EOBIکے سابق DG محمد اشرف ندیم کی رحلت
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن(EOBI) کی ایک عہد ساز شخصیت اور EOBI کے ایک معمار محمد اشرف ندیم سابق ڈائریکٹر جنرل آپریشنز طویل علالت کے باعث 85 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔
محنت کشوں کی پنشن کے قومی فلاحی ادارہ EOBI کی ترقی و ترویج اور ادارہ کے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے ان کی گرانقدر خدمات کو ایک عرصہ تک یاد رکھا جائے گا۔ EOBI ریٹائرڈ ایمپلائز ویلفیئر ایسوسی ایشن پاکستان کے سرپرست اعلیٰ بابائے EOBI محمد بشیر اور دیگر عہدیداران نے محمد اشرف ندیم کی وفات پردلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
ہماری محمد اشرف ندیم سے کافی یادیں وابستہ ہیں۔ گزشتہ برس ماہ دسمبر میں لاہور میں منعقدہ EOBI ریٹائرڈ ایمپلائز ویلفیئر ایسوسی ایشن( رجسٹرڈ) پاکستان کے سالانہ اجلاس عام کے بعد سرپرست اعلیٰ اور بابائے EOBI محمد بشیر کی قیادت میں اور دیگر دوستوں حیدر کاظمی اور محمد ابراہیم فاروقی کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر جاکر ان کی عیادت کی تھی لیکن ضعف عمر اور یادداشت کمزور ہونے کے باعث اہل خانہ کی جانب سے بار بار توجہ مبذول کرانے کے باوجود اشرف ندیم اپنے پرانے دوستوں کو پہچاننے سے قاصر رہے۔ عمر کے آخری حصہ میں حواس کھو جانے اور انہیں بے بسی کی تصویر بنے دیکھ کر بیحد دکھ ہوا تھا۔
محمد اشرف ندیم نے یکم جنوری 1939 کو ہارون آباد(بہاول نگر) کے ایک قصبہ فقیر والی میں جنم لیا۔ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے بعد آپ نے مزید تعلیم کے حصول کے لیے لاہور کا رخ کیا اور اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1965 میں ملک کی ایک معروف بیمہ کمپنی ایسٹرن فیڈرل یونین (EFU)کی ملازمت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ نے یکم جولائی 1976 کو EOBI کے قیام کے بعد لاہور کے سربراہ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی تھی اور محدود وسائل اور نامساعد حالات کے باوجود آپ نے شب و روز کی محنت اور لگن سے اس نوزائیدہ ادارہ کو ملک بھر میں اور خصوصاً صوبہ پنجاب میں انتظامی اور مالی طور پر مستحکم انداز میں منظم کرکے اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا تھا۔ 80ء کی دہائی میں آپ کی تعیناتی ہیڈ آفس کراچی ہوگئی تھی جہاں آپ نے پہلے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اور بعد ازاں ڈائریکٹر جنرل آپریشنز کے عہدہ پر فائز رہتے ہوئے محنت کشوں کے فلاحی ادارہ کی خدمات اور کارکردگی کو بام عروج تک پہنچا دیا تھا۔
محمد اشرف ندیم ایک سادہ مزاج، دیانتدار اور بہترین انتظامی صلاحیتوں کے حامل افسر تھے اور ماتحت عملہ کے ساتھ اپنے حسن سلوک اور بہترین اخلاق کے باعث چھوٹے بڑے ملازمین آپ کے گرویدہ تھے اور آپ کی انہی خوبیوں کے باعث ملازمین آج بھی محمد اشرف ندیم کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔
ہمیں بھی خوش قسمتی سے ہیڈ آفس کراچی میں محمد اشرف ندیم صاحب کی ماتحتی میں خدمات انجام دینے کا موقع میسر آیا تھا۔ محمد اشرف ندیم کو ادارہ کے ڈائریکٹر جنرل آپریشنز کی حیثیت سے متعدد بار EOBI ایمپلائز فیڈریشن آف پاکستان (CBA) کی جانب سے پیش کردہ چارٹر آف ڈیمانڈ پر گفت و شنید کی کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور آپ نے اس فریضہ کو ہمیشہ دیانتداری اور خلوص سے انجام دیا۔ منشور مطالبات پر گفت و شنید کے دوران بعض اوقات فریقین کی جانب سے بعض امور پر بحث و تکرار کی نوبت بھی آجاتی تھی لیکن محمد اشرف ندیم ہمیشہ ایسے نازک مراحل کے موقع پر ملازمین کے ساتھ اپنی روایتی بردباری، شفقت اور دلائل کے ذریعہ قائل کرکے اختلاف رائے کو خوش اسلوبی سے نمٹا دیا کرتے تھے اور اس طرح مذاکراتی عمل کا پرسکون انداز میں جاری رہتا۔
یہ حقیقت ہے کہ آج EOBI کے ملازمین کو اپنے بزرگ اور بیمار والدین کے لیے علاج و معالجہ کی جو نعمت میسر ہے اس کا تمام کا تمام سہرا محمد اشرف ندیم کے سر بندھتا ہے۔ جنہوں نے چارٹر آف ڈیمانڈ کے دوران ذاتی دلچسپی لے کر ملازمین کے والدین کے لیے علاج و معالجہ کی سہولت کی منظوری کو یقینی بنایا تھا۔
محمد اشرف ندیم کی ریٹائرمنٹ کے موقع EOBI ایمپلائز فیڈریشن آف پاکستان (CBA) کی جانب سے ان کی EOBI کی ترقی و ترویج، پنشن فنڈ کے استحکام اور ادارہ کے ملازمین کی فلاح و بہبود کے لیے گرانقدر خدمات کے اعتراف میں ان کے اعزاز میں ایک شاندار الوداعی تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈائریکٹر جنرل ا کی جانب سے کے باعث کے لیے کے بعد
پڑھیں:
مایوس کن بجٹ
وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافہ مایوس کن ہے۔ وفاقی بجٹ میں نجی شعبے میں کام کرنے والے لاکھوں افراد کی تنخواہوں میں اضافے کا معاملہ بجٹ میں شامل نہیں ہے اور اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوٹ(EOBI) کی پنشن میں اضافے کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔
وفاقی وزراء، اراکینِ پارلیمنٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500 فیصد اضافے کے مقابلے میں سرکاری اور ریٹائرڈ ملازمین کے لیے یہ اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ وزیر خزانہ سے جب پریس کانفرنس کے دوران سوال کیا گیا کہ بجٹ میں نجی شعبے کے کارکنوں کی کم سے کم تنخواہ کا معاملہ شامل نہیں ہے تو موصوف نے کہا کہ نجی شعبہ حکومت کے کم سے کم تنخواہ کے فیصلے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، یوں غریب کارکنوں کے ساتھ ناروا سلوک کی ایک اور مثال سامنے آگئی۔ یہ حقیقت ہے کہ مصارف زندگی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
حکومت نے اس بجٹ میں پٹرولیم کی مصنوعات پر فی لیٹرکاربن لیوی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عالمی منڈی میں ڈیزل، فرنس آئل اور پٹرول کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں، تاہم بجٹ کی دستاویزات کے عمومی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈیزل ، فرنس آئل، پٹرول پر 2.50 روپے لیوی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت بتدریج پٹرولیم پر عائد لیوی کو 100 روپے تک لے جائے گی، اگر عالمی منڈی میں پٹرول و ڈیزل کی قیمت مزید بڑھ گئی تو ہمارے ملک میں پٹرول کی قیمتیں نہ جانے کہاں تک پہنچیں گی، اس کا حتمی تعین تواعداد و شمار کے ماہرین ہی کرسکتے ہیں۔
وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں بجلی کے بلوں پر 10 فیصد سرچارج لگانے کا تذکرہ کیا تھا ۔ایک اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے بڑھتے ہوئے گردشی قرضے کو قابو میں لانے کے لیے سرچارج عائد کرنے کے لیے نیپرا کے قانون میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ترمیم سے حکومت کو ڈی ڈی ایس پی کے تحت سرچارج عائد کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔ اس رپورٹ کے مطابق حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایات پر ان اقدامات کے بارے میں فیصلہ کیا ہے۔ وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں اس فیصلے کو واپس لینے کا اعلان کیا ہے، مگر بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی ہدایت پر حکومت اس سال کسی نہ کسی طرح عمل کرے گی۔
بجٹ سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ 50 ہزار روپے ماہانہ سے ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدنی پر 2.5 فیصد انکم ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اس طرح حکومت کے پاس اضافی 9 ارب روپے جمع ہونگے۔ یہ رقم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے لیے استعمال کی جائے گی۔ حکومت نے مراعات یافتہ طبقے کو نوازنے کے لیے ایک اور فیصلہ کیا ہے جس کے تحت 22 لاکھ سے زائد آمدنی والے افراد جو زیادہ سے زیادہ 3 لاکھ سالانہ ٹیکس دیتے ہیں۔ اب سالانہ 2 لاکھ 42 ہزار روپے ٹیکس دیں گے۔ اسی طرح حکومت نے کھانا پکانے کے لیے استعمال ہونے والی اشیاء کے علاوہ ڈبل روٹی اور مکھن حتیٰ کہ انڈوں پر جی ایس ٹی کی شرح برقرار رکھی ہے۔
ان فیصلوں کے نتیجے میں حکومت کے دعوؤں کے باوجود مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ پٹرول، ڈیزل اور فرنس آئل پر عائد سرچارج کے نتیجے میں ٹرانسپورٹ کے کرایے بڑھیں گے۔ جب ٹرانسپورٹ مثلاً بسوں، ٹرالر اور ٹینکروں کو مہنگا فیول ملے گا تو پھر اس کی قیمت سمیت تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نتیجے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ اس وقت عام آدمی جن میں سرکار ی ملازمین بھی شامل ہیں کی آمدنی کا بیشتر حصہ مکان کے کرایوں، بچوں اور خاندان کے افراد کی صحت اور تعلیم کے مصارف، بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے۔
گزشتہ پانچ برسوں میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہزارگنا اضافہ ہوا ہے، اس کے نتیجے میں نچلے متوسط طبقے کے علاوہ متوسط طبقے کے خاندانوں کی بجلی اورگیس کے بلوں کی رقم مکان کے کرائے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اس وقت عام آدمی کے لیے ایک مسئلہ پرائیوٹ اسپتالوں کے اخراجات کے علاوہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کا بھی ہے۔ اس وقت تمام امراض کی ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ عام آدمی مناسب وقت پر مناسب مقدار میں دوائیں لینے سے محروم ہوگیا ہے۔ حکومت نے بجٹ میں اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، ان کے نتیجے میں فارما سوٹیکل کمپنیوں پر نیا بوجھ آئے گا، یہ صنعت پہلے ہی بحران کا شکار ہے۔
بھارت سے ادویات کی تیاری کے خام مال کی درآمد کرنے پر پابندی کی بناء پر ادویات پر آنے والی لاگت بڑھ گئی ہے۔ اب اس صورتحال میں ادویات کی قیمتیں مزید بڑھیں گی، جس کے نتیجے میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں یہ معمولی اضافہ کسی کام کا نہیں رہے گا۔ جب سے حکومت نے آئی ایم ایف کے مطابق اصلاحات کے لیے اپنی پالیسی کو سخت کیا ہے تو سارا نزلہ سول سرکاری ملازمین کی پنشن پر گررہا ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پنشن کی مراعات کم کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ شریکِ حیات کے انتقال کے بعد مکمل پنشن کی مدت 10 سال کردی گئی ہے۔ اب تک سرکاری پنشن کے قواعد و ضوابط کے تحت شریکِ حیات کے انتقال کی صورت میں بیوہ یا سرکاری ملازمہ کے شوہر کو تاحیات پنشن ملتی ہے، اگر پنشن پانے والے شخص کا انتقال ہوجائے تو ان کی غیر شادی شدہ بیٹی یا مطلقہ بیٹی کو یہ پنشن منتقل ہوجاتی ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا تھا کہ پنشن کے ان معاملات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہوتی ہے، یوں اربوں روپے غیر شفاف انداز میں استعمال ہوتے ہیں مگر حکومت نے پنشن کے نظام کو شفاف بنانے کے بجائے پنشن کی مراعات میں کمی کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ غریب سرکاری ملازمین کے لیے مایوس کن ہے۔ بیشتر سرکاری ملازمین اگر ایمانداری سے زندگی گزارتے ہیں تو ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا گزارہ پنشن پر ہوتا ہے۔ ایک بیوہ کی عمر کم ہو تو طویل زندگی کے لیے اس کے پاس پنشن کے علاوہ کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہوتا۔ اسی طرح غیر شادی شدہ بیٹی یا مطلقہ بیٹی کے پاس کوئی متبادل ذرایع آمدنی نہ ہو تو اس کا گزارہ پنشن پر ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پنشن کے معاملات مکمل طور پر شفاف ہونے چاہئیں۔
اس طرح کم از کم بیوہ کو تاحیات پنشن ملنی چاہیے۔ حکومت اس طرح کا طریقہ کار وضع کرے کہ اگر کسی سرکاری ملازم کی غیر شادی شدہ بیٹی یا مطلقہ بیٹی کے پاس آمدنی کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ ہے تو پھر تو اس کو پنشن نہیں ملنی چاہیے، تاہم اگر اس کا گزارہ باپ کے گھر پر ہو رہا ہے تو پھر اسے پنشن ملنی چاہیے۔ اسی طرح غیر سرکاری شعبے کے ملازمین کے لیے ای او بی آئی کی پنشن میں اضافہ نہ ہونا بھی مایوس کن ہے۔
روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے رواں مالیاتی سال کے دوران پارلیمنٹ کی پیشگی منظوری کے بغیر اپنے اخراجات کے لیے 345ارب روپے کی اضافی رقوم حاصل کی ہیں، اب حکومت نے قومی اسمبلی سے اس رقم کی منظوری طلب کی ہے اگرچہ حکومت نے اخراجات پر سخت کنٹرول کا دعویٰ کیا تھا مگر اتنی بڑی رقم کا خرچ ہونا معاشی نظم و ضبط پر ایک سوال ہے، حکومت جب اپنے اخراجات کے لیے یہ رقم قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر حاصل کرسکتی ہے، تو غریب لوگوں کی بہبود کے معاملے کوکیوں معاشی نظم و نسق کی آڑ لے کر پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
خبر یہ ہے کہ وزیراعظم نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا نوٹس لیا ہے، وزیر اعظم صاحب کو غریب سرکاری اور ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ اسلام آباد کے فیصلہ ساز ادارے کے ماہرین کو اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ پاکستان میں شہریوں کو سماجی تحفظ دینے کے لیے ریاست کا کردار مایوس کن ہے۔ اس لیے پنشن کے قوانین میں تبدیلی سے منفی نتائج برآمد ہونگے۔