فرقہ وارانہ فسادات معاملہ میں بھارت کیلئے 2024ء تشویشناک رہا
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
سی ایس ایس ایس کی یہ رپورٹ 2024ء میں فرقہ وارانہ فسادات اور ہجومی تشدد دونوں کا ایک جامع تجزیہ فراہم کرتی ہے، جو ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے واضح مظہر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سنٹر فار دی اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرزم (سی ایس ایس ایس) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مغربی ہندوستان، خصوصاً مہاراشٹر فرقہ وارانہ فسادات کا مرکز رہا جہاں 59 میں سے 12 فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ سی ایس ایس ایس کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں 2024ء کے دوران 59 فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ یہ نمبر 2023ء کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں، کیونکہ اُس سال 32 فسادات درج کئے گئے تھے۔ اس طرح دیکھا جائے تو فرقہ وارانہ فساد کے واقعات 2023ء کے مقابلے 2024ء میں 84 فیصد بڑھے ہیں۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ 59 میں سے فرقہ وارانہ فسادات کے 49 معاملے ان ریاستوں میں پیش آئے جہاں بی جے پی یا اس کی اتحادی حکومت ہے۔
سی ایس ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق 2024ء میں جو 59 فسادات سامنے آئے، ان میں 13 ہلاکتیں ہوئیں۔ مہلوکین میں 10 مسلم طبقہ سے اور 3 ہندو طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کا مغربی خطہ، خصوصاً مہاراشٹر ان فسادات کا مرکز رہا جہاں 59 میں سے 12 فسادات ہوئے۔ بیشتر فرقہ وارانہ فسادات مذہبی تہواروں یا جلوسوں کے دوران پیش آئے۔ جنوری 2024ء میں جب ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کی تقریب منعقد ہوئی تو اس کے آس پاس 4 فرقہ وارانہ فسادات پیش آئے۔ علاوہ ازیں 7 فسادات سرسوتی پوجا مورتی وسرجن کے دوران 4 گنیش تہواروں کے دوران اور 2 عیدالاضحیٰ کے دوران رونما ہوئے۔ یہ اعداد و شمار فرقہ وارانہ کشیدگی اور مذہبی تقریبات کے وقت پیدا ہونے والے حالات کو نمایاں کرتے ہیں۔
درج کردہ فرقہ وارانہ فسادات کے علاوہ 2024ء میں ہجومی تشدد یعنی ہجومی تشدد کے 13 واقعات بھی سامنے آئے۔ ان ہجومی تشدد کے واقعات میں 11 افراد جاں بحق ہوئے۔ مہلوکین میں ایک ہندو، ایک عیسائی اور 9 مسلم شامل ہیں۔ اگرچہ یہ 2023ء میں درج کئے گئے 21 واقعات سے کم ہیں، لیکن اس طرح کے حملوں کا مسلسل ہونا ایک سنگین تشویش کا باعث ہے۔ سی ایس ایس ایس کی یہ رپورٹ 2024ء میں فرقہ وارانہ فسادات اور ہجومی تشدد دونوں کا ایک جامع تجزیہ فراہم کرتی ہے، جو ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے واضح مظہر ہے۔ سی ایس ایس ایس نے اپنی یہ رپورٹ ممتاز اخبارات کی رپورٹس کو سامنے رکھ کر تیار کی ہے۔
ان اخبارات میں ٹائمز آف انڈیا، دی ہندو، دی انڈین ایکسپریس، صحافت (اردو) اور انقلاب (اردو) کے ممبئی ایڈیشن شامل ہیں۔ سی ایس ایس ایس کے اعداد و شمار کے مطابق 2023ء کے مقابلے 2024ء میں ان 5 اخبارات میں رپورٹ ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے واقعات میں 84 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2024ء میں پیش آئے 59 فرقہ وارانہ فسادات میں سے مہاراشٹر میں سب سے زیادہ 12 واقعات پیش آئے جبکہ اترپردیش اور بہار میں 7-7 واقعات رونما ہوئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فرقہ وارانہ فسادات سی ایس ایس ایس کی میں فرقہ وارانہ کے دوران پیش ا ئے تشدد کے
پڑھیں:
بھارتی خلائی مشن کی حقیقت، فیک نیوز واچ ڈاگ کی چشم کشا ء رپورٹ منظرعام پر آگئی
اسلام آباد(صغیر چوہدری )بھارتی خلائی مشن کی حقیقت، فیک نیوز واچ ڈاگ کی چشم کشا ء رپورٹ منظرعام پر آگئی
فیک نیوز واچ ڈاگ”وائٹ پیپر ” نے بھارتی خلائی پروگرام کی حقیقت کو بے نقاب کر دیابھارتی قومی و سوشل میڈیا پر بھارتی خلائی مشن کی کوریج محض ڈرامہ تھی،
فیک نیوز واچ ڈاگ کے 65 صفحات پر مشتمل وائٹ پیپر نے بھارتی خلائی مشن پر سوالات اٹھا دیئے
چندرایان 3 کے “لائیو” دکھائے گئے مناظر درحقیقت کمپیوٹر جنریٹڈ گرافکس پر مشتمل تھے، اسرو کا “کمانڈ سینٹر” ٹی وی پر دکھائے جانے والے چندرایان-3 کے مناظر میں ایک اسٹیج شدہ ماحول پیش کرتا رہا
فیک نیوز واچ ڈاگ کے مطابق
اسرو نے چاند کی جنوبی قطب پر اترنے کا دعویٰ کیا، جبکہ لینڈنگ پوائنٹ اصل قطب سے 630 کلومیٹر دور واقع تھا، بھارت کا چندرایان 3 مشن بین الاقوامی سائنسدانوں، بالخصوص چینی ماہرین کے اعتراضات کا شکار ہے، چندرایان-3 مشن کے بعد نہ مناسب سائنسی ڈیٹا شائع کیا گیا اور نہ ہی “لینڈر و ور” کی معلومات فراہم کی گئیں،
بھارت کا خلائی مشن چندرایان 3 ،اسرو کی شفافیت اور ساکھ پر سوالیہ نشان ہے، بھارتی حکومت اور گودی میڈیا نے ان خلائی مشنز کو سائنسی کامیابی کے طور پر پیش کیا،
حقائق کے مطابق بھارت کے خلائی مشنز صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور علاقائی طاقت کا مظاہرہ تھے،
چندرایان-3 میں خودکار نیویگیشن اور روور کی آزاد حرکت کے دعوے بھی فنی خرابیوں کی وجہ سے پورے نہ ہو سکے،فیک نیوز واچ ڈاگ کی رپورٹ کے مطابق;
’’بھارتی خلائی پروگرام کے پیچھے بی جے پی حکومت کے عسکری عزائم اور اسے پاکستان اور چین کیخلاف استعمال کرنا ہے‘‘2019 میں کیے گئے خلائی تجربے “مشِن شکتی”، ڈیفنس اسپیس ایجنسی، اور ڈیفنس اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن جیسے ادارے بھارت کے خلاء میں عسکری عزائم کی علامت ہیں،بھارت کی جانب سے سیٹلائٹ ٹیکنالوجی، میزائل ڈیفنس سسٹمز اور نگرانی کے نظام میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی گئی،
بھارتی خلائی ادارے اسرو کے چیئرمین* کے مطابق:
“بھارت کے 56 میں سے 10 سیٹلائٹ دن رات بھارت کی افواج کے لیے نگرانی، نیویگیشن اور کمیونیکیشن کے مقاصد کے لیے کام کر رہے ہیں””آپریشن سندور” میں بھی ان سیٹلائٹس کا استعمال کیا گیا،
مودی حکومت کی “Space Vision 2047” اور “Make in India” مہم دراصل باعث فخر نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقے کے ٹیکنالوجیکل نیشنلزم کا پرچار ہے،
بھارت کا دفاعی بجٹ 86 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، جو کہ پاکستان سے 9 گنا زیادہ ہے، بھارت میں 30 کروڑ سے زائد افراد صاف پانی، بجلی اور بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں بھارتی حکومت اور گودی میڈیا مصنوعی ذہانت کی مدد سے جعلی ویڈیوز پر قومی بیانیہ مرتب کرنے میں ناکام ہےبھارتی میڈیا اس سے قبل بھی جعلی خبریں چلانے پر عالمی ہزیمت اٹھا چکا ہے