بے حسی و نااہلی ننھے ابراہیم کی موت کی ذمے دار
اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سیاسی رسہ کشی، عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے والے مناظر، ذہن کو تسلیم نہ ہونے والے اقدامات، کو دیکھ دیکھ کر ہمارا پورا معاشرہ ہی بے حس ہوگیا ہے لگتا ہے کہ دماغ خراب ہوجائیں گے یا ہوچکے ہیں۔ ایک خاتون جنہیں میں بھابھی کہونگا چونکہ وہ میرے دیرینہ دوست حفیظ اللہ نیازی کی بیگم ہیں وہ چند روز قبل پاکستان کے خلاف ایک منظم سازش کے تحت پی ٹی آئی کے منفی پروپیگنڈہ کرنے والے ’’ڈھنڈورچیوں‘‘ کے ہاتھ لگ گئیں، وہ پی ٹی آئی کے کارکن ٹرمپ کے آنے پر مٹھائی تقسیم کرتے ہوئے اڈیالا جیل کے باہر جمع ہوگئے تھے کہ اب ان کا لیڈر باہر آئے گا مگر ایسا کچھ نہ ہوا جس کے بعد زلفی بخاری، اور پی ٹی آئی کے بیرون ملک بیٹھے بھگوڑوں کے تمام تر پروپیگنڈے ناکام ہوگئے تو اب پی ٹی آئی کے وہ بھگوڑے عناصر نے اپنا منہ گند میں ڈال دیا اور اپنے لیڈر کی رہائی کے لیے بھارتی چینل، کا سہارہ لیا اور وہاں ہماری بھابھی سے انٹرویو کرادیا اور جس لیڈر کی رہائی کے پہلے بھی کوئی امید نہ تھی اس کی مزید امیدوں پر پانی پھر گیا۔ غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دینا کوئی بری بات نہیں مگر بھارتی میڈیا سبحان اللہ وہ تو خود اپنے ملکی معاملات پر خبروں پر دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے، مزید یہ کہ بھارتی میڈیا پر بیٹھ کر قتل کی دھمکیاں، عسکری قیادت کے خلاف نہ زیباء الفاظ، یہ کون سی نام نہاد سیاسی تحریک کا حصہ ہے؟؟ عوام کے دماغوں کو زنگ لگ گیا ہے یہ سوچ کر کہ ہماری بھابھی محترمہ نورین خان نیازی کی ملاقات اڈیالا جیل کے باسی سے کیوں کرائی گئی جن کے لیے وہ داد رسی لیکر بھارتی میڈیا کو پہنچ گئیں، ان کے اور سلائی مشین فیم علیمہ خان کے اس انٹرویو کا اہتمام لندن میں بیٹھے ایک بھگوڑے نے کیا تھا۔ یہ خبر عوام کے لیے یقینا پریشان کن ہے کہ پاکستان کے متعلق اتنا اول فول بکنے کے بعد وزیر اعلیٰ سرحد کو نظر انداز کرتے ہوئے نورین نیازی سے کیوں کرائی گئی؟؟ ہندوستانی میڈیا کا معاملہ لوگوں کو بھول گیا جب کراچی سے سندھ حکومت، سندھ میونسپلٹی کی بے حسی کی خبر آئی کہ عروس البلاد کراچی جہاں ایک دہائی سے بھٹو کے جانثاروں کی حکومت ہے، سائیں مراد علی شاہ تیسری بار وزیر اعلیٰ بن کر ہیٹ ٹرک کر چکے ہیں۔ یہاں ایک بچہ شہر کے مرکزی علاقے میں گٹر میں گر کر جان گنوا دیتا ہے، ماں باپ دادا دادی مدد کے لیے چیختے چلاتے ہیں، سرکاری اداروں کو فون کرتے ہیں کوئی مدد کو نہیں آتا۔ میڈیا کے شور مچانے پر ’’بھٹو کے زندہ‘‘ ہونے کی گواہی دینے والے انگڑائی لے کرجاگتے ہیں۔ سرکاری مشینری حرکت میں آتی ہے لیکن نتیجہ صفر۔ ایسے میں ایک تنویر نامی پتلا دبلا خاکروب، غلیظ سسٹم کی طرح لتھڑے غلیظ گٹر میں اُترتا ہے اور معصوم ابراہیم کی لاش ماں باپ کے حوالے کردیتا ہے۔ اب آپ بتائیں یہ تنویر کراچی کا ہیرو کہلانے کا مستحق ہے یا مرتضیٰ وہاب؟؟
یہ بھی ایک سانحہ ہے کہ وہ ادارے جو حکومت کی جانب سے ریسکو کے ذمے دار ہیں ان کی خفت مٹانے کے لیے کچرا اٹھانے والے تنویر جو گڑ میں گھس کر پندرہ گھنٹے بعد گٹر میں گرجانے والے تین سالہ ابراہیم کی لاش نکال کرلایا اسے موقع سے پہلے ہٹانے کی کوشش کی گئی مگر اہل محلہ نے شور مچایا تو اس کے انعام دینے کی بات کی گئی، دوسری جانب ذمے دارران اپنے گرم بستروں کو مزید گرم کررہے تھے اہل محلہ کے پاس، ان کے پاس کو ہی ذریعہ نہیں تھا کہ گٹر سے لاش نکالی جاسکے، ایک مشین ملی جس میں ڈیزل بھی محلے کے لوگوں نے پندرہ ہزار روپیہ کا چندہ کرکے ڈلوایا، رات دس بچے ابراہیم گٹر میں گرا ور دوسرے روز دصبح دس بجے کے بعد اسے ننھا بچہ تنویر ابراہیم کی لاش لایا، خیراتی امدادی ادارے ایدھی و یگر وہاں موجود تھے مگر مشینیں نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی خاطر خواہ کام نہ کرسکے۔ سندھ میں بھٹو ابھی تک زندہ ہے مگر اس صوبے کے بے شمار بچے بھٹو کو زندہ ماننے والے سیاسی لوگوں کی غیر ذمے داری کی وجہ سے لقمہ ٔ اجل بن چکے ہیں۔ کراچی میں رواں سال مین ہول اور نالوں میں گرکر جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 23 ہوگئی ہے۔ ایدھی حکام کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال مین ہول میں گر کر جان سے جانے والوں میں 3 سال کے بچوں سے لے کر 48 سال تک کے افراد شامل ہیں، حادثات سب سے زیادہ گارڈن میں پیش آئے جہاں 3 افراد مین ہول میں گر کر جاں بحق ہوئے۔ پاکستان کے قانون Section 319 PPC 322 کے تحت ذمے داران کو پانچ سال قید بامشقت بنتی ہے 2023ء میں بھی ان ہی قابل لوگوں کی حکومت تھی جس کے صرف 8 ماہ کے اعداد کے مطابق، کراچی میں ’’68 افراد‘‘ کھلے مین ہول کی وجہ سے ہلاک ہوئے، جن میں بچوں سمیت مرد و خواتین شامل تھے۔ 2025ء میں ابراہیم کے علاوہ پانچ بچے گٹر میں گر چکے ہیں، نشے کے عادی گٹر کے ڈھکنے فروخت کرکے چرس، افیم سے لطف اندوز ہوتے ہیں، غفلت ایک معمولی نام نظر آتا ہے غفلت پر بھی کڑی سزائین ہیں مگر اشرافیہ بڑی سزاؤں سے اپنے جرم کو غفلت کے لبادے میں اوڑھ کر بچ جاتی ہے حالیہ تاریخوں میں ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ قتل ہوئے، اور غفلت کا نام لیکر انہیں رہا کردیا گیا اگر جائزہ لیا جائے کہ غفلت کے ذمے دار کس سزا کے مستحق ہیں؟ تو وہ قتل ِ غفلت (Section 319 – 322 PPC) کے تحت سزا کا مستحق ہے اگر کسی کی غفلت (Negligence) سے کسی کی موت ہو جائے تو یہ قتل ِ خطا کہلاتا ہے۔ مین ہول کا ڈھکن نہ لگانا ایک واضح غفلت ہے۔ جس کی سزا 5 سال تک قید، جرمانہ یا دونوں نیز section 322 کے تحت دیت بھی لاگو ہوتی ہے غفلت و لاپروائی سے انسانی جان کو خطرے میں ڈالنا (Section 284 PPC) جس کے مطابق اگر کوئی ادارہ یا افسر ایسی جگہ پر خطرہ چھوڑ دے جہاں عوام آتے جاتے ہوں، جیسے کھلا مین ہول تو یہ criminal negligence کہلاتا ہے۔ اس کی سزا 6 ما ہ قید، سرکاری عہدے کا غلط استعمال / فرائض میں غفلت (Section 166 \ 217 \ 218 PPC) اگر میونسپل ادارے، کے ایم سی، واٹر بورڈ یا کوئی افسر اپنی ذمے داری پوری نہ کرے (مین ہول کور نہ لگائے، شکایت کے بعد ایکشن نہ لے)، تو یہ جرم بنتا ہے۔ اس کی سزا کم از کم 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 3 سال مع ملازمت سے معطلی، اگر ابراہیم کی موت پر ہمارا قانونی نظام مزید غفلت سے کام نہ لے تو کون کون ذمے دار ٹھیر سکتا ہے۔کراچی میں مین ہول زیادہ تر کے ایم سی کی ذمے داری ہوتے ہیں۔
Karachi Water Sewerage Corporation (KWSC) اگر سیوریج یا واٹر لائن کا مین ہول ہو تو واٹر بورڈ کو ملزم نامزد کیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگرماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو کیا 3 سالہ ابراہیم کے موت پرکسی کو واقعی سزا ہوجائے گی؟؟ بھٹو زندہ والے مرتضیٰ وہاب میئر موقع پر آئے جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں ننھے بچے ابراہیم کی لاش اٹھائی ہے ان کی آنکھیں آنسوں سے بھری تھیں، میئر نے اسے سیاسی شعبدہ بازی کہہ کر انکوائری کا حکم دے دیا، اب معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگا اگر پہلے کبھی کسی کو سزا ملی ہو تو ابھی بھی مل جائے گی، ماں کی گود اجڑنا مئیر کو سیاسی شعبدہ بازی لگتی ہے مرتضیٰ وہاب مئیر کراچی کے والد مرحوم وہاب صدیقی اور میں نے این ایس ایف میں ساتھ بڑے دن گزارے ہیں اگر آج وہ حیات ہوتے تو شاید مئیر کراچی پی پی پی میں بھی نہ ہوتے۔ کراچی اور ہر شہر کی درد دل رکھنے والوں کی آنکھیں نم ہیں کلیم چغتائی کے بقول
یہ سانحہ ہے بڑا دل خراش ہے ہم وطنوں
ہر آنکھ اسے سوچ کر ہی پرنم ہے۔
امیر محمد خان
سیف اللہ
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ابراہیم کی لاش پی ٹی ا ئی کے گٹر میں گر مین ہول کے لیے کے تحت کے بعد
پڑھیں:
کراچی کا کھلا مین ہول — یا نظام کی کھلی قبر؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیپا چورنگی۔ ایک کھلا گٹر۔ تین سالہ معصوم ابراہیم۔ اور پھر ایک ایسی موت جو صرف ایک خاندان کا غم نہیں رہی، یہ پورے شہر کے اجتماعی شعور پر ہتھوڑا بن کر گری۔ یہ حادثہ نہیں تھا، یہ قتل تھا۔ اور اس قتل کا مجرم کوئی ایک فرد نہیں، بلکہ وہ پورا سیاسی، بلدیاتی اور انتظامی نظام ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے کراچی پر قابض ہے۔ وہ نظام جس نے اس شہر کو کھنڈر، قبرستان اور تجربہ گاہ بنائے رکھا۔ وہ نظام جس نے تین سالہ ابراہیم کی جان نہیں لی بلکہ کراچی کے مستقبل کا گلا گھونٹ دیا۔
یہ موت اچانک نہیں ہوئی یہ نظام کا منطقی انجام تھا۔ روزانہ کوئی نہ کوئی بچہ، نوجوان یا بزرگ ٹوٹے ڈھکن، کھلے مین ہول، اُبلتے گٹروں یا ٹوٹی سڑکوں کے سبب موت کے منہ میں جاتا ہے۔ کراچی حادثات سے نہیں حکمرانوں کی نااہلی سے مرتا ہے۔ وہ گٹر کھلا کیوں تھا؟ یہ سوال ابراہیم کے جسم کے ساتھ گہرائی میں دفن نہیں ہونا چاہیے۔ یہ واحد کھلا مین ہول نہیں۔ شہر میں ہزاروں گٹر موت کے دہانے بن کر کھلے پڑے ہیں۔ اربوں روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر کھائے جاتے ہیں، مگر ایک ڈھکن وقت پر نہیں لگایا جاتا۔
کراچی کے ٹیکس سے سندھ کا بجٹ بنتا ہے، مگر کراچی کے بچوں کی قیمت ایک ڈھکن سے بھی کم ہے۔ جن اداروں کی ذمے داری ہے ڈھکن لگانا وہ اختیارات نہ ہونے کا بہانہ بناتے ہیں۔ جن کے پاس اختیار ہے وہ نااہلی اور کرپشن کا ڈھکن اپنے چہروں پر ڈال کر خوابِ غفلت میں سوئے ہوئے ہیں۔ یہ کھلا گٹر لوہے کا ڈھکن غائب نہیں تھا یہ پورے نظام کی کھلی قبر تھی۔ پیپلز پارٹی گزشتہ 17 سال سے کراچی کے وسائل پر قابض ہے۔ ان کے نزدیک کراچی شہر نہیں، صرف ایک کیش مشین ہے۔
سڑکیں ٹوٹ جائیں؟ کوئی مسئلہ نہیں۔ بچے گٹروں میں گر کر مر جائیں؟ معمول کی بات ہے۔ پانی ٹینکر مافیا بیچے؟ سسٹم کو اسی پر چلنا ہے۔ ہر حادثے کے بعد ایک ’’انکوائری کمیٹی‘‘ بنا کر وقت گزار دیا جاتا ہے۔ کسی کے گھر کا چراغ گل ہو جائے، مگر حکومت کی آنکھ نہیں کھلتی۔ لیکن ابراہیم کا خون ایسا دھبا ہے جو دھوئے نہیں دھل سکتا۔ ابراہیم کی موت کے بعد بھی میئر کراچی کے چہرے پر درد نہیں صرف کیمروں کے لیے پرفارمنس نظر آئی۔ موصوف کا فرمان ہے کہ جہاں ڈھکن لگے وہ ان کی وجہ سے، اور جہاں نہ لگے وہاں قصور ٹاؤنز کا ہے کیونکہ ’’پیسہ ہم دیتے ہیں‘‘۔ یعنی جو کام ہو جائے وہ میئر صاحب کا کارنامہ، اور جو نہ ہو وہ دوسروں کا جرم۔
سوال یہ ہے: جس شہر کا میئر ڈھکن کو اپنی کارکردگی کا معیار سمجھتا ہو، وہ شہر کیسے چلائے گا؟ جو میئر شہر کے گٹر اور اپنے ذہن کے گٹر میں فرق نہ کر سکے، وہ کراچی کے مسائل کیا سمجھے گا؟ ایم کیو ایم کی تاریخ بھی سب کے سامنے ہے۔ اختیارات بھی لیے، وزارتیں بھی لیں، ہر حکومت کا حصہ بھی بنے۔ آج میڈیا پر رونا کیوں؟ کراچی والے اس منافقت کو اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ ابراہیم کو کس نے مارا؟ یہ سوال ہر گھر میں گونج رہا ہے۔ اور اس کا جواب ایک نہیں پورا گٹھ جوڑ ہے۔
1۔ وہ سیاسی نظام جو کراچی کو کبھی اپنا شہر سمجھ ہی نہیں پایا۔ 2۔ وہ پیپلز پارٹی جو کراچی کے وسائل چوس کر اندرون سندھ میں سیاسی سرمایہ کاری کرتی رہی۔ 3۔ وہ ایم کیو ایم جو ہر حکومت میں کراچی کا سودا کرتی رہی۔ 4۔ وہ بی آر ٹی مافیا جس نے سڑکوں کو کھود کر شہر کو برباد کیا۔ 5۔ وہ لینڈ مافیا جس نے گلیوں، پارکوں اور نکاسی ِ آب کا قتل کیا۔ 6۔ وہ ٹینکر مافیا جو پانی بیچتا ہے مگر سیوریج لائنیں مرمت نہیں ہونے دیتا۔ 7۔ وہ پولیس جو قانون نہیں، مافیاؤں کی وفادار بن چکی ہے۔ یہ سب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ اسی صف کے آخر میں وہ کھلا مین ہول تھا جس نے ابراہیم کی جان لی۔
کیا کراچی کی اولاد کی قیمت ایک ڈھکن ہے؟ کراچی آج سوال بن کر کھڑا ہے: کیا ہر ماں اپنے بچے کو خوف کے سائے میں گھر سے نکالے گی؟ کیا ہماری نسلیں یوں ہی مرتی رہیں گی؟ کیا شہری ٹیکس اس لیے دیتے ہیں کہ ان کے اپنے بچے گٹروں میں گر کر مر جائیں؟ اگر اس حادثے کے بعد بھی کراچی کی روح نہ جاگی، تو ہم مجموعی طور پر مردہ قوم ہیں۔ یہ المیہ نہیں، یہ اعلان ہے۔ اس فاسد، کرپٹ اور نااہل نظام کے خلاف بغاوت کی گھنٹی ہے۔ کراچی اب خاموش نہیں رہ سکتا۔ اب وہ نظام بدلنا ہوگا جو بچوں کے خون سے چلتا ہے۔
کراچی کے مطالبات واضح ہیں: 1۔ وزیراعلیٰ سندھ، میئر کراچی اور وزیر بلدیات فوراً مستعفی ہوں۔ 2۔ ابراہیم کی موت کی آزاد عدالتی تحقیقات ہوں۔ 3۔ ذمے داران کو عبرتناک سزا دی جائے، صرف معطلی نہ ہو۔ 4۔ کراچی کو مالی و انتظامی خودمختاری دی جائے۔ 5۔ بی آر ٹی، لینڈ اور ٹینکر مافیاؤں کے خلاف فوری کارروائی ہو۔ 6۔ شہر بھر میں مین ہول کور لگانے کی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔
آخر میں ایک سوال: میئر کراچی کی ’’دماغی کارکردگی‘‘ بھی ایک الگ ہی سانحہ ہے میئر صاحب کی گفتگو کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ: جو پارک، سڑکیں اور ترقیاتی کام جماعت اسلامی کے ٹاؤنز کر رہے ہیں، اس کا کریڈٹ میئر صاحب کا بنتا ہے کیونکہ ’’پیسہ ہم دیتے ہیں‘‘۔ اور جہاں سٹی کارپوریشن کے تحت ڈھکن نہیں لگے، وہ بھی ٹاؤن کی غلطی ہے کیونکہ ’’پیسہ سٹی دیتا ہے‘‘۔ یعنی کام ہو تو کریڈٹ میئر کا کام نہ ہو تو ذمے داری دوسروں کی! اس پوری رام کہانی کے بعد ایک سوال کراچی والوں کے ذہن میں کھڑا ہے: زیادہ خطرناک کون ہے؟ سڑک کا کھلا گٹر، یا میئر صاحب کے دماغ کا کھلا گٹر؟ ڈھکن کی سب سے زیادہ ضرورت کسے ہے؟ ابراہیم کا سوال باقی ہے۔
ابراہیم چلا گیا۔ ننھے قدم، چھوٹے ہاتھ، ایک مسکراہٹ سب ختم ہو گئی۔ مگر ایک سوال آج بھی زندہ ہے: ’’تم کو میرا بدلہ کب لینا ہے؟‘‘ کراچی والو! اگر آج بھی نہ اُٹھے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ یہ شہر اٹھنے والا ہے اور جب کراچی اٹھا، تو اس سارے فاسد نظام کو بہا کر لے جائے گا۔