یوکرینی صدر زیلنسکی ڈرون حملے میں نشانہ بننے سے بچ گئے
اشاعت کی تاریخ: 5th, December 2025 GMT
آئرلینڈ میں سیکیورٹی اداروں نے اس وقت ہنگامی الرٹ جاری کیا جب آئرش بحریہ نے ڈبلن کے شمال مشرق میں، ایئرپورٹ سے تقریباً 20 کلومیٹر دور، یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے فلائٹ روٹ کے قریب پانچ مشکوک ڈرونز کو پرواز کرتے دیکھا۔
رپورٹس کے مطابق ڈرونز اسی مقام تک پہنچے جہاں سے صدر زیلنسکی کے طیارے کا گزر ہونا تھا، تاہم خوش قسمتی سے طیارہ مقررہ وقت سے پہلے لینڈ کرچکا تھا جس کے باعث کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہوا۔
آئرش حکام نے ڈرونز کی موجودگی سے یوکرینی سیکیورٹی کو آگاہ کیا لیکن صورتحال ایسی نہیں تھی کہ صدر کے دورے کے شیڈول یا سیکیورٹی پلان میں کوئی تبدیلی کی جائے۔
ادھر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک سخت بیان میں کہا ہے کہ اگر یورپ جنگ چاہتا ہے تو روس مکمل طور پر تیار ہے۔ انہوں نے یورپ پر الزام عائد کیا کہ وہ یوکرین امن معاہدے کو سبوتاژ کر رہا ہے اور اس کے پاس امن کا کوئی ایجنڈا نہیں۔
پیوٹن کے مطابق یورپی ممالک کا اصل مقصد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یوکرین میں امن قائم کرنے کی کوششوں سے روکنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یورپ زمینی حقائق تسلیم کرے تو روس مذاکرات کے لیے دروازہ کھلا رکھے گا، لیکن جنگ چھیڑنے کی صورت میں “مذاکرات کے لیے کوئی نہیں بچے گا۔”
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ضرورت پڑی تو فوج استعمال کر کے یوکرینی علاقے روس میں شامل کریں گے: روسی صدر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے امریکی صدر کی پیش کردہ امن تجاویز پر جاری بات چیت کے باوجود روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ یوکرین کے مشرقی علاقے روس میں شامل کیے بغیر کوئی بھی سمجھوتہ عملی طور پر ممکن نہیں۔
ماسکو میں بھارتی دورے روانگی سے قبل گفتگو کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ ڈونباس اور نووروسیا کا “آزادی” کے نام پر روسی کنٹرول میں آنا اُن کی ریاستی حکمتِ عملی کا بنیادی حصہ ہے اور ماسکو اس ہدف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ علاقے یا تو خود یوکرینی فوج خالی کر دے گی، یا روسی افواج زمینی کارروائی کے ذریعے اُن سے قبضہ واپس لے لیں گی۔
پیوٹن نے مزید دعویٰ کیا کہ واشنگٹن میں جاری مذاکرات میں ماسکو کے مطالبات کو سنجیدگی سے زیرِ غور لایا جانا چاہیے، بالخصوص ڈونباس کے مکمل الحاق کے معاملے پر۔
دو روز قبل امریکی صدر کی جانب سے جنگ بندی کے لیے پیش کیے گئے 28 نکاتی پلان پر ماسکو اور امریکی وفود کے درمیان ابتدائی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ اسی سلسلے میں آج یوکرینی وفد بھی امریکی حکام سے بات چیت کے لیے امریکا پہنچ رہا ہے، جسے واشنگٹن ایک اہم پیش رفت قرار دے رہا ہے۔
بین الاقوامی مبصرین کے مطابق روسی قیادت کا یہ حالیہ بیان اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ماسکو مذاکرات کو محض سفارتی مشق نہیں، بلکہ اپنے علاقائی مطالبات کے لیے دباؤ کے ہتھیار کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
دوسری جانب یوکرین نے ابھی تک کسی متنازع خطے کے روس میں انضمام کو ماننے کا عندیہ نہیں دیا، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بامعنی امن معاہدے کا راستہ ابھی بھی خاصا پیچیدہ اور طویل ہے۔