بینچز اختیارات پر سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ WhatsAppFacebookTwitter 0 23 January, 2025 سب نیوز


اسلام آباد: بینچز اختیارات کیس میں ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کے خلاف توہین عدالت کیس میں فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے بینچز اختیارات کا کیس سماعت کےلیے مقرر نہ کرنے پر ایڈیشنل رجسٹرارکے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے سامنے بنیادی سوال یہ ہےکہ جوڈیشل آرڈرکی موجودگی میں ججزکمیٹی کیس واپس لے سکتی تھی؟ کیا جوڈیشل آرڈرکو انتظامی آرڈر سے تبدیل نہیں کیاجاسکتا؟ اس پر عدالتی معاون وکیل حامد خان نے کہا کہ انتظامی آرڈر سے عدالتی حکم نامہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔
جسٹس منصور نے کہا کہ ہمارے سامنے کیس ججزکمیٹی کے واپس لینے سے متعلق ہے، چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس امین الدین خان ججزکمیٹی کاحصہ ہیں، بادی النظر میں 2 رکنی ججز کمیٹی نےجوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، اگر ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر اندازکریں تو معاملہ فل کورٹ میں جاسکتا ہے؟ اس سوال پر معاونت دیں۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے اس معاملے پر کنفیوژن تو ہے، ماضی میں بینچز ایسے بنے جیسے معاملات پر رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار تھا، اب سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات ختم کر دیے گئے ہیں، 26 ویں آئینی ترمیم کا سوال آجائے گا۔
جسٹس منصور نے سوال کیا کیا کسی ملک میں بینچز عدلیہ کی بجائے ایگزیکٹو بناتاہے؟کوئی ایک مثال ہو؟ اس پر حامد خان نے کہا بینچز عدلیہ کی بجائے ایگزیکٹو بنائے ایسا کہیں نہیں ہوتا۔
جسٹس منصور شاہ ریمارکس دیے آرٹیکل 191 اے کے تحت آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن بنائے گا، جسٹس عقیل نے کہا 191 اے کو سامنے رکھیں تو کیا یہ اوورلیپنگ نہیں ہے؟ اس پر حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے علاوہ ہر عدالت کے دائرہ اختیارکا فیصلہ کرسکتی ہے مگر پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کمزور نہیں کر سکتی۔
وکیل حامد خان نے کہا پریکٹس اینڈپروسیجرکمیٹی کے پاس آئینی بینچ کے کیسز مقرر کرنے کا اختیار ہے، اس پر جسٹس منصور نے سوال کیا اگر کمیٹی جوڈیشل آرڈر فالو نہیں کرتی تو پھر کیا ہو گا؟ راجہ عامر کیس میں بھی فل کورٹ بنا تھا۔
بینچوں کے اختیارات کے کیس کا 26 ویں ترمیم سے تعلق نہیں، کوئی خود سے ڈرے تو الگ بات ہے: جسٹس منصور
جسٹس منصور نے سوال کیا آرٹیکل 2 اےکے تحت پریکٹس اینڈپروسیجرکمیٹی کیس واپس لےسکتی ہے یا نہیں؟ کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کرسکتی ہے؟ اس پر حامد خان نے کہا کہ پروسیجر کمیٹی کےجوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کرنے والی صورتحال نہیں ہونی چاہیے۔
جسٹس منصور نےسوال کیا سپریم کورٹ رولز 1980 کےتحت فل کورٹ چیف جسٹس بنائیں گے یا پریکٹس پروسیجرکمیٹی؟ کیاجوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججزکمیٹی کو بھجوایاجاسکتاہے؟
دوسری جانب ذرائع کا بتانا ہے کہ ایڈیشنل رجسٹرارسپریم کورٹ نذرعباس نے شوکاز نوٹس کا جواب عدالت میں جمع کروا دیا۔
ذرائع کے مطابق ایڈیشنل رجسٹرار نے اپنے جواب میں عدالت سے شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی، عدالتی حکم پربینچ بنانےکے معاملے پرنوٹ بنا کرپریکٹس پروسیجرکمیٹی کوبھجوا دیا تھا۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ لیگل معاملات بینچز اور عدالتیں ہی حل کرتی ہیں، کمیٹی بھی سر آنکھوں پر، رولز بھی سر آنکھوں پر ہیں۔
عدالتی معاون وکیل احسن بھون نے کہا کہ چیف جسٹس کمیٹی کے سامنے معاملہ رکھیں، پارلیمنٹ کا اختیار دو تہائی اکثریت کے ساتھ وفاق میں قانون سازی کرناہے، کمیٹی بینچ کے سامنے ٹھیک کیسز مقرر کرتی ہے۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیے چیف جسٹس پھر کیاکریں؟ یعنی آپ کہہ رہےہیں کمیٹی نےٹھیک کیا؟ مسئلہ کمیٹی کے سامنے رکھیں؟ اس پر احسن بھون نے جواب دیا فل کورٹ جوڈیشل آرڈر کےتحت نہیں ہوسکتا ورنہ فساد ہوجائےگا، یہاں ادارے کوتباہ کرنے میں لوگ لگے ہوئے ہیں، ہرکوئی اپنی پارلیمنٹ،اپنے ججز، اپنی سپریم کورٹ چاہتا ہے۔
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم ادارے کو بچانے کے لیے ہی لگے ہوئے ہیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد میں سنایا جائیگا۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس بینچز اختیارات جوڈیشل ا رڈر کو حامد خان نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلہ محفوظ نے کہا کہ سوال کیا چیف جسٹس کمیٹی کے کیس میں فل کورٹ

پڑھیں:

جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 ستمبر2025ء ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم دے دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی جہاں چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے کیس سماعت کی، اس موقع پر وکلاء کی کثیر تعداد کمرہ عدالت پہنچی، ڈسٹرکٹ بار اور ہائیکورٹ بار کی کابینہ بھی کمرہ عدالت میں موجود رہی، شیر افضل مروت بھی کمرہ عدالت پہنچے، تاہم جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف درخواست گزار میاں داؤد آج پیش بھی نہیں ہوئے اور التواء کی استدعا کی گئی لیکن پھر بھی جج کو کام سے روک دیا گیا۔

دوران سماعت وکیل راجہ علیم عباسی نے دلائل دیئے کہ ’ہماری صرف گزارش ہے کہ یہ خطرناک ٹرینڈ ہے اگر یہ ٹرینڈ بنے گا تو خطرناک ٹرینڈ ہے، سپریم کورٹ کے دو فیصلے موجود ہیں، اس درخواست پر اعتراض برقرار رہنے چاہئیں‘، عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ اس کیس میں فریق ہیں؟‘، وکیل اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ ’ہم قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، بار ایسوسی ایشنز سٹیک ہولڈرز ہیں‘۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے ریمارکس دیئے کہ ’حق سماعت کسی کا بھی رائٹ ہے ہم نے آفس اعتراضات کو دیکھنا ہے، عدالت کے سامنے ایک اہم سوال ہے جس کو دیکھنا ہے، اگر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہو تو کیا ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟‘، بعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک عدالت نے کیس ملتوی کردیا، سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ آنے تک کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر علی اوصاف عدالتی معاون مقرر کردیا۔

متعلقہ مضامین

  • رجسٹرار سپریم کورٹ سلیم خان کی رخصت کا نوٹی فیکیشن جاری کر دیا گیا
  • سپریم کورٹ نے عمر قید کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا
  • وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے، سید سعادت اللہ حسینی
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کا جوڈیشل ورک سے روکنے کا آرڈر چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • فخر زمان کو سپریم کورٹ رجسٹرار کا عارضی چارج دے دیا گیا
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کیخلاف اپیل خارج کردی
  • جسٹس سرفراز ڈوگر کیخلاف شکایت، ایمان مزاری نے اضافی دستاویزات جمع کرادیں
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم
  • سپریم کورٹ: تہرے قتل کے مجرم اورنگزیب کی اپیل پر فیصلہ محفوظ
  • سپریم کورٹ: ساس سسر کے قتل کے ملزم کی سزا کیخلاف اپیل مسترد، عمر قید کا فیصلہ برقرار