Daily Ausaf:
2025-07-22@18:58:13 GMT

زہرکاپیالہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
ایران اوراسرائیل کے درمیان تقریباً 2152 کلومیٹرکازمینی فاصلہ ہے اورایران نے وہاں تک اپنے میزائل پہنچاکریہ توثابت کردیاہے کہ جس میزائل پروگرام پروہ کافی عرصے سے کام کررہاہے اس میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ایران کے میزائل پروگرام کومشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑااورمتنوع سمجھا جاتا ہے۔ 2022ء میں امریکی سینٹرل کمانڈکے جنرل کینتھ میکنزی نے کہاتھاکہ ایران کے پاس3000 سے زیادہ بیلسٹک میزائل ہیں۔دوسری جانب اس بات کی کوئی حتمی تصدیق نہیں کہ اسرائیل کے پاس کتنے میزائل ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ مشرق وسطی میں اگرکسی ملک کے پاس جدیدترین میزائلوں کاذخیرہ ہے تووہ اسرائیل ہے۔
میزائلوں کایہ ذخیرہ اس نے گذشتہ چھ دہائیوں میں امریکاسمیت دیگردوست ممالک کے ساتھ اپنے اشتراک یااپنے طورپرملک ہی میں تیارکیے ہیں۔سی ایس آئی ایس میزائل ڈیفنس پراجیکٹ کی ایک رپورٹ کےمطابق اسرائیل کئی ملکوں کومیزائل برآمدبھی کرتا ہے۔ اسرائیل کے مشہورمیزائلوں میں ڈیلائیلا، جبریئل، ہارپون،چریکو1،جریکو2، جریکو3، لورااورپوپیئی شامل ہیں لیکن اسرائیل کے دفاع کی ریڑھ کی ہڈی اس کا آئرن ڈوم سسٹم ہے جوکہ کسی بھی قسم کے میزائل یاڈرون حملے کوبروقت روکنے کی صلاحیت رکھتاہے۔غزہ سے حماس اورلبنان سے حزب اللہ کے راکٹوں کومتواتر فضا میں ہی تباہ کرکے وہ آج تک اپنالوہامنواتا رہا ہے۔ اسرائیلی میزائیل ڈیفنس انجینیئراوزی روبن کے مطابق آئرن ڈوم کی طرح کادنیامیں کوئی اوردفاعی نظام نہیں اوریہ بہت کارآمدشارٹ رینج میزائل ڈیفنس سسٹم ہے۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران،اسرائیل سے بہت زیادہ بڑاملک ہے اوراس کی آبادی اسرائیل سے دس گنازیادہ ہے لیکن اس فرق سے یہ اندازہ لگاناقطعی درست نہیں ہوگاکہ ایران فوجی حساب سے اسرائیل سے زیادہ طاقتورملک ہے۔اسرائیل ایران سے کہیں زیادہ رقم اپنے دفاعی بجٹ کی مدمیں خرچ کرتاہے اوراس کی سب سے بڑی طاقت بھی یہی ہے۔اگرایران کادفاعی بجٹ 10ارب ڈالرکےقریب ہے تواس کےمقابلے میں اسرائیل کا بجٹ24ارب ڈالرسے ذرازیادہ ہے۔جہاں ایران کی آبادی اسرائیل سے کہیں زیادہ ہے اسی طرح اس کے حاضرسروس فوجی بھی اسرائیل کے مقابلے میں تقریباًچھ گنازیادہ ہیں۔ ایران کے فعال فوجیوں کی تعدادچھ لاکھ دس ہزارجبکہ اسرائیل کے ایسے فوجیوں کی تعدادایک لاکھ سترہزار ہے ۔
اسرائیل کےپاس جس چیزکی برتری ہے وہ اس کی ایڈوانس ٹیکنالوجی اوربہترین جدید طیاروں سے لیس فضائیہ ہے۔اس کے پاس 241لڑاکا طیارے اور48تیزی سےحملہ کرنے والے ہیلی کاپٹرہیں جبکہ ایران کےپاس جنگی طیاروں کی تعداد186ہے اور اس کے بیڑے میں صرف 13جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ دونوں ممالک نے ابھی تک اپنی بحری افواج کی زیادہ صلاحیتوں کامظاہرہ تونہیں کیالیکن اگرچہ وہ جدید بنیادوں پرنہ بھی ہو،پھربھی ایران کی بحری فوج کے پاس101 جہازجبکہ اسرائیل کے پاس67 ہیں۔ایران نے عراق کے ساتھ جنگ کے بعدسے اپنے میزائل سسٹم اورڈرونزپرزیادہ کام کیااورشارٹ اورلانگ رینج میزائل اورڈرونز بنائے جومبینہ طورپراس نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنےحریفوں کوبھی مہیاکیے ہیں۔ حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر داغے میزائلوں کے تجزیے سے بھی یہ معلوم ہواتھاکہ وہ ایرانی ساخت کےتھے۔ایران کےمیزائلوں میں شہاب ون میزائل ہےجس کی رینج تین سو کلومیٹر ہے جبکہ اسی کادوسراورژن شہاب ٹو500کلومیٹرتک مارکرسکتا ہے۔ شہاب سیریز کا تیسرامیزائل شہاب3 دو ہزارکلومیٹر تک مارکرنےکی صلاحیت رکھتاہے۔ اس کے علاوہ ایرانی میزائلوں میں 700 کلو میٹرتک مارکرنے والا ذوالفقار، 750 کلومیٹر تک مارکرنے والاقائم 1 بھی شامل ہیں۔ ایران کے میزائلوں میں ایک اہم اضافہ فتح -110ہائپرسونک میزائل ہیں جو 300سے 500 کلو میٹرتک ہدف کونشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
امریکی ادارے پیس انسٹیٹیوٹ کے مطابق مشرق وسطی میں ایران کے پاس سب سے بڑااورمتنوع بیلسٹک میزائلوں کاذخیرہ موجود ہے۔ساتھ ہی ساتھ ایران خطے کاواحدملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار تو نہیں لیکن اس کے بیلسٹک میزائل دوہزار کلومیٹرکے فاصلے تک پہنچ سکتے ہیں۔ بیلسٹک ٹیکنالوجی تودوسری عالمی جنگ کےوقت بن چکی تھی،تاہم دنیامیں صرف چندہی ممالک کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ خوداس ٹیکنالوجی کی مددسے بیلسٹک میزائل بناسکیں۔
ایران نے گزشتہ دودہائیوں کے دوران شدید نوعیت کی بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود یہ ٹیکنالوجی حاصل بھی کی اوربیلسٹک میزائل بھی تیار کئے۔ ایرانی رہبراعلی نے حال ہی میں ایک خطاب میں کہاتھاکہ جس عسکری اورمیزائل پروگرام سے مغرب پریشان ہے،وہ سب پابندیوں کےدوران بنا۔2006ء میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نےایک قرارداد منظورکی جس کے تحت کسی بھی قسم کی جوہری ٹیکنالوجی یاموادکی ایران کوفروخت پرپابندی عائدکردی گئی۔اس میں ایساسامان بھی شامل تھاجسے کسی اورمقصدکے ساتھ ساتھ عسکری مقاصد کے لئے بھی استعمال کیاجاسکتاہے۔تین ہی ماہ بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک اورقرارداد میں ایران سے روایتی ہتھیاروں یااسلحہ کی لین دین پربھی مکمل پابندی لگادی جس میں عسکری ٹیکنالوجی بھی شامل تھی۔اس قراردادکے تحت لگنے والی پابندیوں کی زدمیں ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ بیلسٹک میزائل پروگرام بھی آیا۔ایسےمیں ایران کیلئیروس اورچین جیسے ممالک سےبھی اسلحہ خریدنا آسان نہ رہاجن سے وہ عراق جنگ کے وقت سے سامان خریدرہاتھا۔
بیلسٹک میزائل جوہری وارہیڈ(یعنی جوہری ہتھیار)لےجانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور مغربی ممالک کے مطابق چونکہ ایران نے بیلسٹک ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے اس لیے وہ جوہری توانائی کے حصول اورجوہری ہتھیار بنانے کے لئے ضروری سطح تک یورینیم کو افزودہ کرنے کی کوئی کوشش ترک نہیں کرے گا۔جولائی 2015 ء میں ایران اورچھ عالمی طاقتوں کے درمیان مشترکہ جامع پلان آف ایکشن معاہدےکےاختتام اورپھرقرارداد 2231ء کی منظوری کے بعد،ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی تمام پابندیاں ہٹادی گئیں۔تاہم’’ٹرگر،سنیپ بیک میکانزم‘‘کے نام سےجانی جانے والی شق نے ہتھیاروں کی پابندیوں کوبرقرار رکھاجس کے تحت خاص طور پرپانچ سال تک ایران کے میزائل پروگرام کی نگرانی ہونی تھی۔یہ ایران پردباؤڈالنے اوراس کے میزائل پروگرام کوکنٹرول کرنے کاایک حربہ تھا۔
تاہم ایران نے اپنامیزائل پروگرام اس حد تک بڑھایاکہ مارچ 2016ء میں امریکا، برطانیہ، فرانس اورجرمنی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک مشترکہ خط لکھتے ہوئے ایران پرمیزائل تجربات کرنے کاالزام لگایااورکہاکہ اس نے’’جے سی پی او اے‘‘ معاہدے کے بعدسلامتی کونسل کی قرارداد 2231ء کی خلاف ورزی کی ہے۔بالآخر2020ء میں ٹرمپ نے اس معاہدے سے دستبرداری کافیصلہ کیا۔امریکاکے اس معاہدے سے دستبرداری کی ایک وجہ ایران کے میزائل پروگرام کے خطرے سے نمٹنے اوراس پروگرام کامعائنہ اورتصدیق کرنے کیلئےدرکارطریق کارکی کمی تھی۔اگرچہ ایران نے یہ ظاہرکرنے کی کوشش کی کہ وہ مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کاحصہ ہے لیکن قرارداد2231ء میں طے شدہ ڈیڈ لائن کےخاتمے کے ساتھ ہی،ایرانی حکومت نے اکتوبر2021ء میں روس اورچین سے ہتھیاروں کی خریداری کے لئے اشتہارات دیے لیکن پابندیاں ابھی تک برقرارہیں اورانہوں نے ایران کواب تک اس خواہش کے حصول سے بازرکھاہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایران کے میزائل میزائلوں میں اقوام متحدہ اسرائیل سے اسرائیل کے کی صلاحیت میں ایران ایران نے کہ ایران کے ساتھ کے پاس

پڑھیں:

یو این اداروں کا ایشیا پیسیفک میں مہاجرین کو ہنرمند بنانے کا منصوبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 جولائی 2025ء) عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) اور پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے ایشیائی الکاہل خطے میں نقل مکانی کرنے والے لوگوں کو ہنر مند بنانے کا پروگرام شروع کیا ہے جس سے انہیں روزگار کے حصول اور باوقار زندگی گزارنے میں مدد ملے گی۔

'ٹرین ٹو ہائر' نامی اس پروگرام کی بدولت پناہ گزینوں کے لیے افرادی قوت کی عالمی منڈیوں تک رسائی مزید آسان ہو جائے گی۔

اس پروگرام کے لیے آسٹریلیا کی حکومت نے ابتداً 22 ماہ کے لیے مالی وسائل مہیا کیے ہیں جس کے ذریعے امیدوار ہنر سیکھیں گے اور اپنی صلاحیتوں کو روزگار کے بین الاقوامی مواقع کے مطابق ڈھال سکیں گے۔ اس طرح افرادی قوت کی منڈی میں ہنرمند لوگوں کی کمی کو پورا کرنے اور پناہ گزینوں کو خودانحصاری کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد ملے گی۔

(جاری ہے)

Tweet URL

آسٹریلیا اس اقدام کے ذریعے 2023 میں پناہ گزینوں کے عالمی فورم میں کیے گئے اپنے وعدے کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔

'آئی او ایم' کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پوپ نے کہا ہے کہ جب مہاجرین اور پناہ گزینوں کی صلاحیتوں پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے تو ایسے مستقبل کے دروازے کھل جاتے ہیں جہاں ہنر کی اہمیت فرد کی حیثیت سے زیادہ ہوتی ہے اور جہاں لوگ باوقار اور بامقصد طور سے ترقی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پناہ گزین اور مہاجرین اپنے ساتھ ہنر، تجربہ اور عزم لاتے ہیں۔

اس اقدام کی بدولت ان صلاحیتوں کو افرادی قوت کی منڈی میں حقیقی مواقع سے جوڑنے میں مدد ملے گی جس سے ناصرف انہیں بلکہ ان کے میزبان علاقوں اور معاشروں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔تحفظ اور مواقع کا ذریعہ

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فلیپو گرینڈی نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں نقل مکانی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے اور ایسے حالات میں پناہ گزینوں کو تحفظ اور مواقع فراہم کرنے کے لیے عملی اور بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

'ٹرین ٹو ہائر' پروگرام کی بدولت ان لوگوں کے لیے روزگار تک رسائی کے قانونی راستے کھلیں گے اور اس سے سبھی کو فائدہ ہو گا۔ یہ امیر ممالک کی جانب سے مہاجرین اور پناہ گزینوں کے ساتھ یکجہتی کی ایک بڑی مثال ہے۔

اس اقدام کی بدولت اقوام متحدہ کے اداروں کو مشترکہ مقاصد پر باہمی تعاون کو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔ مشمولہ اور محفوظ مہاجرت کو وسعت دینا عالمگیر استحکام پر ٹھوس سرمایہ کاری کے مترادف ہے۔

یہ اقدام منظم مہاجرت میں سہولت دے کر پناہ گزینوں، ان کے میزبان معاشروں اور ممالک کے لیے بہتر نتائج لائے گا اور اس کی بدولت محفوظ و باقاعدہ نقل مکانی کے مزید مواقع کھلیں گے۔ اس طریقہ کار کی بدولت مہاجرت کے بے قاعدہ اور خطرناک راستوں پر انحصار کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔باوقار مستقبل کا راستہ

اگرچہ ہنر مند پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دنیا بھر میں روزگار کا حصول چاہتی ہے اور بہت سے ممالک کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا بھی ہے لیکن اس کے باوجود بہت کم لوگ بیرون ملک روزگار حاصل کر پاتے ہیں۔

'او ای سی ڈی' اور 'یو این ایچ سی آر' کی فراہم کردہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2019 اور 2023 کے درمیان آٹھ ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 183,000 ہنرمند پناہ گزینوں کو امیر ممالک میں روزگار مہیا کیے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر پناہ گزینوں کی نقل و حرکت پر عائد رکاوٹیں ہٹائی جائیں تو مزید بڑی تعداد میں ان لوگوں کی صلاحیتوں سے کام لیا جا سکتا ہے۔

ایشیائی الکاہل خطے میں شروع کردہ اس پروگرام سے پناہ گزینوں کے مخصوص گروہ کی موجودہ صلاحیتوں میں بہتری لانے کے لیے مخصوص تربیت مہیا کی جائے گی اور ایسی عام رکاوٹوں کو ختم کیا جا سکے گا جو آجروں کو نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی خدمات کے حصول سے روکتی ہیں۔

اس پروگرام کے تحت فراہم کی جانے والی تربیت ایسے شعبوں سے مخصوص ہو گی جنہیں افرادی قوت کی درمیانی سے طویل مدتی کمی کا سامنا ہے اور پناہ گزینوں کی صلاحیتوں کو آسٹریلیا اور دیگر علاقوں میں نوکریوں کی ضرورت سے ہم آہنگ کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ پروگرام 'یو این ایچ سی ار' اور 'آئی او ایم' کے مابین وسیع تر اور مضبوط تعاون کا حصہ ہے اور اس شراکت کی ضرورت اب پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ دنیا بھر میں 42 لاکھ پناہ گزینوں کی بڑی تعداد مفید صلاحیتوں کی حامل ہے اور انہیں مواقع ملیں تو یہ لوگ محفوظ تر اور مزید باوقار مستقبل کی راہیں کھول سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ایران اپنے میزائل اور جوہری پروگرام سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گا، صیہونی اپوزیشن لیڈر
  • یو این اداروں کا ایشیا پیسیفک میں مہاجرین کو ہنرمند بنانے کا منصوبہ
  • ضرورت پڑی تو واشنگٹن دوبارہ حملہ کرے گا، ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کو پھر دھمکی
  • ضرورت پڑی تو دوبارہ حملہ کردیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کو دھمکی
  • اسرائیل کیخلاف تمام آپشنز زیر غور ہیں، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ
  • اگر شام ٹکڑے ٹکڑے ہوا تو ہم میدان میں کود پڑیں گے، ترکیہ
  • اسرائیل کی خاطر ایکبار پھر امریکہ یونسکو سے دستبردار
  • نومنتخب آسٹریلوی پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی شدید مذمت
  • ایران جوہری پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتا، ایرانی وزیر خارجہ
  • ایم کیو ایم کا بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کیخلاف بیان بغض پیپلز پارٹی ہے: سعدیہ جاوید