ملکی برآمدگان پر نافذ کردہ ایکسپورٹ ڈیویلپمنٹ سرچارج کو فوری طور پر ختم کر دیا جائے: وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ملکی برآمدات میں اضافے کے لیے قائم کردہ ذیلی ورکنگ گروپ کے سفارشات پر جائزہ اجلاس ملکی برآمدگان پر نافذ کردہ ایکسپورٹ ڈیویلپمنٹ سرچارج کو فوری طور پر ختم کر دیا جائے۔ وزیراعظم کی خصوصی ہدایت ایکسپورٹ ڈیویلپمنٹ فنڈ کا پچھلے پانچ سال کا عالمی معیار کے مطابق تھرڈ پارٹی آڈٹ کروایا جائے۔وزیراعظم کی خصوصی ہدایت ایکسپورٹ ڈیویلپمنٹ فنڈ میں موجودہ رقم کےبہترین استعمال کے لیے پرائیویٹ سیکٹر سے موزوں چیئرمین کو منتخب کیا جائے۔وزیراعظم ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ میں موجود رقم کو صرف ملکی برآمدات میں اضافے،متعلقہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ، برآمدی سیکٹر کی افرادی قوت کی ہنر مندی، ٹریننگ اور عالمی معیار کی جدید سہولتوں کے لیے استعمال کیا جائے۔وزیراعظم کی خصوصی ہدایت ایکسپورٹ ڈیویلپمنٹ فنڈ کے تحت جاری پروگرام اور تمام سکیمز کی بھی تھرڈ پارٹی اڈٹ کروایا جائے۔ وزیراعظم ملکی برآمدات میں اضافے کے لیے TDAP کے کردار کا اصلاحاتی جائزہ اور تشکیل نو کی جائے۔ وزیراعظم کی ہدایت ایکسپورٹ ڈیویلپمنٹ فنڈ کا غیر متعلقہ اور غیر منطقی استعمال کسی صورت قابل قبول نہیں۔وزیراعظم دنیا بھر میں پاکستان کی برآمدی اشیاء کی برآمدی اشیاء کی تشہیر اور پروموشن وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم ملکی برآمدات میں اضافے کے لیے صنعت کاروں کو فوری طور پر ہر ممکن سہولت پہنچانا حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ وزیراعظم اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیر صدارت ملکی برآمدات میں اضافے کے لیے اکتوبر میں قائم کردہ ذیلی ورکنگ گروپ نے شعبے سے متعلق تحقیق کے بعد اپنی سفارشات اجلاس میں پیش کی۔ چیئر پرسن ذیلی ورکنگ گروپ مصدق ذوالقرنین نے تمام ممبران کی موجودگی میں اجلاس میں سفارشات پیش کیں۔ وزیراعظم نے ورکنگ گروپ کے کام کی تحسین کی اور سفارشات پر مثبت انداز میں غور کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کو فوری اقدامات کرنے کے موثر احکامات جاری کیے۔ اجلاس میں وفاقی وزیر برائے پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ احسن اقبال، وفاقی وزیر برائے خزانہ محمد اورنگزیب، وفاقی وزیر برائے کامرس جام کمال ، وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق ملک، وفاقی وزیر برائے پٹرولیم علی پرویز ملک، وزیر مملکت خزانہ اظہر بلال کیانی، چیئرمین ایس۔ ائی۔ ایف۔ سی ( SIFC) اور دیگر متعلقہ سرکاری عہدے داران نے شرکت کی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: وفاقی وزیر برائے وزیراعظم کی ورکنگ گروپ کو فوری
پڑھیں:
28ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کوئی بات زیر غور نہیں، وفاقی وزیر
وفاقی وزیر طارق فضل چودھری نے کہا ہے کہ 28 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کوئی بھی بات زیر غور نہیں ہے تاہم27 ویں ترمیم میں رہ جانے والی ترامیم پر اگر اتفاق رائے ہوا تو 28 ویں لائیں گے
وفاقی وزیر ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اٹھائہسویں ترمیم کے حوالے سے کوئی بھی بات زیر غور نہیں ہے، کچھ ترامیم ہم 27 ویں آئینی ترمیم میں لانا چاہ رہے تھے مگر وہ نہیں ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ 27 ویں ترمیم میں رہ جانے والی ترامیم پر اتفاق رائے ہوا تو 28 ویں لائیں گے ورنہ نہیں لائے جائے گی۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں اپنے موقف کو دہراتے ہوئے واضح کیا کہ اگر اتفاق رائے ہو گیا تو 28 ویں ترمیم بھی آجائے گی، ابھی فی الحال 28 ویں ترمیم کی کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ غلط پروپیگنڈا ہے کہ ہم 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنا چاہتے تھے، ہم کوئی بھی اقدام اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں کریں گے۔
رہنما ن لیگ نے کہا کہ حکومت کا کام ہوتا ہے کہ اپوزیشن اور اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلے، ہم نے کوشش کی اپوزیشن اور اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلیں اور تناو کی صورتحال کو کم سے کم کیا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں یہ کلچر شروع کیا۔ طارق فضل چودھری نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پالیمان میں وہ اپنا اپوزیشن کا کردار ادا کریں، حکومت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی ایوان میں اپنی تجاویز دے، ہمیں اس سے کیا غرض کہ کون اپوزیشن لیڈر لگایا جائے، رولز کی وضاحت ہم کر چکے ہیں، ان رولز کو فالو کریں، رولز فالو ہوں گے تو لگا دیا جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی اپوزیشن والوں سے ہاتھ تک نہیں ملاتے تھے، لیکن ہم سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی نہیں سمجھتے، سابق وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور جتنی دیر وزیر اعلیٰ رہے احتجاج کرتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری وسائل استعمال کر کے یلغار کی جاتی رہی ۔ لیگی رہنماوں کو الیکشن کمیشن کے نوٹس سے متعلق سوال کا جواب دیتے وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ سب کی ذمے داری ہوتی ہے کہ ضابطہ اخلاق کی پاسداری کی جائے، الیکشن کمیشن نے خلاف ورزی پر ہمارے لوگوں کیخلاف بھی نوٹس لیے، ایکٹ کے مطابق کارروائیاں بھی ہوتی ہیں۔