راولپنڈی: اڈیالہ جیل سے امراض قلب کے اسپتال منتقل 3 قیدیوں میں سے ایک چل بسا
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
—فائل فوٹو
اڈیالہ جیل سے امراض قلب کے اسپتال منتقل 3 قیدیوں میں سے ایک چل بسا۔
جیل ذرائع کے مطابق 3 قیدیوں کو دل کی تکلیف پر امراض قلب کے اسپتال منتقل کیا گیا، ایک قیدی اسپتال منتقلی کے دوران ہی چل بسا، جسے اسپتال نے لینے سے انکار کر دیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انتقال کرنے والا قیدی تھانہ کلرسیداں میں منشیات کیس میں گرفتار تھا۔
جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل سے اسپتال منتقل بقیہ 2 قیدی قتل کے مقدمات کے ملزمان ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: اسپتال منتقل
پڑھیں:
قید کے پار روشنی؛ فلسطینی استقامت کی داستان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251026-03-7
میر بابر مشتاق
دنیا نے تاریخ میں بہت سے معجزات دیکھے، مگر کچھ معجزے صرف دیکھنے کے لیے نہیں، سمجھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ فلسطین آج بھی اسی معجزے کی سرزمین ہے۔ جہاں خون مٹی میں جذب ہو کر ایمان بن جاتا ہے، جہاں زخم چراغ بنتے ہیں، اور جہاں قید بھی آزادی کی علامت بن جاتی ہے جب اسرائیلی قیدی عمری میران کی رہائی کے مناظر دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر سامنے آئے تو بیش تر لوگوں نے صرف ایک اسرائیلی کی واپسی دیکھی، مگر حقیقت کا دوسرا رُخ کہیں زیادہ حیران کن تھا۔ دو سال سے زائد عرصے تک کسی قیدی کو زیرِ زمین سرنگوں میں محفوظ رکھنا، بغیر کسی شور، غل یا سراغ کے یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں۔ یہ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی گئی، یہ نظم، حکمت، صبر اور ایمان کی جنگ تھی۔ عمری میران کی جسمانی حالت بہتر تھی، چہرے پر غذائیت اور اطمینان کے آثار تھے۔ یہ صرف ایک پیغام تھا کہ حماس نے قیدی نہیں، امانتیں سنبھالیں۔ دنیا کے لیے یہ ناقابلِ یقین تھا کہ زمین کے نیچے، تباہی کے بیچ، اتنے عرصے تک کوئی زندہ، محفوظ اور پرامن رہ سکتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سیاست اور فوجی تزویرات ناکام ہو جاتی ہیں، اور ایمان کی تدبیر غالب آ جاتی ہے۔
سرنگوں میں زندگی… دن کی روشنی سے دور، زمین کی خاموشی تلے، پھر بھی دنیا کی مسلسل نگرانی سے بچا کر قیدیوں کو رکھنا یہ محض طاقت نہیں بلکہ غیر معمولی تدبیر، استقامت اور ضبط کا مظہر ہے۔ یہ واقعہ دنیا کو یہ باور کروا رہا ہے کہ طاقت ہمیشہ اسلحے میں نہیں ہوتی، کبھی کبھی وہ خاموشی، حکمتِ عملی اور ایمان کی روشنی میں چھپی ہوتی ہے۔ اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کی بسیں جب خان یونس کے ناصر میڈیکل کمپلیکس پہنچیں تو وہاں ایک عجیب منظر تھا۔ کچھ اپنے زخم دکھانے آئے تھے، اور کچھ اپنے زخم چھپانے۔ یہ قافلے صرف قیدیوں کے نہیں، صبر، قربانی اور امید کے قافلے تھے۔ ہر آزاد سانس، فلسطین کی فتح کی گواہ بن چکی تھی۔ اسی کاروان میں ایک نام نمایاں تھا خیری حسن سلامہ۔ نابلس کا یہ اسیر 23 سال بعد گھر لوٹ رہا تھا۔ اس کے بھتیجے، جنہوں نے اسے صرف تصویروں میں دیکھا تھا، آج قومی لباس پہن کر دروازے پر کھڑے تھے۔ ان کے لیے یہ ملاقات کسی خواب کے سچ ہونے جیسی تھی۔ سلامہ کو 15 جولائی 2003 کو گرفتار کیا گیا۔ وہ کتائب شہداء الاقصیٰ کے کمانڈروں میں سے ایک تھے، جنہوں نے دوسری انتفاضہ کے دوران اسرائیلی افواج کو ناکوں چنے چبوائے۔ ان پر عمر قید کی سزا سنائی گئی اور یہ ’’عمر‘‘ واقعی ایک پوری زندگی بن گئی۔
قید کا آغاز مگر اْس وقت ہوا تھا جب وہ صرف 13 سال کے بچے تھے۔ آزادی کا سبق انہوں نے پہلی گرفتاری کے دوران سیکھا۔ دو سال بعد رہا ہوئے، مگر جلد ہی دوبارہ مزاحمت میں شریک ہو گئے۔ انتفاضہ الاقصیٰ کے دوران جب ان کا نام اسرائیلی فوج کی فہرست میں آیا، تو ان کے گھر پر چھاپے پڑے، املاک مسمار کی گئیں، اہلِ خانہ کو ہراساں کیا گیا اور بالآخر وہ دن آیا جب وہ اپنے ایک سالہ بیٹے کو پیچھے چھوڑ کر قید میں چلے گئے۔ آج وہ بیٹا جوان ہے، خود باپ بن چکا ہے اور سلامہ کے پوتے پہلی بار اپنے دادا کو دیکھنے جا رہے ہیں۔ یہ صرف ایک خاندان کی خوشی نہیں، ایک قوم کی استقامت کی علامت ہے۔ سلامہ نے جیل میں تعلیم حاصل کی، سوشل ورک میں بیچلر ڈگری مکمل کی، اور ماسٹرز کے مراحل میں ہیں۔ انہوں نے قیدیوں کے درمیان تعلیم، نظم و ضبط اور اتحاد کی فضا قائم کی۔ مگر آزمائش ختم نہیں ہوئی۔
2019 میں ان کی والدہ کا انتقال ہوا، انہیں آخری دیدار کی اجازت نہ ملی۔ 2023 میں بھائی بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اور 7 اکتوبر کے بعد جب غزہ پر بمباری شروع ہوئی، تو جیلوں کے اندر فلسطینی قیدیوں کو اذیت، بھوک اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سلامہ کئی بار موت کے دہانے تک پہنچے، مگر ان کے ایمان کی روشنی بجھی نہیں۔ آج جب وہ واپس اپنے شہر نابلس پہنچے، تو فضاؤں میں اذان کی طرح ایک صدا گونجی! استقامت کی، وفا کی، اور آزادی کی۔ یہ ملاقات ایک نظریے کی جیت ہے، وہ نظریہ کہ صبر کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ ’’یہ چراغِ صبر جلتا ہے تو بجھنے نہیں پاتا؍ یہ وہ دل ہے جو ظلمت میں بھی اُجالا کرتا ہے‘‘۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق، 1966 فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہائی دی گئی۔ ان میں سے 1716 کو غزہ کے ناصر میڈیکل کمپلیکس کے قریب آزاد کیا گیا، جب کہ 250 قیدی جو طویل المدت یا عمر قید کی سزائیں کاٹ رہے تھے انہیں مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور بیرونِ ملک منتقل کیا گیا۔
یہ رہائی محض ایک سیاسی معاہدہ نہیں، ایک اخلاقی اور روحانی فتح ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں اس وقت بھی 11,100 سے زائد فلسطینی قید ہیں جو تشدد، بھوک اور طبی غفلت کے شکار ہیں۔ متعدد قیدی دورانِ حراست جاں بحق ہو چکے ہیں۔ فلسطینی اسیران کے دفتر اطلاعات کے ڈائریکٹر نے کہا: ’’قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی ایک عظیم قومی دن ہے۔ ان قیدیوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کئی دہائیوں سے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ قابض دجال ہمیشہ اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کرتا ہے‘‘۔ یہ الفاظ محض سیاسی بیان نہیں، ایک حقیقت کا اعتراف ہیں۔ اسرائیل کے تمام فوجی اور سیکورٹی منصوبے اْس ایمان کے سامنے ناکام ہیں جو قید میں بھی زندہ رہتا ہے، جو بھوک میں بھی سجدہ نہیں چھوڑتا، اور جو زنجیروں کے بیچ بھی آزادی کا خواب دیکھتا ہے۔ دنیا کی جنگیں اب ہتھیاروں سے نہیں جیتی جاتیں، نظریات سے جیتی جاتی ہیں۔ فلسطینی مجاہدین نے جس صبر، نظم اور خفیہ تدبیر کا مظاہرہ کیا، اس نے جدید اسرائیلی انٹیلی جنس کو بھی مفلوج کر دیا۔ سرنگوں کے نیچے زندگی کی حفاظت کرنا، قیدیوں کو انسانی احترام کے ساتھ رکھنا، اور پھر انہیں معاہدے کے تحت سالم واپس کرنا، یہ صرف عسکری نہیں بلکہ اخلاقی برتری کا ثبوت ہے۔
یہی اصل معجزہ ہے کہ ظلم کی تاریکی میں بھی روشنی بجھتی نہیں۔ فلسطینی قیدی جب آزادی کی ہوا میں سانس لیتے ہیں تو دنیا کے ہر باضمیر انسان کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی داستان ہے جو قید میں بھی آزاد رہے، اور آزادی میں بھی عاجز۔ یہ لمحہ امتِ مسلمہ کے لیے ایک دعوتِ فکر ہے کہ ایمان، نظم، اور صبر کی قوت اگر حماس جیسے گروہ میں زندہ ہے تو کیوں نہیں وہی جذبہ ہماری پوری امت میں بیدار ہو؟ یہ رہائی دراصل ایک اعلان ہے کہ فتح کبھی صرف توپ اور ٹینک سے نہیں آتی، بلکہ ایمان، عزم، اور صبر کے سنگم سے جنم لیتی ہے۔ دنیا کے نقشے پر فلسطین اب صرف ایک خطہ نہیں رہا، وہ ایک نظریہ ہے؛ جو ہر اس انسان کے دل میں زندہ ہے جو ظلم کے خلاف کھڑا ہونا جانتا ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس کے قیدی بھی فاتح ہیں، جس کی ماؤں کے آنسو بھی دعا بن جاتے ہیں، اور جس کے بچے بھی دنیا کو آزادی کا مطلب سکھا رہے ہیں۔ قید کے پار روشنی صرف فلسطینیوں کی نہیں، انسانیت کی داستان ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو ظلمت میں بھی بجھتی نہیں کیونکہ یہ روشنی ایمان سے جلتی ہے۔