بینچز اختیارات پر سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
بینچز اختیارات پر سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ WhatsAppFacebookTwitter 0 23 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: بینچز اختیارات کیس میں ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کے خلاف توہین عدالت کیس میں فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔
سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے بینچز اختیارات کا کیس سماعت کےلیے مقرر نہ کرنے پر ایڈیشنل رجسٹرارکے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے سامنے بنیادی سوال یہ ہےکہ جوڈیشل آرڈرکی موجودگی میں ججزکمیٹی کیس واپس لے سکتی تھی؟ کیا جوڈیشل آرڈرکو انتظامی آرڈر سے تبدیل نہیں کیاجاسکتا؟ اس پر عدالتی معاون وکیل حامد خان نے کہا کہ انتظامی آرڈر سے عدالتی حکم نامہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔
جسٹس منصور نے کہا کہ ہمارے سامنے کیس ججزکمیٹی کے واپس لینے سے متعلق ہے، چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس امین الدین خان ججزکمیٹی کاحصہ ہیں، بادی النظر میں 2 رکنی ججز کمیٹی نےجوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، اگر ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر اندازکریں تو معاملہ فل کورٹ میں جاسکتا ہے؟ اس سوال پر معاونت دیں۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے اس معاملے پر کنفیوژن تو ہے، ماضی میں بینچز ایسے بنے جیسے معاملات پر رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار تھا، اب سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات ختم کر دیے گئے ہیں، 26 ویں آئینی ترمیم کا سوال آجائے گا۔
جسٹس منصور نے سوال کیا کیا کسی ملک میں بینچز عدلیہ کی بجائے ایگزیکٹو بناتاہے؟کوئی ایک مثال ہو؟ اس پر حامد خان نے کہا بینچز عدلیہ کی بجائے ایگزیکٹو بنائے ایسا کہیں نہیں ہوتا۔
جسٹس منصور شاہ ریمارکس دیے آرٹیکل 191 اے کے تحت آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن بنائے گا، جسٹس عقیل نے کہا 191 اے کو سامنے رکھیں تو کیا یہ اوورلیپنگ نہیں ہے؟ اس پر حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے علاوہ ہر عدالت کے دائرہ اختیارکا فیصلہ کرسکتی ہے مگر پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کمزور نہیں کر سکتی۔
وکیل حامد خان نے کہا پریکٹس اینڈپروسیجرکمیٹی کے پاس آئینی بینچ کے کیسز مقرر کرنے کا اختیار ہے، اس پر جسٹس منصور نے سوال کیا اگر کمیٹی جوڈیشل آرڈر فالو نہیں کرتی تو پھر کیا ہو گا؟ راجہ عامر کیس میں بھی فل کورٹ بنا تھا۔
بینچوں کے اختیارات کے کیس کا 26 ویں ترمیم سے تعلق نہیں، کوئی خود سے ڈرے تو الگ بات ہے: جسٹس منصور
جسٹس منصور نے سوال کیا آرٹیکل 2 اےکے تحت پریکٹس اینڈپروسیجرکمیٹی کیس واپس لےسکتی ہے یا نہیں؟ کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کرسکتی ہے؟ اس پر حامد خان نے کہا کہ پروسیجر کمیٹی کےجوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کرنے والی صورتحال نہیں ہونی چاہیے۔
جسٹس منصور نےسوال کیا سپریم کورٹ رولز 1980 کےتحت فل کورٹ چیف جسٹس بنائیں گے یا پریکٹس پروسیجرکمیٹی؟ کیاجوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججزکمیٹی کو بھجوایاجاسکتاہے؟
دوسری جانب ذرائع کا بتانا ہے کہ ایڈیشنل رجسٹرارسپریم کورٹ نذرعباس نے شوکاز نوٹس کا جواب عدالت میں جمع کروا دیا۔
ذرائع کے مطابق ایڈیشنل رجسٹرار نے اپنے جواب میں عدالت سے شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی، عدالتی حکم پربینچ بنانےکے معاملے پرنوٹ بنا کرپریکٹس پروسیجرکمیٹی کوبھجوا دیا تھا۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ لیگل معاملات بینچز اور عدالتیں ہی حل کرتی ہیں، کمیٹی بھی سر آنکھوں پر، رولز بھی سر آنکھوں پر ہیں۔
عدالتی معاون وکیل احسن بھون نے کہا کہ چیف جسٹس کمیٹی کے سامنے معاملہ رکھیں، پارلیمنٹ کا اختیار دو تہائی اکثریت کے ساتھ وفاق میں قانون سازی کرناہے، کمیٹی بینچ کے سامنے ٹھیک کیسز مقرر کرتی ہے۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیے چیف جسٹس پھر کیاکریں؟ یعنی آپ کہہ رہےہیں کمیٹی نےٹھیک کیا؟ مسئلہ کمیٹی کے سامنے رکھیں؟ اس پر احسن بھون نے جواب دیا فل کورٹ جوڈیشل آرڈر کےتحت نہیں ہوسکتا ورنہ فساد ہوجائےگا، یہاں ادارے کوتباہ کرنے میں لوگ لگے ہوئے ہیں، ہرکوئی اپنی پارلیمنٹ،اپنے ججز، اپنی سپریم کورٹ چاہتا ہے۔
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم ادارے کو بچانے کے لیے ہی لگے ہوئے ہیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد میں سنایا جائیگا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس بینچز اختیارات جوڈیشل ا رڈر کو حامد خان نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلہ محفوظ نے کہا کہ سوال کیا چیف جسٹس کمیٹی کے کیس میں فل کورٹ
پڑھیں:
مخصوص نشستوں پر بحال 77 اراکین اسمبلی سے متعلق اہم فیصلہ
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)مخصوص نشستوں کے نظر ثانی کیس میں سپریم کورٹ آئینی بینچ کے فیصلے کے بعد بحال ہونے والے 77 اراکین اسمبلی سے متعلق اہم فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے مخصوص نشستوں پر نظر ثانی کیس کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں پر معطل 77 اراکین کو بحال کر دیا تھا۔ اب ان کی تنخواہوں سے متعلق بڑا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پارلیمانی ذرائع کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں پر بحال اراکین کو معطلی کے عرصہ کی تنخواہیں بھی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر 13 مئی 2024 کو مخصوص نشستوں پر معطل ہونے والے 77 اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کو ان کی معطلی کے روز سے تنخواہ جاری کی جائے گی۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے قومی اسمبلی کے مجموعی طور پر 22 اراکین معطل ہوئے تھے جن میں 19 خواتین اور 3 اقلیتی اراکین شامل تھیں۔ ذرائع نے بتایا کہ 22 میں سے 19 اراکین کی بحالی کو نوٹیفکیشن ہوچکا، تین کا باقی ہے۔ قومی اسمبلی کے مذکورہ 19 اراکین کو 13 مئی سے لے کر عدالتی فیصلے کی تاریخ تک بنیادی تنخواہیں ادا کی جائیں گی۔ تاہم انہیں ٹی اے ڈی اے اور دیگر الاؤنسز نہیں ملیں گے۔
مذکورہ اراکین کو 13 مئی 2024 سے 31 دسمبر 2024 تک ڈیڑھ لاکھ روپے فی رکن بنیادی تنخواہ جب کہ یکم جنوری 2025 سے عدالتی فیصلے تک حال ہی میں اضافہ کی گئی تنخواہ کے تناسب سے بنیادی تنخواہ دی جائے گی۔
صوبائی اسمبلیوں میں بحال 55 مخصوص نشستوں کے اراکین کو بھی بنیادی تنخواہ ایکٹ کے مطابق ادا کی جائے گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کے مطابق تمام جماعتوں کو ما سوائے تحریک انصاف (سنی اتحاد کونسل) ان کی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں الاٹ کر دی گئی تھیں۔
پی ٹی آئی (سنی اتحاد کونسل) نے مخصوص نشستوں کے لیے پہلے الیکشن کمیشن اور پھر پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ تاہم فیصلہ ان کے حق میں نہ آ سکا اور یہ مخصوص نشستیں ن لیگ، پی پی، جے یو آئی (ف) سمیت پارلیمنٹ میں موجود دیگر جماعتوں کو دے دی گئیں۔
پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ سال 12 جولائی کو الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی (سنی اتحاد کونسل) کو اس کی جنرل نشستوں کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کا اہل قرار دے دیا تھا۔
اس سے قبل سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دیگر جماعتوں کو دی گئی مخصوص نشستوں پر 77 اراکین کو معطل کرنے کے احکامات دیے تھے، جس کے اگلے روز 13 مئی 2024 کو ان کی معطلی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا تھا۔
تاہم سپریم کورٹ آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے نظر ثانی کیس میں گزشتہ سال کے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا تھا جس کے تحت پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہو گئی تھی۔
مزیدپڑھیں:بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا منہ توڑ اور سوچ سے بڑھ کر جواب دیا جائے گا: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر