ہوائی بحران کی کریش لینڈنگ
اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نوٹی فی کیشن کے قطرے سے کہر تخلیق کرنے والوں کو اس بات کی کم ہی فکر تھی کہ تاخیر کیوں ہورہی ہے انہیں اندیشہ یہ لاحق تھا کہ نوٹی فی کیشن جاری ہوگیا تو سول ملٹری تعلقات میں دراڑ کی گرما گرمی کا جو ایفل ٹاور انہوں نے تخلیق کیا ہے کہیں وہ زمین بوس نہ ہوجائے۔ ایک پھول کے مضمون کو سورنگ سے کیسے باندھا جاتا ہے ان خبر سازی کے ماہرین سے پوچھیے جنہوں نے نوٹی فی کیشن کی تاخیرکو ہزار ممکنہ تباہ کاریوں سے باندھ دیا پھر بھی انہیں چین نہیں آیا۔ نوٹی فیکیشن کے اجرا سے تین چار دن پہلے ایک رپورٹر جاتی امراء جا نکلا۔
جاتی امراء کا محل: کچن کی کھڑکی سے باورچی شفیق نے جھانک کر باہر دیکھا تو اسے یوں لگا جیسے کوئی کھڑکی سے لٹکا ہوا ہے۔ ایک ہاتھ میں مائیک دوسرے سے کھڑکی کی سلا خ تھامے ہوئے وہ ایک بڑے ٹی وی چینل کا رپورٹر تھا۔ اس نے باورچی کو دیکھا تو منہ پر ہاتھ رکھ کر سرگوشی میں بولا ’’ارے بھائی باورچی صاحب! سنا ہے نوٹی فی کیشن میں تاخیر پر تمہارے صاحب بہت پریشان ہیں۔ جنرل صاحب بار بار انہیں فون کررہے ہیں۔ سول ملٹری تعلقات میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ اس پریشانی میں نواز شریف راتوں کو جاگتے رہتے ہیں۔؟‘‘
باورچی نے حیرت سے رپورٹر کی بات سنی اور ہنستے ہوئے بولا ’’نہیں صاب ایسی تو کوئی بات نہیں۔ بڑے میاں صاحب تو آج کل بہت خوش ہیں۔ آج ہی انہوں نے مجھ سے آلو گوشت پکانے کی فرمائش کی ہے۔ حالانکہ کل ہی انہوں نے کوفتے کھائے ہیں۔ میاں صاحب کی تو عادت ہے حکومت میں چاہے کچھ بھی ہورہا ہو کھانے کا پروٹو کول ڈسٹرب نہیں ہونا چاہیے۔ آلو گوشت کے ساتھ انہوں نے زردے کا بھی کہا ہے۔ زردے میں جب تک بادام پورے نہ ہوں میاں صاحب دلچسپی سے نہیں کھاتے‘‘ تھوڑی دیر بعد اس چینل پر بریکنگ نیوز چل رہی تھی ’’نوٹی فی کیشن میں تاخیر کی وجہ سے نواز شریف کی حکومتی معاملات میں عدم دلچسپی‘‘
دوسرامنظر:
جنرل عاصم منیر کے ڈرائیور بشارت نے زور سے چھینک ماری تو ہیڈ کواٹر کے گارڈن میں درختوں کی شاخوں میں چھپا ہوا رپورٹر دھڑام سے نیچے آرہا۔ بالوں سے خشک پتے نکالتے ہوئے اس نے بشارت سے پو چھا ’’بھائی! سچ بتائو! کیا نوٹی فی کیشن میں تاخیر پر جنرل صاحب بہت غصے میں ہیں؟ کیا سول ملٹری تعلقات ٹوٹنے کے قریب ہیں؟‘‘ بشارت نے عجیب نظروں سے رپورٹر کو دیکھا اور بولا ’’کیسا نوٹی فی کیشن؟ میں نے تو انہیں غصے میں نہیں دیکھا۔ آج ہی وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ کل تمام معمولات معطل کرکے ہم نئی گاڑی کی ٹیسٹ ڈرائیونگ کریں گے‘‘ اسی شام رپورٹر کے متعلقہ چینل پر خبر چل رہی تھی ’’نوٹی فی کیشن میں تاخیر پر جنرل عاصم منیر کے معمولات اور روز کی سرگرمیوں میں بڑی تبدیلی‘‘۔
تیسرامنظر:
اینکر خالد فرشوری وزیراعظم ہائوس کے باہر دو کیمرہ مینوں اور ایک لڑکے کے ساتھ کھڑا تھا۔ لڑکے کی ذمے داری یہ تھی کہ اگر اینکر کے ہاتھ سے مائیک گر جائے تو اسے اٹھا کردے دے۔ وزیراعظم ہائوس کی بیرونی دیواروں کو مستری اندر سے اونچا کررہے تھے تاکہ فوج کود کر اندر داخل نہ ہوسکے۔ اینکر نے مستری سے پوچھا ’’بھائی تم نے اندر کسی ہنگامی میٹنگ کی آواز سنی؟‘‘ جیسے کسی نے غصے میں فون پٹخا ہو؟ کوئی ناراضی کا اظہار کررہا ہوں؟ کوئی چیخ رہا ہو؟ مستری نے حیران ہوکر کہا ’’نہیں صاب، اندر تو ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے البتہ چائے پیتے ہوئے وزیراعظم باورچی کو ڈانٹ رہے تھے کہ آج پھر چینی زیادہ کردی۔ کل مجھ سے پوچھ رہے تھے دیواروں پر رنگ کیسا کرنا ہے؟ میں نے وائٹ یا برائون کہا تو ہنستے ہوئے بولے کوئی ایسا رنگ بتائو جس سے وزیراعظم ہائوس کی دیواریں فوج کو نظرنہ آئیں‘‘ اینکر خالد فرشوری نے مایوسی سے مائیک پٹکتے ہوئے کہا ’’تو اس کا مطلب ہے اندر کوئی بحران نہیں ہے‘‘ اس شام وہ اپنے نیوز پروگرام میں چیخ چیخ کر اعلان کررہا تھا ’’نوٹی فی کیشن میں تاخیر پر وزیراعظم کے حفاظتی اقدامات، سوال یہ ہے کہ ملک میں کیا ہونے جارہا ہے؟‘‘
چوتھا منظر:
ایک انڈین نیوز چینل کا اسٹوڈیو۔ سرخ، نیلے اور سنہرے رنگ سے روشن۔ میگا بریکنگ: کرائسس ان پاکستان۔ اسکرین پر گرافکس میں ایک طرف آگ میں جلتا ہوا پاکستان، دوسری طرف ٹینک، میزائل دھماکے ریڈ الرٹ کا نقشہ۔۔ اینکر رنجن تیواڑی ایک ہاتھ میں کاغذ لہراتا، غصے سے اسٹیج پر زور زور سے قدم دھرتے ہوئے چیخ چیخ کر، پاکستان میں مہا بھارت۔ وزیراعظم کا نوٹی فی کیشن پر دستخط کرنے سے صاف انکار۔ پاکستان میں کسی بھی وقت حالات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔ سول ملٹری ٹکرائو اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔۔ کیا نوازشریف ملک سے فرار ہورہے ہیں۔۔ انیلا شرما آپ کے پاس اس بارے میں کیا رپورٹ ہے۔۔ انیلا شرما۔۔ انتہائی سنجیدہ شکل بنائے ہوئے۔۔ رنجن آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں۔ ذرائع بتارہے ہیں کہ اس وقت اسلام آباد میں سول ملٹری سمبدھ کے حوالے سے ہر طرف گھبراہٹ ہے۔۔ فوج کیا قدم اٹھانے والی ہے۔۔ حکومت کیا سوچ رہی ہے۔۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔۔ اگر آج رات بارہ بجے تک نوٹی فی کیشن نہیں آیا تو پاکستان میں بڑی تباہی ہوسکتی ہے۔۔ (رنجن تیواڑی بیچ میں مداخلت کرتے ہوئے) انیلا ذرا ایک منٹ رکیے پاکستان سے ہمیں جوائن کیا ہے سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر وقاص سعود نے۔۔ (ڈاکٹر وقاص اسکرین پر) جی تیواڑی جی! یہاں حالات بہت سنگین ہیں۔ کچھ دیر پہلے میں ایک پان شاپ پر گیا۔۔ پان والے نے مجھ سے پوچھا نوٹی فی کیشن کا کیا بنا صاب۔۔ یہ پوچھتے ہوئے اس نے پان پر دومرتبہ کتھا چونا لگا دیا اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں پاکستان میں عوام کا ذہنی انتشار کس درجے پر پہنچ چکا ہے (رنجن تیواڑی ڈاکٹر وقاص کا جملہ اچکتے ہوئے چیخ کر) اس کا مطلب ہے پاکستان میں کسی بھی وقت۔۔ بلاسٹ۔۔ مہا بلاسٹ
آخری منظر: نوٹی فی کیشن آنے کے بعد: انڈین چینل کا نیوزروم
رنجن تیواڑی: نمسکار دوستو۔۔ ہمارے پاس بریکنگ نیوز ہے لیکن اتنی بریکنگ بھی نہیں ہے۔۔ وہ۔۔ پاکستان میں نوٹی فی کیشن۔۔ جی۔۔ وہ آچکا ہے۔۔ جیسا کہ ہم نے کہا تھا وہاں فوج اور حکومت کے درمیان کوئی یدھ نہیں ہوئی۔۔ سب کچھ۔۔ بظاہر۔۔ بالکل نارمل ہے۔۔ لیکن کب تک۔۔ اب ہم چلتے ہیں ایک اور بڑی خبر کی طرف
نوٹی فی کیشن آنے پر پاکستان میں بھی بیش تر یوٹیوبرز کے اسٹوڈیوز اور ایک جماعت کے میڈیا سیل میں مائیک اینکرز کو دیکھ رہے تھے اور اینکرز مائیک کو، کوئی اپنی پوسٹیں ڈیلیٹ کررہا تھا اور کوئی اپنے بیانیے سے فرار کے رستے۔ وہ تجزیہ نگار جو خود کو من جانب اللہ مقرر ظاہر کررہے تھے، ہر گھنٹے تجزیہ تبدیل کررہے تھے اور ہر دن نئی سازش دریافت کررہے تھے، سر پکڑ کر بیٹھے تھے۔۔ نوٹی فی کیشن آگیا۔۔ اب کیا کریں۔۔ سب ایسے اجتماعی افسوس کررہے تھے جیسے ان کی نکتہ چینی میں سے چینی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکل گئی ہو اور اب تازندگی انہیں پھیکی چائے پر گزارا کرنا ہوگا لیکن ایک پرانا پاپی اب بھی پر امید تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے سب کی طرف دیکھا اور کہا ’’کیا ہوا اگر ایک بحران ختم ہوگیا۔۔ ہم ایسے نہ جانے کتنے بحران تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بحران ہم خود بھی تو ایجاد کرسکتے ہیں۔ جھوٹا بیانیہ گھڑنے کا کوئی ہم سے بڑا ماہر ہو۔۔ اللہ نہ کرے۔۔ ہاں۔۔ اللہ نہ کرے‘‘۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان میں کررہے تھے سول ملٹری انہوں نے رہے تھے رہے ہیں
پڑھیں:
جادو ٹونہ نہیں، ترقی صرف محنت سے: شہباز شریف
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے ملکی ترقی اور استحکام کیلئے اتحاد و یکجہتی اور دہشت گردی کے خاتمے کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے بغیر معاشی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ افواج پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا ناقابل برداشت ہے، شہداء کی قربانیوں کی تضحیک نہیں کرنے دیں گے، عسکری و سیاسی قیادت نے مل کر کام کیا اور ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت دوبارہ پٹڑی پر آئی۔ وہ قومی علماء کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار، آرمی چیف و چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ سمیت وفاقی وزراء، اعلیٰ سرکاری حکام کے علاوہ علماء و مشائخ کی بڑی تعداد موجود تھی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جادو ٹونہ نہیں ترقی صرف محنت سے ملتی ہے۔ معرکہ حق میں قوم کی دعائیں قبول ہوئیں۔ افواج کے ہر سپاہی کی کاوشیں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بے پایاں فضل و کرم اور علماء کرام و قوم کی دعاؤں کی بدولت معرکہ حق میں پاکستان کو بڑی کامیابی ملی۔ مسلح افواج کی جرات اور بہادری سے دشمن کو عبرتناک شکست ہوئی۔ آرمی چیف و چیف آف ڈیفنس فورسزفیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں افواج پاکستان نے جرات و بہادری سے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا، اس کامیابی میں بری، بحری و فضائیہ سمیت تمام افواج کا کردار قابل ستائش ہے۔ وزیر اعظم نے فرقہ پرستی کے خاتمہ کو وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ علماء کرام کو تفرقہ بازی کا خاتمہ کرنا ہو گا، ملکی ترقی اور استحکام کیلئے اتحاد و یکجہتی ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بلوچستان و خیبر پختونخوا میں روزانہ بے گناہ عوام فتنہ الخوارج کی دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں، سکیورٹی فورسز کے جوان ملکی دفاع کیلئے بے پناہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ انہوں نے شہداء کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، ان شہداء کے اہل خانہ سے جب ہم ملتے ہیں تو وہ اپنے شہداء پر فخر کرتے ہیں اور ان کے چہرے اطمینان سے لبریز ہوتے ہیں۔ ہم اپنے ان شہداء کی تضحیک کی اجازت نہیں دیں گے۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ ملک معاشی استحکام اور ترقی کی جانب سے تیزی سے گامزن ہے، عسکری و سیاسی قیادت مل کر کام کرکے ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لائی، معرکہ حق کے بعد پاکستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ حکومت ملک کو معاشی ترقی کے سفر پر رواں دواں کرنے کیلئے دن رات ایک کیے ہوئے ہے، محنت سے پاکستان کو وہ مقام دلائیں گے کہ قرضوں سے نجات ملے گی اور خود انحصاری کی منزل حاصل ہوگی۔ انہوں نے ملکی ترقی کیلئے دہشت گردی کے خاتمے کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر معاشی بحالی کے سفر پر گامزن نہیں ہوا جا سکتا۔ دن رات محنت سے ترقی و خوشحالی ممکن ہے۔ دنیا میں مقام حاصل کرنے والی قوموں نے محنت کو اپنا شعار بنایا۔ پائی بچا کر ملک کی معاشی تقدیر بدلیں گے اور اسے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر بنائیں گے۔ انہوں نے قومی معاملات پر یکجان ہونے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا معرکہ حق میں پاکستان کی کامیابی کی معترف ہے۔ دشمن ورطہ حیرت میں ہے اور برادر ممالک خوشی سے پھولے نہیں سماتے، دوست ممالک نے معرکہ حق میں فتح کو اپنی فتح سمجھ کر مبارکباد دی۔ یہ علماء کرام اور ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اس فوج کا دفاع کریں جس نے ہمارے دفاع کیلئے اپنے لہو سے تاریخ رقم کی اور ہمارے ازلی دشمن کو ایسی شکست دی جسے وہ قیامت تک نہیں بھولے گا۔ علاوہ ازیں وزیراعظم شہباز شریف آج ترکمانستان جائیں گے جہاں وہ اشک آباد میں ہونیوالے بین الاقوامی فورم میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے وہ ترکمانستان کے ہم منصب سمیت فورم میں شرکت کرنیوالے دیگر عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کرینگے۔ دریں اثناء پہاڑوں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری کے ساتھ ہم آواز ہو کر آج پہاڑوں کا عالمی دن منا رہا ہے جس کا مقصد متوازن قدرتی ماحول کیلئے ان کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2025ء میں یہ دن ’’پانی، خوراک اور روزگار کے لئے گلیشیئرز کا پہاڑوں میں اور مجموعی کلیدی کردار‘‘ عنوان کے تحت منایا جا رہا ہے، یہ موضوع پاکستان کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل اور ان گراں قدر مواقع کی نشاندہی کرتا ہے جو پاکستان کی قدرتی دولت میں پوشیدہ ہیں۔ علاوہ ازیں سوار محمد حسین شہید (نشان حیدر) کو ان کے 54 ویں یوم شہادت پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سوار محمد حسین شہید دھرتی کے بہادر سپوت تھے جن کی1971ء میں مادر وطن کے تحفظ کیلئے بے مثال جرات و بہادری نے انہیں امرکر دیا۔ سوار محمد حسین شہید جیسے دھرتی کے بیٹوں سے ہی پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے۔