل اور کٹھن دور دیکھے۔ اپنی بہن کے انتقال کے بعد بھانجیوں کی پرورش کے لیے محض 21 سال کی عمر میں اپنے بہنوئی سے شادی کی۔
اداکارہ کامنی کوشل نے اپنے تین بیٹوں اور بہن کی دو بیٹیوں کی پرورش یکساں طریقے سے کی اور ان کے درمیان کبھی تفریق نہیں کی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کامنی نے یہ شادی گھر والوں کے دباؤ پر کی تھی لیکن پھر اس رشتے کو بھرپور انداز سے نبھایا۔
کامنی کا شمار ان چند عظیم فنکاراؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے جب ہیروئن کا کردار نبھایا تو کامیابیاں اپنے نام کیں اور جب عام کردار ادا کیے تو انھیں امر کردیا۔
کامنی کوشل نے 1946 میں فلم نیچا نگر سے کیا جو تاحال کانز فلم فیسٹیول میں پالم ڈور جیتنے والی واحد بھارتی فلم ہے۔
علاوہ ازیں ان کی کامیاب فلموں میں شہید (1948) ندیا کے پار (1948) ضدی (1948) شبنم (1949) اور آرزو (1950) شامل ہیں۔
فلموں کے علاوہ ٹی وی پروگرامز میں بالخصوص بچوں کے لیے خصوصی پروگرامز بھی پروڈیوس کیے۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل اداکارہ کامنی کوشل
پڑھیں:
لاہور ہائیکورٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر
لاہور (نیوزڈیسک) لاہور ہائی کورٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواست دائر کر دی گئی۔
منیر احمد اور میاں شبیر اسماعیل سمیت وکلا کی جانب سے ترامیم کو چیلنج کرتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا کہ ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہیں۔
درخواست گزاروں نے درخواست میں ترامیم کو 1973 کے آئین کی روح کے بھی منافی قرار دیا، سپریم کورٹ کا اصل اختیار ختم کر کے وفاقی آئینی عدالت کو اوپر بٹھا دیا گیا۔
مؤقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ کی حیثیت کمزور ہونے اور عدلیہ کی آزادی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے، موجودہ اسمبلی حقیقی آئین ساز اسمبلی نہیں، اسے اتنی بڑی ترامیم کا اختیار حاصل نہیں۔
درخواست میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ترامیم اسلامی دفعات، عدالتی خودمختاری اور بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔