دسمبر 2024ء میں ملکی برآمدات 3.05 ارب ڈالرز، درآمدات 4.77 ارب ڈالرز، جبکہ تجارتی خسارہ 1.72 ارب ڈالرز رہا۔ اسلام ٹائمز۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ دسمبر 2024ء کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس 58.20 کروڑ ڈالرز، جبکہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس 1.21 ارب ڈالرز رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال 2024ء کی پہلی ششماہی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1.

39 ارب ڈالرز تھا۔ دسمبر 2024ء میں ملکی برآمدات 3.05 ارب ڈالرز، درآمدات 4.77 ارب ڈالرز، جبکہ تجارتی خسارہ 1.72 ارب ڈالرز رہا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال کی پہلی ششماہی میں برآمدات 7 فیصد اضافے سے 16.22 ارب ڈالرز اور مالی سال 2025ء کی پہلی ششماہی کی درآمدات 9 فیصد اضافے سے 27.74 ارب ڈالرز رہیں۔ اسٹیٹ بینک کا یہ بھی کہنا ہے کہ پہلی ششماہی کا تجارتی خسارہ 13 فیصد اضافے سے 11.51 ارب ڈالرز رہا۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ارب ڈالرز رہا کرنٹ اکاؤنٹ اسٹیٹ بینک مالی سال

پڑھیں:

زری پالیسی اور معیشت کی مضبوطی

زری پالیسی کا اعلان ہو چکا، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اعداد و شمار کاغذوں پر بچھا دیا تھا، جیسے شطرنج کی بساط پر مہرے اور ہر مہرہ اپنی چال چلنے کو بے تاب۔ کہا جا رہا تھا کہ تجارتی خسارہ بڑھنے کے امکانات ہیں۔

گزشتہ مالی سال کا تجارتی خسارہ 26.5 ارب ڈالرز ایک ایسا زخم ہے جو ابھی مندمل نہ ہوا تھا کہ پھر اعداد و شمار گویا ہوئے کہ ماہ جولائی میں 16 فی صد تجارتی خسارہ ہو گیا، اس کا مطلب درآمدات کی پیاس ابھی بجھی نہیں جس کی گواہی کراچی کی بندرگاہ دے رہی تھی۔ جہاں دیوہیکل بحری جہاز پرائے مالوں سے لدے ہوئے گودی پر لنگر انداز ہو رہے تھے۔ مزدور سامان ڈھو ڈھو کر تھک چکے تھے، مہنگائی کا خوف چائے کی چسکیوں کو بد مزہ کر رہا تھا، اسٹیٹ بینک ترسیلات زر میں اضافے سے متعلق پرامید ہے۔

کیوں کہ اس ملک میں ترسیلات زر ہی ایک امید کا چراغ ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے پاکستانی اپنی کمائی کا حصہ اپنے گھروں کو بھیجتے ہیں اور اس سال ان میں اضافے کی توقع ہے لیکن اس خوشی کو نظر لگ جائے گی، عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافہ، درآمدی بل میں زیادہ اضافہ، ڈالر کی اونچی اڑان کے باعث۔ تجارت میں اب بھی درآمدات کا پلڑا بھاری ہے اور اگر برآمدات میں اضافے کی تدبیر نہ کی گئی تو خسارہ شطرنج کا ایسا کھیل بن جائے گا جہاں ایک غلط چال اگلی تین چالوں کو مات دے سکتی ہے۔ ایسے میں بساط کا بادشاہ بھی آج فریاد کر رہا ہے کہ ہم اپنی قسمت کے قیدی ہیں، ہم قرض کی زنجیروں کو توڑ سکتے ہیں یا یہ زنجیریں ہی ہماری پہچان بن جائیں گی، ایسے میں اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار رپورٹوں میں تو خوش آیند نظر آئیں گے، زندگی میں خوشحالی کے روپ میں نظر نہیں آئیں گے۔

اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جی ڈی پی سوا تین سے سوا چار فی صد تک متوقع ہے۔ یہ تو مالی سال ختم ہونے پر معلوم ہوگا کہ جی ڈی پی کتنے فی صد رہی۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے کی امید ہے، شرح سود کم کرکے 10.5 فی صد تک لا سکتے ہیں۔ فی الحال ستمبر تک موخر کر دیا گیا ہے، ان باتوں کے علاوہ مہنگائی، عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، توانائی کے نرخوں میں تبدیلی اور دیگر عالمی عوامل ایسے ہیں جو خطرے کی صورت میں موجود ہیں، ترسیلات زر میں ممکنہ اضافہ، یہ نازک روشنی کا وہ مینار ہے جس نے اس ملک کو تاریکی سے بچائے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی قرضوں کا سونامی بھی ہے، جو معیشت کو بہا لے جانے کے لیے بار بار طوفانی شکل اختیار کرتا رہا، لیکن ہم ہر بار بچ بچا کر نکل جاتے رہے ہیں۔

اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر تک پہنچنے والے ہیں اب اس کے ساتھ ارد گرد کا ماحول زیادہ خطرناک ہو رہا ہے،کیونکہ گلیوں میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، مہنگائی کا شور سنائی دے رہا ہے، چینی مہنگی سے مہنگی ہونے کی دہائی دی جا رہی ہے۔ چھپے گوداموں کا منہ کھولتے ہیں تو وہاں سے چینی کی بند بوریاں ملتی ہیں، بے روزگاروں کا جم غفیر فیکٹری کے گیٹ تک پہنچتا ہے تو بڑا سا تالہ لگا دیکھتے ہیں، حقیقی جی ڈی پی میں اضافے کی نوید پاکستان دے رہا ہے، لیکن یہ شرح نمو ایک ننھی کلی کی مانند اس لیے ہوگئی ہے کہ یہ بہار کے انتظار میں ہے، لیکن یہ بہار جب ہی آئے گی جب کمپنی بہادر کی مرضی ہوگی کیونکہ ان کے خیال میں شرح نمو ساڑھے تین فی صد تک ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی شرح نمو 3.1 فی صد تک متوقع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شرح نمو کی امید بہار کو شدید خطرات ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کئی عالمی خطرات کی درست نشان دہی کی ہے۔ پاکستان کی معیشت انھی اندیشوں اور امید کے درمیان جھول رہی ہے، اس کے لیے ہمیں احتیاط اور محنت کرنے کو اپنا ہتھیار بنا کر اپنی ایکسپورٹ کو بنگلہ دیش، ویتنام، تھائی لینڈ کے طرز پر 50 ارب ڈالر سے بھی کہیں آگے لے جانا ہوگا۔ ہمیں کراچی کے ایک چھوٹے سے دفتر میں بیٹھ کر ایکسپورٹ آرڈر کی فائل دیکھنے والے کی مایوسی دورکرنا ہوگی، کیونکہ اب ایکسپورٹ کی لاگت بڑھ گئی ہے، شپنگ اخراجات بڑھ گئے ہیں، ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے، عالمی مارکیٹ میں مسابقت بڑھ رہی ہے، لہٰذا ایکسپورٹر، کارخانے دار، مل اونرز کے چہروں پر خوشی لانی ہوگی۔ جب کہیں جا کر کارخانوں کے بند تالے کھلیں گے، لوگوں کو روزگار ملے گا اور پاکستان کی معیشت جب مضبوط ہوگی جب عوام کی معیشت میں مضبوطی آئے گی۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی: پانی کی موٹر سے کرنٹ لگ کر ایک شخص جاں بحق
  • 8 ہزار ارب روپے کا تاریخی بجٹ خسارہ ہونے کے باوجود احسن اقبال کا 2800 ارب روپے کی بچت ہونے کا حیران کن دعوٰی
  • آسٹریلیا میں بھارتی طلبا چھٹیوں میں چوریاں کرنے لگے؛ 10 ملین ڈالرز کی نقب
  • پاکستان کے ارب پتی بزنس ٹائیکون کی فہرست منظر عام پر آگئی
  • اسٹیٹ بینک نےجدید ترین پیمنٹ وسیٹلمنٹ سسٹم’’پرزم پلس‘‘تیار کر لیا
  • زری پالیسی اور معیشت کی مضبوطی
  • وزیراعظم شہباز شریف سے ‘چیلنج فیشن پرائیویٹ لمیٹڈ‘ چین کے وفد کی ملاقات
  • آزاد کشمیر میں مون سون بارشوں سے تباہی، جانی و مالی نقصانات کی تفصیلات جاری
  • پاکستان کا ارب پتی بزنس ٹائیکون اور خاندان کون؟ فہرست سامنے آگئی
  • ٹوبہ ٹیک سنگھ : کرنٹ لگنے سے دو بہنیں جاں بحق